مہلک کورونا کے باوجود کیا چیز ہے جو تاجروں کو کاروبار کھولنے پر مجبور کیے ہوئے ہے؟

2106

کوویڈ 19 کی عالمگیر وباء سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے اقدامات میں ملک کی تاجر برادری کی خواہشات کا کافی عمل دخل نظر آتا ہے کیونکہ کورونا کے کیسز سامنے آنے پر حکومت نے بیماری کا پھیلاؤ روکنے کے لئے لاک ڈاؤن کے نفاذ میں انتہائی سست روی کا مظاہرہ کیا۔

لیکن جب لاک ڈاؤن ہوا تو حکومت نے نہ صرف عوام کو ملے جلے پیغامات جاری کیے جو کبھی لاک ڈاؤن کے حق میں ہوتے تو کبھی مخالفت میں تو یہ صاف نظر آنا شروع ہوجاتا کہ حکومت کاروباری برادری کی جانب سے بھرپور دباؤ کا سامنا ہے، اسی دبائو کے نتیجے میں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز اور اس کی تشخیص کی کم صلاحیت کے باوجود لاک ڈاؤن میں وقت سے پہلے نرمی ہونا شروع ہو گئی۔

تاجر برادری کے تمام طبقات لاک ڈاؤن سے مشتعل ہونا شروع ہو گئے تھے۔ مکمل لاک ڈاؤن تو ایک مہینہ بھی نہیں چلا اور حکومت نے اسے ہٹا کر سمارٹ لاک ڈٓاؤن کی طرف جانے کا اعلان کر دیا  جس کا مقصد کاروباری سرگرمیاں دوبارہ شروع کرکے بے روزگاری سے بچنا تھا۔

سمارٹ لاک ڈائون ایک نئی اصطلاح تھی جس نے وزیراعظم عمران خان کو اقوام عالم میں ایک لیڈر کی حیثیت سے کھڑا کر دیا تھا۔ اس کے تحت متعدد کاروباروں کے لیے پابندیاں نرم کرکے ہفتے میں چار دن صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دی گئی، ایسا احتیاطی تدابیر پر عمل نہ ہونے  کی صورت میں دوبارہ مکمل لاک ڈٓاؤن کی تنبیہ کے ساتھ کیا گیا۔

عید پر منافع کمانے کے لیے بے چین تاجروں نے بھی احتیاطی تدابیر پر عمل کروانے کا وعدہ کرنے میں دیر نہ لگائی۔ حکومت کو توقع تھی کہ لوگ احتیاطی تدابیر کا خیال رکھیں گے مگر اس کے برعکس عوام کی بڑی تعداد نے بغیر کسی احتیاط کے عید کی خریداری کے لیے بازاروں کا رُخ کیا، اس دوران تاجر بھی ایس او پیز پر عمل درآمد کروانے میں  ناکام رہے۔

اگرچہ کچھ  دکانوں میں لوگوں کی محدود تعداد کو اندر آنے کی اجازت تھی مگر ان دکانوں کے باہر انتظار کرتے گاہکوں کی قطاریں وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن گئیں۔

دکانوں کے باہر طویل قطاروں میں کھڑے لوگوں کی ویڈیوز، جن میں حفاظتی ماسک لوگوں کے منہ کے بجائے گلے میں لٹکے ہوئے نظر آئے، سے تشوییش نے جنم لیا۔

اس بات کا خدشہ تھا کہ عید کی شاپنگ ختم ہونے کے بعد وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گا مگر وزیر اعظم اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے سربراہ اسد عمر یہی پیغام دیتے رہے کہ کورونا ایک عام سا فلو ہے اور اس سے بہت زیادہ  گبھرانے کی ضرورت نہیں لہٰذا لوگوں نے بلاخوفٖ اور بے احتیاطی کے ساتھ بڑی تعداد میں مارکیٹوں کا رُخ کیا۔

سندھ نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کو زیادہ سنجیدگی سے لیا اور خلاف ورزیوں پر پوری پوری مارکیٹیں بند کردیں جبکہ پنجاب میں معاملات زیادہ تر اس کے برعکس رہے، مثال کے طور پر لاہور میں ماڈل ٹاؤن کی لنک روڈ جیسے تجارتی مراکز ہفتوں تک خریداروں سے بھرے رہے۔

