اسلام آباد: وزارت خزانہ نے میڈیا کے بعض حصوں میں شائع ہونے والی اُن خبروں کی تردید کی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کی پہلی آڈٹ رپورٹ میں مالی سال 202019-ء کے دوران 40 سرکاری محکموں اور وزارتوں میں 270 ارب روپے کی بدعنوانی اور بے قاعدگیاں ہوئی ہیں۔
ایک بیان میں وزارت خزانہ کے ترجمان نے ان رپورٹس کو بے بنیاد اور غلط معلومات پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مالی سال 2019-20ء کی سالانہ آڈٹ رپورٹ دیگر آڈٹ رپورٹس کی طرح ابتدائی مشاہدات پر مبنی ہے جس میں مختلف حکومتی اداروں کی جانب سے مختلف کیسوں پر عمل درآمد میں رسمی تقاضوں کی تکمیل میں رکاوٹوں اور بعض دیگر مواقع پر آڈٹ ٹیموں کو دستاویزات کی فراہمی میں کوتاہیوں کی نشاندہی شامل ہے تاہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ ہر ضابطہ جاتی خامی بدعنوانی کے مترادف ہے، غلط اور گمراہ کن ہے۔
ترجمان نے کہا کہ رپورٹ کو بدعنوانی کے قطعی ثبوت کے طور پر پیش کرنے کے برعکس آڈٹ رپورٹ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ضابطہ جاتی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہے اور یہ بدعنوانی کا ثبوت نہیں۔
وزرات خزانہ کے ترجمان کے مطابق آڈٹ رپورٹس کا بعد میں مختلف فورمز پر تفصیلی اور جامع جائزہ لیا جاتا ہے جن میں محکمہ جاتی آڈٹ کمیٹیز اور پبلک اکاﺅنٹس کمیٹیز شامل ہیں، جہاں وزارتوں اور محکموں کو اپنے کیسز کے دفاع اور ضابطہ جاتی خامیوں کو درست کرنے کا موقع دیا جاتا ہے تاہم یہ فورمز بھی بدعنوانی سے متعلق رائے قائم کرنے کے مجاز نہیں ہوتے۔
ترجمان نے کہا کہ یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مطلوبہ دستاویزات کی فراہمی اور بعض اوقات منظوری کے عمل کے تقاضوں کی تکمیل پر بیشتر آڈٹ پیراز سیٹل کئے جاتے ہیں صرف چند مواقع ایسے آتے ہیں جب کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجوہات سامنے نہیں آتیں اور تعزیری اقدام ضروری ہوتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے دور میں تیار ہونے والی پہلی آڈٹ رپورٹ میں وفاقی وزارتوں اور محکموں میں 270 ارب روپے کی بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
آڈیٹر جنرل پاکستان کی جانب سے مالی سال 20-2019 کی آڈٹ رپورٹ تیار کرلی ہے جس میں 40 وفاقی وزارتوں اور محکموں کا آڈٹ کیا گیا جس کے تحت کرپشن اور جعلی رسیدوں کی مد میں 12 ارب 56 کروڑ روپے کی بدعنوانیوں کی نشاندہی کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی محکموں میں 79 ارب 59 کروڑ روپے کی ریکوری کے کیسز، 8 ارب 89 کروڑ روپے مالیت کے کمزور انٹرنل کنٹرول کےکیسز اور 152 ارب 20 کروڑ روپے کے کمزور مالیاتی منیجمنٹ کے کیسز سامنے آئے ہیں۔
آڈیٹر جنرل کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں نے 17 ارب 96 کروڑ روپے کا ریکارڈ ہمارے حوالے نہیں کیا گیا، اس لیے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر سرکاری اداروں کو اخراجات کرنے سے روکا جائے۔