کراچی میں لوڈ شیڈنگ کے ذمہ دار ہم نہیں وفاقی حکومت ہے، کے الیکٹرک کا نیپرا کو جواب

وقت پر درآمد نہ کیے جانے کی وجہ سے نہ صرف کے الیکٹرک کے پلانٹس میں تیل ختم ہوگیا بلکہ خود حکومتی پلانٹس کی پیداوار بھی متاثر ہوئی، لوڈ شیڈنگ میں اضافہ 22 جون سے ہوا، گرمیوں میں ان علاقوں میں بھی بجلی بند کرنا پڑتی ہے جنھیں استثنی حاصل ہے : سربراہ کے الیکٹرک مونس علوی

975

اسلام آباد : کراچی میں جاری بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ کی ذمہ داری کے الیکٹرک نے اپنے سر لینے کے بجائے وفاقی حکومت کو قصور وار ٹھرا دیا۔

شہر قائد میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے معاملے پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں عوامی سماعت ہوئی جس میں کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹیو مونس علوی کا کہنا تھا کہ صورتحال کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہے جس نے وقت پر تیل کی درآمد کی اجازت نہیں دی۔

لوڈ شیڈنگ کے معاملے پر ہونے والی عوامی سماعت میں عوامی نمائندے، تکنیکی ماہرین، مختلف اداروں کے نمائندگان، تاجر حضرات، صحافی اور عوام شریک تھے۔

سماعت نیپرا کے چئیرمین توصیف ایچ فاروقی کی زیر صدارت ہوئی اور اس میں نیپرا کے چاروں صوبائی نمائندوں نے بھی شرکت کی۔

کے الیکٹرک کے سربراہ نے نیپرا کو بتایا کہ کراچی میں لوڈ شیڈنگ میں اضافہ 22 جون سے ہوا جبکہ اس سے پہلے شہر میں تین سے ساڑھے سات گھنٹوں کے لیے بجلی بند رکھی جاتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) نے خط لکھ کر وفاقی حکومت کو تیل کی ضرورت سے آگاہ کیا تھا اور اسکی درآمد کی اجازت طلب کی تھی

مگروقت پر اجازت نہ ملنے سے نہ صرف کے الیکٹرک کے پلانٹس میں تیل ختم ہو گیا بلکہ خود حکومتی پاور پلانٹس کی پیداوار بھی متاثر ہوئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گرمیوں میں طلب میں اضافے کے باعث کراچی میں ان علاقوں میں بھی لوڈ شیڈنگ کرنا پڑتی ہے جنھیں اس حوالے سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ قومی گرڈ سے اضافی بجلی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے بھی صورتحال خراب ہوئی۔ اس وقت کے الیکٹرک نیشنل گرڈ سے 720 سے 730 میگاواٹ بجلی لے رہا ہے۔

نیپرا کے چئیرمین نے اس موقع پر سربراہ کے الیکٹرک سے استفسار کیا کہ آیا 22 جون سے لوڈ شیڈنگ بڑھنے کی ذمہ داری کے الیکٹرک پرڈالی جا سکتی ہے؟ تو کے الیکٹرک کے سربراہ نے جواب دیا کہ ہمیں اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

اس پر چئیرمین نیپرا نے کہا کہ کے الیکٹرک کو طلب بڑھنے کا پہلے سے ہی علم ہونا چاہیے تھا اور اس حوالے سے پیشگی اقدامات کرنے چاہییں تھے۔

اس موقع پر رکن قومی اسمبلی آفتاب صدیقی نے کہا کہ کے الیکٹرک صارفین کو بھاری بھر کم بل بھیجتی ہے مگر اس نے اپنا ڈسٹری بیوشن سسٹم کیوں بہتر نہیں بنایا؟

سماعت کے دوران ایک موقع ایسا بھی آیا جب کے الیکٹرک کے سربراہ کمرہ عدالت سے اُٹھ کر چلے گئے اور ادارے کے چیف فنانس آفیسر (سی ایف او) نے عوامی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی تو نیپرا کے چئیرمین نے انھیں ایسا کرنے سے روکتے ہوئے پوچھا کہ کے الیکٹرک کے سی ای او کہاں ہیں؟

جس پر انھیں بتایا گیا کہ وہ وزارت توانائی کے ساتھ فون کال پرمصروف ہیں۔

اس پر نیپرا کے سربراہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کے الیکٹرک کے چیف کو سماعت کے دوران کمرہ عدالت سے باہر نہیں جانا چاہیے تھا۔

اس موقع پر سندھ کے وزیر توانائی امتیاز شیخ نے شہر قائد  میں لوڈشیڈنگ کے معاملے پر عوامی سماعت پر نیپرا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں یہ مسئلہ بہت سنگین ہے اور نیپرا کو خود آ کر اس کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔

انکا کہنا تھا کہ وہ کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھرانا چاہتے مگر وفاقی حکومت کو اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔

اس پر نیپرا کے وائس چئیرمین سیف اللہ چٹھہ کا کہنا تھا کہ اتھارٹی جلد ہی شہرکا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لے گی۔

سماعت کے موقع پر کراچی کے وکلا نے سوال کیا کہ کیا نیپرا کے الیکٹرک کی اجارہ داری ختم کرے گی ؟

جس کے جواب میں چئیرمین نیپرا نے انھیں یقین دلاتے ہوئے کہا کہ اتھارٹی توانائی کے شعبے میں مسابقت کو یقینی بنائے گی۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر شاہد ستار کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل ملز کو بجلی کے علاوہ گیس بھی پوری نہیں دی جا رہی ایسے میں نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا؟

اس پر نیپرا چئیرمین کا کہنا تھا کہ سماعت کا مقصد سب کو سن کر معلومات اور حقائق اکٹھے کرنا تھا اور اس حوالے سے فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔

سماعت کے حوالے سے نیپرا کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ شہر قائد میں لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے چار رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو شہر کا دورہ کرکے معاملے کی تحقیقات کرے گی اور اگلے ہفتے کے اختتام تک اپنی رپورٹ جمع کروائے گی۔

اس کمیٹی میں نیپرا حکام کے علاوہ توانائی کے شعبے کے ماہرین شامل ہونگے اور اسکی سربراہی ڈی جی مانیٹرنگ اینڈ انفورسمنٹ کریں گے اور اس کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں مزید کاروائی کی جائے گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here