اس دوران پولیس حکومتی احکامات پر عمل درآمد کروانے کے لیے آتی ضرور رہی تاہم بغیر کوئی کارروائی کیے صرف مارکیٹ بند کرانے کی دھمکی دے کر چلی جاتی۔

یہ وہ موقع تھا جب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے تجویز پیش کی کہ تاجروں کی جانب سے معاشرتی دوری کے ضوابط کی خلاف ورزی کے بعد حکومت کو ایک اور لاک ڈاؤن لگانا چاہیے مگر وزیراعظم نے اپنے معاون خصوصی کے ساتھ اتفاق نہیں کیا۔

عید کے دنوں میں ہونے والی لاپرواہیوں اور اس کے نتیجے میں کیسز میں اضافے کے بعد اُمید کی جا رہی تھی کہ ملک میں دوبارہ لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوگا مگر اس کے بجائے وزیر اعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن اُٹھانے کا اعلان کردیا تاہم کاروباروں کو شام 7 بجے تک کھلے رہنے کی اجازت دی گئی۔

وزیراعظم کے اس اقدام کے بعد تاجروں کا طرز عمل کچھ یوں تھا کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں، یہاں تک کہ لاہور، جو کہ وائرس کا گڑھ بن گیا ہے، میں تاجروں نے ابھی تک معاملے کا صحیح ادراک ہی نہیں کیا حتیٰ کہ انہیں اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں۔

کیا تاجر کورونا وائرس سے خوفزدہ نہیں ہیں؟

تاجروں کی جانب سے کورونا وائرس کو سنجیدہ نہ لینا پریشان کن ہے، اب اس کی وجہ چاہے جانتے بوجھتے صرف کاروبارکی خاطر آنکھیں بند کرنا ہو، حکومت کے کنفیوژن پر مبنی بیانات ہوں یا پھر وٹس ایپ پر گردش کرنے والی جھوٹی سچی معلومات، مگر بات یہ ہے کہ وائرس کے حوالے سے سنجیدگی نظر نہیں آ رہی۔

اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (آئی سی سی آئی) کے صدر محمد احمد وحید نے پرافٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ تاجروں کو کورونا کا کوئی خوف نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کاروبار اس لیے کھولنا چاہتے ہیں کہ بہت سے لوگ  بے روزگار ہو رہے تھے، یہ وہ لوگ ہیں جو یومیہ اجرت پر دکانوں پر کام کرتے ہیں، البتہ ہم نے دکانداروں سے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی درخواست کی ہے۔

مزدوروں کا مسئلہ وہی ہے جس کو حکومت نے لاک ڈاؤن کو لے کر اپنے بیانیے کا مرکزی نقطہ بنایا ہے یعنی روزگار کو زندگی پر ترجیح دینا۔ ایسا لگتا ہے کہ شعبہ طب اور باقی دنیا کی اجتماعی دانش کے مقابلے میں تاجر اپنی مرضی کرکے خوش ہیں۔

آل پاکستان انجمنِ تاجران کے جنرل سیکرٹری نعیم میر نے پرافٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ کہ تاجروں اور کاروباری طبقے کو وائرس کا کوئی خوف نہیں بلکہ وہ بیروزگاری اور سرمائے کی قلت کے خوف کا شکار ہیں۔

’جن لوگوں کی دکانیں ہیں وہ  آمدنی نہ ہونے کا سوچ کر پریشان ہیں، چھوٹے تاجر کو گاہکوں میں دلچسپی ہوتی ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ کوئی گاہک کچھ خریدے بغیر واپس چلا جائے۔ٗ

ایوان صنعت و تجارت لاہور کے صدرعرفان شیخ کہتے ہیں کہ شروع میں تاجر کورونا وائرس کو سنجیدہ نہیں لے رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ کوئی چیز نہیں ہے مگر اب ان کے ارد گرد لوگ متاثر ہورہے ہیں تو انہوں نے بھی وائرس کے حوالے سے سنجیدگی اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی بھی اس سطح  کی احتیاط نہیں کی جارہی جس کی ضرورت ہے اور اب بھی معاشی سرگرمیاں تاجروں کے لیے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے مگر تاجروں کو درپیش معاشی مسائل بھی کسی طور کم اہم نہیں، تین ماہ کے لاک ڈاؤن کے باعث تاجر اپنی جمع پونجی خرچ کرچکے ہیں۔

