کراچی: چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس (کووڈ 19) نے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، عالمی معیشت کو چلانے والے اہم ترین سیکٹرز ایک ایک کرکے خسارے کا شکار ہو رہے ہیں اور کچھ تو بالکل بندش کے دہانے پر ہیں، بے روزگاری اپنی تاریخی حدوں کو چھو رہی تو وہیں ماہرین معاشیات مزید بدترین دنوں کی آمد کا مژدہ سنا رہے ہیں لیکن اس ساری افراتفری میں ایک بینکاری نظام ہے جو دنیا بھر میں جیسے تیسے چل رہا ہے اور کاروباروں کو چلانے کیلئے قرضوں پر قرضے دئیے جا رہا ہے۔
ایسے میں پاکستان کے بینکاری نظام پر بھی بوجھ بڑھ چکا ہے اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وباء کے دنوں میں پاکستان کا بینکاری نظام اس بوجھ کو سہار پائے گا یا نہیں؟
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی اہم سالانہ رپورٹ ‘مالی استحکام کا جائزہ برائے 2019ء’ جاری کر دی ہے جس میں مالی شعبے کے کئی زمروں بشمول بینکوں، غیربینکنگ مالیاتی اداروں، مالی بازاروں، غیر مالی کارپوریٹ اداروں اور مالی بازاروں کے انفرا سٹرکچرز کی کارکردگی اور خطرات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
سٹیٹ بینک کے مالی استحکام کے جائزے میں کہا گیا ہے کہ صحت کے عالمی بحران کا سبب بننے والی کورونا وائرس کی وبا نے عالمی اور ملکی معیشت پر نمایاں اثرات ڈالے ہیں۔ دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان پر بھی اس کے تباہ کن اثرات ابھی پوری طرح سامنے آنا باقی ہیں۔ پاکستان لاک ڈان نافذ کرنے کے بعد چند پابندیاں نرم کرنے کی طرف رواں دواں ہے جبکہ انفیکشن کی سطح بڑھ رہی ہے۔ اس سے معاشی سرگرمیوں کو معاونت ملنی چاہیے۔
سٹیٹ بینک نے خطرات کو کم کرنے اور متعلقہ فریقوں کو سہولت دینے کی خاطر متعدد پالیسی اقدامات کیے ہیں، ان اقدامات میں زری نرمی (monetary easing)، سرمائے کے بفرز کھولنا، کارپوریٹ، ایس ایم ای اداروں، اور گھریلو قرض گیروں کے لیے قرضے کی اصل رقم کی ادائیگی کا التواء، قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ اور ری شیڈولنگ، رعایتی قرضوں کی فراہمی تاکہ ملازمتوں کو تحفظ دیا جائے اور وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے صحتِ عامہ کے نظام کو مستحکم بنایا جائے، مالی خدمات کی دستیابی اور تسلسل یقینی بنانا اور ادائیگی کے نظام سے متعلق اخراجات میں کمی لانا شامل ہیں۔
سٹیٹ بینک کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اِن اقدامات کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں کیونکہ بینکوں نے تقریبا 495 ارب روپے کے قرضوں کو موخر کر دیا ہے اور تقریباََ 70 ارب روپے کی ری شیڈولنگ کی گئی ہے۔ ملازمین کی برطرفیاں روکنے کی ری فنانس اسکیم کے تحت تقریبا آٹھ سو سے پچاس ہزار ملازمین پر مشتمل 1172 کمپنیوں کے لیے تقریبا 93 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے۔
جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی اور ملکی معاشی بحالی کی رفتاراور وسعت کا دارومدار کورونا وائرس کی سمت سے ناگزیر طور پر منسلک ہے۔ اس پس منظر میں ہونے والی ہر پیشرفت کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان معاشی اور مالی استحکام کی حفاظت کے لیے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے تمام پالیسی اقدامات کے لیے تیار ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق مجموعی طور پر یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ گذشتہ برسوں میں تشکیل دیئے جانے والے مضبوط سرمایہ جاتی بفرز نے پاکستان کے بینکاری شعبے کی استقامت میں خاصا اضافہ کر دیا ہے۔ مالی استحکام کے جائزے میں کی گئی دباﺅ کی جانچ کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ دھچکے کے معقول ترین منظرناموں میں بھی شعبہ بینکاری لچکدار رہے گا جو کہ بینکوں کی اکثریت کی مضبوط سرمایہ جاتی اور سیالیت کی پوزیشن کا عکاس ہے۔
مالی استحکام کے جائزے میں بتایا گیا ہے کہ 2019ء کے اختتام تک مالی شعبے کے استحکام میں بہتری آنا شروع ہوئی، مارکیٹ میں پائی جانے والی غیریقینی صورت حال کے ساتھ بیرونی اور مالیاتی عدم توازن سے پیدا ہونے والے معاشی خطرات کا سال کے آخر تک خاتمہ ہونے لگا، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، مارکیٹ پر مبنی مستحکم شرح مبادلہ، مالی خسارے میں استحکام اورمعاشی سرگرمی خصوصا بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) کی دوبارہ بحالی ملک میں اقتصادی بحالی کے ابتدائی آثارتھے۔
انہی بہتر آثار کی وجہ سے مقامی اور غیر ملکی دونوں سرمایہ کاروں نے پاکستان کی ایکویٹی اور بانڈ مارکیٹ میں سرمایہ کاری شروع کردی۔ معاشی تنائو میں کمی آئی تو مالیاتی شعبے کا استحکام بہتر ہوگیا، 2019ء کے دوران مالی شعبے کی مجموعی اثاثہ جاتی اساس 11.74 فیصد بڑھ گئی جو گذشتہ برس کی نمو سے 7.46 فیصد زائدتھی۔ اس نمو میں سب سے زیادہ حصہ بینکاری شعبے کی جانب سے آیا، جو مالیاتی شعبے کا سب سے بڑا جز ہے۔
مالی منڈیاں، جو 2019ء کی پہلی ششماہی میں تغیرپذیری کا شکار رہیں، ان میں دوسری ششماہی کے دوران استحکام دکھائی دیا، کیونکہ مارکیٹ پر مبنی شرحِ مبادلہ کے نظام پر منتقلی کے بعد مبادلہ منڈی کے آپریشنزہموار ہوگئے۔2019 کے اختتام پر ایکویٹی منڈی میں بھی واضح بحالی دکھائی دی حالانکہ دوران سال اس میں کافی اتار چڑھا رہا۔
مالی استحکام کے جائزے میں یہ بات اجاگر کی گئی کہ 2019ء کے دوران بینکاری شعبے کی آمدنی 14.3 فیصد اضافے کے ساتھ بڑھ کر 170 ارب روپے ہوگئی جبکہ گذشتہ چند برسوں کے دوران اس میں کمی ہوتی رہی۔ اس شعبے کی بلند سودی آمدنی نے خالص سودی مارجن (این آئی ایم) کو 4 فیصد تک بڑھا دیا جو گذشتہ برس کے مقابلے میں 60 بی پی ایس اضافہ تھا۔ اسی طرح نفع آوری کے اظہاریے، جیسے کہ اثاثوں پر منافع اور ایکویٹی بھی بڑھ گئے۔
جائزے سے پتا چلتا ہے کہ 2019ء کے دوران اسلامی بینکاری اداروں کی کارکردگی زبردست رہی۔ نہ صرف ان کے اثاثوں میں 23.52 فیصد اضافہ ہوا بلکہ ان کا منافع بھی بڑھ گیا جس نے بینکاری شعبے کی مجموعی آمدنی کو تقویت دی تاہم ان کے ڈپوزٹس میں رقوم کی آمدن ے اسلامی بینکاری اداروں کے لیے سیالیت کے موثر انتظام کی دشواریوں کو مزید پیچیدہ کردیا کیونکہ انہیں شریعت سے ہم آہنگ آمدنی کے اثاثوں کے محدود مواقع کا سامنا تھا۔
جائزے میں دیکھا گیا ہے کہ زیرِجائزہ مدت میں غیرمالی کارپوریٹ شعبے کے ساتھ غیربینکاری مالی شعبے کی کارکردگی بھی خاصی بہتر رہی، مزید برآں مالی منڈی کے انفراسٹرکچرز نے الیکٹرانک اور کاغذ پر مبنی لین دین کے بڑھتے ہوئے حجم اور قدر کو مستعد اور مﺅثر طریقے سے سنبھالا۔