2017 سے 22 فیصد گراوٹ کے بعد پاکستانی روپیہ حقیقی قدر کے قریب پہنچ گیا : آئی آئی ایف

موجودہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہونے کی وجہ کرنسی کی قدر میں کمی ہی ہے، کورونا کے باعث درآمدات میں کمی ہوئی ہے جس سے کرنسی کو استحکام ملا ہے، فی الحال پاکستانی روپے کی قدر میں کمی نہیں ہونی چاہیے اور وسائل برآمدات بڑھانے کے لیے استعمال ہونے چاہیے : انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس

700

لاہور : انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس کا اپنی ایک رپورٹ میں کہنا ہے کہ 2017 سےابتک پاکستانی روپے کی قدر میں 22 مرتبہ کمی ہوئی۔

جس کے نتیجے میں اسکا کرنٹ اکاؤنٹ کے بارے میں اندازہ تھوڑا سا بڑھ گیا ہے جبکہ مقامی کرنسی مقامی مناسب قدر کے قریب آگئی ہے۔

ادارے کے فئیر ویلیو ماڈ ل کے مطابق پاکستانی روپے نے گزشتہ کچھ عرصے میں اپنی قدر تیزی سے کھوئی ہے جس میں سال 2020 بھی شامل ہے۔

اس ڈیٹا کے مطابق  2020 میں پاکستانی روپے کی قدر میں 5 فیصد کمی ہوئی جس کا ایک سبب کورونا وبا کا پھوٹنا بھی ہے۔

ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا موجودہ کرنٹ اکاؤنٹ تھوڑا سا سرپلس ہے جس کی وجہ کرنسی کی قدر میں کمی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک ہفتے میں سٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 7.2 فیصد کا اضافہ

پاکستان کے 1.8 ارب ڈالر کے قرضے ری شیڈول ہوگئے 

روپے، کساد بازاری اور ابھرتی ہوئی مارکیٹوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس کے ایم ڈی اور چیف اکنامسٹ روبن بروک کا پرافٹ اردو سے بات چیت میں کہنا تھا کہ ” ایک چیز جس کا ہم نے مشاہدہ کیا وہ یہ تھا کہ کساد بازاری میں درآمدات میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ ملک کے اندر اشیا کی مانگ میں کمی ہوجاتی ہے۔

یہ نا خوشگوار چیز ہے مگر اس سے بیلنس آف پیمنٹس میں استحکام آتا ہے اور ڈالروں کی بچت ہوتی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ہمیں اُمید ہے کہ یہ چیز پاکستکان سمیت اُبھرتی ہوئی مارکیٹوں میں کرنسی کی قدر میں استحکام کا باعث بنے گی اور یہی وجہ ہے کہ روپے کے حوالےسے ہمارا ویلیو سگنل اس وقت نیوٹرل ہے۔

پرافٹ اردو سے گفتگو میں انکا مزید کہنا تھا کہ اگر آپ اوپن اکانومی ہیں تو ایکسچینج ریٹ کو اپنی جگہ سے کم ہی ہلنا چاہیے ۔

لیکن پاکستان کے معاملے میں ہمارے تجزیے میں جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں اکانومی اوپن نہیں ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ معیشت کو اوپن ہونے میں وقت لگتا ہے خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب دنیا وبا کی لپیٹ میں ہے۔

لہذا پاکستانی روپے کو فی الحا ل اپنی جگہ پر رہنا چاہیے اور اسکی قدر میں کمی نہیں ہونی چاہیے تاکہ وسائل کا استعمال برآمدات کو بڑھانے کے لیے کیا جاسکے۔

پچھلے ماہ روپیہ ڈالر کے مقابلے میں دباؤ کا شکار رہا اور 169.50 کی سطح تک پہنچ گیا تھا۔ تاہم جون میں اسٹیٹ بنک کے پاس 3 ارب ڈالر آنے سے اس کی گراوٹ کا سلسلہ تھم گیا اور یہ 166-167 کی سطح پر آگیا۔

حالہ ہی میں ختم ہونے والے مالی سال 2019-20 میں روپے کی قدر میں 4.8 فیصد کمی آئی۔

2001 سے روپے کی قدر میں ہر سال اوسطً 5.4 فیصد کمی ہوئی جبکہ جولائی 2017 کے بعد سے ابتک ڈالر کے مقابلے میں اسکی قدر 58 فیصد تک کم ہوچکی ہے۔

مالی سال 2021 میں بھی ڈالر کے مقابلے میں روپیہ دباؤ کا شکار ہی رہے گا اور ایسا کورونا کے برآمدات اور ترسیلات زر پر پڑھنے والے اثرات کے باعث ہوگا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here