عرفان شیخ نے کہا کہ تاجروں اور دکانداروں کو اپنے گھر چلانے کے علاوہ اپنے ملازمین کو بھی اجرت دینا ہوتی ہے اور تین ماہ کے لاک ڈٓاؤن کے باعث انکی مالی حالت بہت خستہ ہو چکی ہے۔ اب اگر کورونا کی صورتحال بہتر ہو بھی جائے تو بھی تاجروں کے لیے لاک ڈاؤن کے باعث ہونے والا نقصان پورا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

اُدھر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (کے سی سی آئی) کے صدر آغا شہاب احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں لوگ خود کو ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں اور وہ وائرس کو تب تک سنجیدہ لینے کو تیار نہیں جب تک وہ خود اس کا شکار نہ ہوجائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ خود کو ہیرو سمجھتے ہیں اور چاہے دکاندار ہوں یا عام لوگ وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتے، بد قسمتی سے لوگوں کو صورت حال کا ادراک تب ہوگا جب ان کا کوئی اپنا وائرس کا شکار ہو گا۔ لوگوں کا کورونا کے حوالے سے رویہ نیات افسوسناک اور غیر ذمہ دارانہ ہے اور وہ سمجھتے ہے کہ ان کا مدافعتی نظام بہت مضبوط ہے۔

شہاب احمد خان نے مزید کہا کہ یہ سوچ غلط ہی نہیں بلکہ خوفناک بھی ہے، حد تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں وہ بھی اسے سنجیدہ نہیں لے رہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ کورونا مریضوں کے لواحقین ہسپتالوں کے باہر احتجاج کرتے ہیں اور کورونا کو فراڈ قرار دیتے ہیں۔

اس صورتحال میں تاجروں سے کیسی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ وائرس کو سنجیدہ لیں، مزید برآں حکومت کے ملے جلے پیغامات جس میں کبھی کورونا سے ڈرایا جاتا ہے اور کبھی نہ گبھرانے کی بات کی جاتی ہے اس کی پاکستان کیا قیمت چکائے گا؟

کم از کم ایس او پیز پر تو عمل کریں 

کورونا وائرس کو لے کر غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ لاک ڈٓاؤن اُٹھائے جانے کے بعد ایس او پیز پر عمل نہیں کیا جا رہا، اسلام آباد کے ایوان صنعت و تجارت کے صدر محمد احمد کہتے ہیں کہ مسئلہ دکانداروں کی طرف سے آ رہا ہے جبکہ صنعتیں احتیاطی تدابیر پر عمل کر رہی ہیں۔ اس پر ہمارا واضح مؤقف ہے کہ خلاف ورزی کرنے والے دکانداروں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے اور انہیں بھاری جرمانوں کے علاوہ سیل بھی کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اسلام آباد میں تاجروں سے بات کی ہے اور وہ ایس او پیز پر عمل درآمد کر رہے ہیں، دکانوں پر سینی ٹائزرز اور ماسک کا استعمال کیا جارہا ہے اور سماجی فاصلے کا خیال رکھا جا رہا ہے، تاہم دکانوں کے اندر اور باہر کی صورتحال میں فرق ہے۔ دکانوں کے اندر تو ایس او پیز پر عمل کیا جارہا ہے مگر دکانوں سے باہر کی صورتحال کو دکاندار قابو نہیں کرسکتا، برینڈز کے باہر لوگ سماجی دری کی ضرورت کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک دوسرے کے انتہائی قریب کھڑے ہوتے ہیں اور میری تجویز ہے کہ اس چیز کو انتظامیہ اور حکومت کو دیکھنا چاہیے۔

صدر اسلام آباد چیمبر کی بات درست بھی ہے، حکومت کو نہ صرف بھرپور آگہی پھیلانی چاہیے بلکہ بازاروں اور مارکیٹوں میں رَش اور ہجوم کے خاتمے کے لیے پولیس کی مدد لینی چاہیے مگر اسکے لیے حکومت کو ذرا سختی سے کام لینا پڑے گا اور ایس او پیز سے غفلت برتنے والوں کو سزائیں دینا ہوں گی۔

