برآمدات بڑھانے کیلئے پاکستان کی ’مینگو ڈپلومیسی‘

اقدام کا مقصد میٹھی سفارت کاری کے ذریعے دوست ممالک کیساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا اور پاکستانی آموں کو نئی مارکیٹوں میں متعارف کروانا ہے

1580

اسلام آباد : پاکستانی آم کی برآمدات بڑھانے کے لیے حکومت پاکستان نے ممکنہ خریدار ممالک کے سربراہان کو ’پھلوں کا بادشاہ‘ بطور تحفہ بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔

سرکاری حکام کے مطابق اس اقدام کا مقصد دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا اور پاکستانی آم کو نئی مارکیٹوں میں متعارف کروانا ہے۔

پھلوں کے بادشاہ کے ذریعے سفارت کاری کے اس منصوبے کی منظوری صدر مملکت عارف علوی نے  وزیر خوراک فخر امام،  آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرزامپورٹرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن انچیف وحید احمد اور چئیرمین عبدالمالک کی موجودگی میں ہونے والے ایک اجلاس میں دی۔

یہ بھی پڑھیے:

رواں سال آم کی پیداوار میں سات لاکھ ٹن تک کمی کا خدشہ 

پاکستانی آم کی برآمد کیلئے پی آئی اے کا کارگو کرایوں میں 30 فیصد کمی کا اعلان

اجلاس میں شریک آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹ ایسوسی ایشن کے پیٹرن انچیف وحید احمد نے صدر مملکت کو پاکستانی آم کی پیداوار اور انہیں ایکسپورٹ کرنے میں برآمد کنندگان کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔

اجلاس کے شرکاء کو بتایا گیا کہ 2018-19ء میں دنیا بھر میں سبزیوں اور پھلوں کی برآمدات 200 ارب ڈالر تھیں جس میں پاکستان کا حصہ صرف 65 کروڑ ڈالر ہے ۔

پاکستان آم کی پیداوار کے لحاظ سے چھٹے جبکہ اس کی درآمد کے حوالے سے پانچویں نمبر پرہے، پاکستان میں سالانہ 100 ارب روپے کا  آم پیدا ہوتا ہے جبکہ باغات میں مزدوری سمیت دیگر شعبوں سے منسلک لاکھوں افراد کا روزگار اس سے جڑا ہے۔

وحید احمد کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان 40 ممالک کو آم برآمد کرتا ہے لیکن اگر کچھ مسائل پر قابو پا لیا جائے اور برآمدات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کردیا جائے تو امریکا، جاپان اور جنوبی کوریا جیسی بڑی مارکیٹوں تک بھی پاکستانی آم کو رسائی مل سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آم کی فصل کو موسمی تبدیلیوں، پانی کی کمی، تحقیق کے فقدان، کاشت کاری کے قدیم طریقوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا سامنا ہے، اس کے علاوہ کولڈ سٹوریج کی کمی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل بھی درپیش ہیں جنہیں جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید برآں ان کا کہنا تھا کہ برآمدی کنسائنمنٹ کی درست انداز میں دیکھ بھال کے لیے شپنگ کمپنیوں اور ائیرلائنز کے لیے قابل عامل پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here