راولپنڈی: راولپنڈی چیمبر آف کامرس نے آئندہ مالی سال 2020-21ء کیلئے ٹیکس ہدف پر نظرثانی کرنے اور وفاقی بجٹ میں پائے جانے والے سقم دور کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
راولپنڈی چیمبر آف کامرس کے صدر صبور ملک نے کہا ہے کہ بجٹ میں انکم ٹیکس ،سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹمز سمیت دیگر کئی نکات ابہام کا شکار ہیں جس سے کاروباری برادری کو شدید تشویش لاحق ہے۔
انہوں نے بجٹ کو مجموعی طور پر متوازن قرار دیتے ہوئے بجٹ میں نیا ٹیکس نہ لگانے کے اعلان کا خیرمقدم کیا تاھم بجٹ کو تاجر برادری کی توقعات سے کم قرار دیتے ہوئے ٹیکس ہدف پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
صبور ملک نے سرکاری خبر رساں ایجنسی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں محصولات کا زمینی حقائق کے برعکس 4963 ارب کا ہدف رکھا گیا ہے۔ گذشتہ سال بھی ہدف تین اعشاریہ تین فیصد رکھا گیا تھا لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ گروتھ منفی ہو گئی۔
انہوں نے کہا کہ چیمبر نے سیلز ٹیکس 17 سے کم کر کے پانچ فیصد کرنے کی تجویز دی تھی، تنازعات کے متبادل حل یعنی اے ڈی آر سی کو فعال کرنے کی تجویز دی گئی ہے جوکہ چیمبر کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ پوائنٹ آف سیلز کے لیے چیمبر نے ٹیکس موخر کرنے کی تجویز دی تھی تاہم اس کی شرح 14 فیصد سے کم کرکے 12 فی صد کیا گیا ہے۔ ہمارا مطالبہ سنگل ڈیجٹ تک لانا کا تھا۔ راولپنڈی چیمبر آف کامرس نے ای آڈٹ کو بھی ناقابل عمل قرار دیا ہے۔
چیمبر کے صدر نے کہا کہ کہ یہ خوش آئند ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ خام مال پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح دو فیصد کر دی گئی ہے۔ یہ بھی چیمبر کا مطالبہ تھا جو پورا ہوا۔ سرمائے کی کمی دور کرنے کے لیے ٹیکس ری فنڈز جاری کیے گئے ہیں یہ بھی اچھا اقدام ہے۔ فنانس ایکٹ کی شق 236 جے کے تحت ریٹس معقول بنانے کا مطالبہ بھی پورا ہوا۔
اسی طرح تعمیراتی شعبے کے لیے اعلان کردہ سکیم جو دسمبر 2020 میں ختم ہو رہی تھی چیمبر نے مطالبہ کیا تھا کہ اس میں توسیع کی جائے۔ اسے بڑھا کر جون 2021 کر دیا گیا ہے، یہ خوش آئند ہے۔ ایف بی آر سسٹم کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے اور مکمل طور پر ڈیجٹلائزڈ کرنے کا مطالبہ بھی پورا ہوا۔ مقامی صنعت کے لیے ڈیوٹی کی شرح بارہ سے کم کر کے چھ فیصد کی گئی ہے۔