عرفان اقبال شیخ کا اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایس او پیز پر عمل در آمد کروانے کے حوالے سے تاجروں کو ایک دوسرے کا بھی احتساب کرنا چاہیے اور حکومت اور تاجروں کا ایک صفحے پر ہونا بھی بہت ضروری ہے۔

آغا شہاب کا اس حوالے سے مؤقف تھا کہ ”بڑے شہروں جیسا کہ کراچی اور لاہور کی مارکیٹیں کافی تنگ اور چھوٹی ہیں لہٰذا شہریوں کے ان میں داخلے کے لیے کوئی نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایس او پیز پر عمل درآمد میں ڈسپلن بہت اہمیت کا حامل ہے اور اسکا ہمارے ہاں فقدان ہے۔ سماجی فاصلے کی بات کی جائے تو آبادی کا حجم بڑا ہے اور دکانوں اور مارکیٹوں کا سائز چھوٹا ہے جس کی وجہ سے رش پیدا ہوجاتا ہے اور سماجی دوری قائم نہیں رکھی جاسکتی۔‘‘

کم از کم پنجاب کی حد تک حکومت وزیراعظم کے مؤقف کی عملی تائید کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ عوام اور تاجروں کو کورونا سے اپنا تحفظ خود کرنا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر صنعت و تجارت پنجاب میاں اسلم اقبال کہہ چکے ہیں کہ وائرس سے بچنے کی تمام تر ذمہ دار اب عوام اور تاجروں پر پے اور حکومت کے لیے ہر دکان پر ایس او پیز کی عمل داری کے حوالے سے نظر رکھنا ممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی دکان میں بغیر ماسک کے داخل ہوتا ہے تو یہ دکان دار کی ذمہ داری ہے کہ اسے ماسک فراہم کرے اور جو دکاندار ماسک نہیں فراہم کرسکتا اسے چاہیے کہ وہ اپنی دکان بند کر دے کیوں کہ ہم ایس او پیز کی خلاف ورزی  کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔

میاں اسلم اقبال کا مزید کہنا تھا کہ اگر کہیں ایس او پیز کی خلاف ورزی پائی گئی تو پوری مارکیٹ کو بند کردیا جائے گا  اور نگرانی کی نیت سے ہم مارکیٹوں کے اچانک دورے کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاپراواہی کے باعث وائرس پھیل رہا ہے اور یہ تاجروں کی ذمہ داری ہے کہ ہفتے کے  جن دو دنوں میں کاروبار نہیں ہوتا ان میں مارکیٹ میں سپرے کروائیں۔

کیا لاک ڈاؤن کا ہٹایا جانا واقعی بہت ضروری تھا؟

پرافٹ اردو بہت پہلے بتا چکا ہے کہ لاک ڈٓاؤن کیوں ضروری ہے اور معاشی طور پر عوام کو کس طرح امداد باہم پہنچا کر لاک ڈائون کا نفاذ کیا جا سکتا ہے؟ لاک ڈاؤن کے آغاز سے ہی لوگوں کو کم از کم بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے رقم کی فراہمی کی تجاویز دی جاتی رہیں مگر کسی نے ان پر کان نہیں دھرے۔

حکوت اُلٹا یہی اصرار کرتی رہی کہ لاک ڈٓاؤن مسئلے کا حل نہیں ہے حالانکہ دانشور دماغ اس کے نفاذ کی نصیحت کر رہے تھے۔ حکومت کی یہ سوچ تاجروں میں بھی پائی جاتی ہے،  انجمن تاجران کے نعیم منیر نے پرافٹ اردو سے بات چیت میں کہا کہ لاک ڈاؤن کو ہٹانا بہت ضروری تھا کیونکہ یہ مسئلے کا حل نہیں اور کورونا سے لڑنے کا کوئی دوسرا طریقہ ڈھونڈنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت چھوٹے دکانداروں کو کاروبار کھولنے کی اجازت نہ دیتی تو لوگ فاقوں اور غربت سے مر جاتے۔

اسے المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو بھوک سے مرنے کی فکرہے مگر ایک مہلک بیماری کی کوئی پرواہ نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کی مدد یا تو کرنا ہی نہیں چاہتی تھی یا پھر وہ اس کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی حالانکہ یہ ناممکن نہیں تھا۔

لیکن تاجر حلقوں کی سوچ ایک ہی نقطے پر اٹکی ہوئی ہے اور وہ ہے کہ لاک ڈٓاؤن مسئلے کا حل نہیں ہے۔ وزیراعظم اور تاجروں کا مؤقف ایک جیسا ہے اور اس بات کا فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کون کیا ہے؟

عرفان اقبال شیخ کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن ختم کرنا ضروری تھا۔ ’اب ہمیں وائرس کے ساتھ جینا سیکھنا ہوگا جیسا کہ ہم دوسرے امراض کیساتھ زندگی گزار رہے ہیں، لاک ڈٓاؤن کوئی حل نہیں ہے۔‘

اس سٹوری کے لیے ہم نے جن لوگوں کے ساتھ بات کی ان میں آغا شہاب سب سے زیادہ سمجھدار اور سلجھی ہوئی شخصیت تھے مگر انکا مؤقف بھی باقی تاجروں جیسا ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈٓاؤن برقرار نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ مارکیٹوں کا کھلا رہنا معیشت کے لیے ضروری ہے، دکاندار دو ماہ کے لیے تو نقصان برداشت کرسکتے ہیں مگر اس کے بعد ان کے لیے کاروبارکی بندش کو سہنا بہت مشکل چیز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں دو طرح کے ملک ہیں ایک وہ جن کے پاس سرمائے کی بہتات ہے اور دوسرے وہ جن کے پاس سرمایہ تو زیادہ نہیں مگر افرادی قوت وافر ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ آبادی زیادہ ہے اور بیرون ملک رہنے والے پاکستانی جو کہ زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہیں وہ اس وبا کے باعث واپس آرہے ہیں لہذا پاکستان کی کاروباری برادری کے لیے واپس آنے والے لوگوں کو روزگار کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

 تاجروں کے حقیقی مسائل کیا ہیں؟

لاک ڈاؤن میں نرمی کے باوجود تاجربرادری مطمئن نہیں، اگرچہ حکومت یومیہ اجرت والے مزدوروں کے حقوق کی چیمپئن بنی ہوئی ہے مگر تاجر اور کاروباری برادری نے اپنے منافع کے لیے انکی اجرتوں میں کمی کر دی ہے۔

ایوان صنعت و تجارت اسلام آباد کے صدر محمد احمد وحید کے مطابق اگر کورونا کے معاشی اثرات پر غور کیا جائے تو تاجر تباہ ہوچکے ہیں۔ عید اور گرمیوں میں شاپنگ سیزن ہوتا ہے مگر اس وبا کے باعث تاجروں کو کاروبار میں شدید مندی کا سامنا ہے، ایسا کوئی کاروبار نہیں ہے جس کی آمدنی پچاس فیصد سے کم متاثر ہوئی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر لاک ڈٓاؤن ایک مہینہ اور بڑھا دیا جاتا تو بہت سے کاروبار دیوالیہ ہو جاتے، حکومت نے خصوصی پیکج دے کر تعمیراتی صنعت کو کچھ سہارا تو دیا مگر اس کے مکمل ثمرات تب ہی مل سکیں گے جب شناختی کارڈ کی شرط ختم کردی جائے گی۔

’ہماری  کوشش ان کاروباروں کی بحالی ہے جنھیں اس وبا کے باعث شدید نقصان پہنچا ہے، حکومت کو چاہیے کہ سیلز ٹیکس مزید کم کیا جائے کیونکہ ہمیں سرمائے کی قلت کا سامنا ہے۔‘

آغا شہاب نے بھی پرافٹ اردو کو بتایا کہ ڈیمرج چارجز درآمد کنندگان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہیں اور اس مسئلے پر کراچی چیمبر آف کامرس میں کافی اجلاس ہو چکے ہیں۔ کنٹینرز پر پڑی ہوئی اشیاء بندرگاہ پر پھنسی ہوئی ہیں اور بیرونی کمپنیاں جو ہماری بندرگاہیں چلا رہی ہیں وہ حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر بھی عمل نہیں کر رہیں۔

انکا کہنا تھا کہ ان کمپنیوں نے پاکستان سے بہت منافع کمایا ہے مگر اب یہ درآمد کنندگان کو ریلیف دینے پر تیار نہیں، ان کمپنیوں کو سمجھنا چاہیے کہ ایک درآمد کنندہ جو لاک ڈاؤن کے باعث اپنا سامان فروخت نہیں کرسکتا وہ اپنا کنٹینر چھڑانے کے لیے ادائیگی کیسے کرے گا؟

’انہیں ایسٹ انڈیا کمپنی جیسا رویہ نہیں اپنانا چاہیے بلکہ درآمد کنندگان کے ڈیمرج چارجز معاف کردینے چاہییں اور حکومت کو بھی معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے۔‘

تاجر آخر کیا چاہتے ہیں؟

مہلک کورونا کے مریضوں کی تعداد میں نا قابل یقین اضافہ اور اموات کے باوجود تاجر کورونا سے پہلے والے حالات کی واپسی چاہتے ہیں۔

آل پاکستان انجمن تاجران کے سربراہ نعیم میر کہتے ہیں کہ مسئلے کا حل یہی ہے کہ کاروبار کو مکمل کھولا جائے کیونکہ اگر کاروبار کُھلا ہوگا تو لوگوں کو یہ اطمینان ہوگا کہ ان کی آمدنی کا ذریعہ کھلا ہے۔ جب ایک دکاندار کو محدود وقت کے لیے دکان کھولنے کی اجازت ہو گی تو اسکی کوشش زیادہ سے زیادہ گاہک حاصل کرنے کی ہوگی اور وہ ایس او پیز پر دھیان نہیں دے گا۔

نعیم میر نے مزید کہا کہ گرمیوں میں لوگ گھروں سے کم نکلتے ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ میں رَش کم ہوتا ہے جبکہ موجودہ حالات میں تو لوگوں کی قوت خرید بھی کم ہوگئی ہے اس لیے کاروبار سست روی کا شکار ہیں۔

یہاں تاجروں کی بات کچھ درست بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کم وقت کے لیے دکانیں کھولنے کی اجازت سے وائرس مزید پھیلنے کا خدشہ ہے کیونکہ بازاروں کے محدود وقت کے لیے کھلنے کی وجہ سے زیادہ لوگ دکانوں کا رُخ کرتے ہیں تاکہ اپنی ضرورت کی چیز کی خرید سکیں۔

انکا کہنا تھا کہ اگرچہ ایسا نظام بنایا جاسکتا ہے کہ جس میں لوگوں کو مرحلہ وار بازاروں کا رُخ کرنے کی اجازت دی جائے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گرمیوں میں لوگ شام یا رات کے اوقات میں زیادہ باہر نکلتے ہیں۔

محمد احمد کا کہنا  تھا کہ انہوں نے تاجروں کو ریلیف دینے  کے لیے حکومت کو پراپرٹی ٹیکس موجودہ شرح سے نصف کرنے کی تجویز دی ہے جوکہ قابل عمل اور قابل فہم چیز ہے۔

انکا کہنا تھا کہ یوٹیلٹی بل تاجروں پر ایک بہت بڑا بوجھ ہیں جن پر ٹیکس کم کرکے انہیں ریلیف دیا جاسکتا ہے کیونکہ پراپرٹی ٹیکس اور یوٹیلٹی بلوں کا تاجر کی آمدنی پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔

آغا شہاب کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کا کام حکومت کرنا ہے نہ کہ تاجروں کا پیٹ پالنا اس لیے اسے تاجروں کو کاروبار میں آسانی فراہم کرنا چاہیے نہ کہ انہیں امداد دینا۔

ان کا کہنا تھا کہ تاجر چاہتے ہیں کہ حکومت اپنا کام کرے اور ہمیں اپنا کرنے دے ہاں مگر چھوٹے تاجروں کے لیے اسے ضرور بیل آؤٹ پیکج کا اعلان کرنا چاہیے اور انہیں یوٹیلٹی بلوں میں چھوٹ دینی چاہیے کیونکہ لوگوں کی قوت خرید کم ہوئی ہے مگر تاجروں کے اخراجات نہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here