وفاقی حکومت کے جاری کردہ اقتصادی سروے 2019-20ء کا مکمل متن

699

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اقتصادی سروے 2019-20ء جاری کر دیا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے جمعرات کو اقتصادی ٹیم کے ہمراہ اقتصادی سروے جاری کیا جس میں معیشت کے مختلف شعبوں کی کارکردگی اور حکومت کی طرف سے معاشی استحکام اور معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اقتصادی سروے 2019-20ء کا متن حسب ذیل ہے۔

شرح نمو اور سرمایہ کاری

کورونا وائرس کے آغاز سے پہلے، مالی سال 2020ء نے معاشی عدم توازن کا باعث بننے والے ساحتی امور کو حل کرنے کیلئے حکومت نے انتہائی کوششیں کیں جس کے نتائج تازہ ترین کلی، معاشی اشاروں میں بھی دیکھے گئے۔

اقتصادی اصلاحات پروگرام پر عملدرآمد کو خود عالمی مالیاتی اداروں نے بھی سراہا۔ آئی ایم ایف کا کامیاب جائزہ پروگرام پاکستان کی معیشت کی درست سمت کی طرف گامزن ہونے اور معیشت کے سود مند اور ثمر آور ہونے کا اعتراف ہے۔

کورونا وائرس سے پہلے معیشت کی بحالی کا تعین میکرو اکنامک (کلی معاشی) اشاروں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ بیرونی جاری کھاتے کے خسارے میں کمی، بیرونی ذخائر میں استحکام، شرح مبادلہ کا مستحکم ہونا وغیرہ حکومت کے دانش مندانہ پالیسی اقدامات ہی کی بدولت ہیں جن کا فائدہ یہ ہوا کہ جولائی تا اپریل مالی سال 2020ء تک جاری کھاتے کا خسارہ 70.8 فیصد کم ہو کر 3.3 بلین ڈالر (جی ڈی پی کا 1.5 فیصد) ہوگیا جوکہ گزشتہ سال کے اسی عرصہ میں 11.4 بلین ڈالر (جی ڈی پی کا 4.8 فیصد) تھا۔

ورلڈ بینک کے کاروباری آسانیوں کے انڈیکس میں پاکستان پہلے دس بہترین اصلاحات کرنے والے ممالک میں شامل تھا جس نے انڈیکس میں 28 درجہ آگے بڑھ کر کل 190 معیشتوں میں سے 108 ویں درجہ تک پہنچ گیا جس سے مالی سال 2020ء کے دوران جولائی تا اپریل میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کرنے کے رجحان میں مدد ملی اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 127.0 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ سال کے 1.0 بلین ڈالر کے مقابلے میں 2.3 بلین ڈالر تک جا پہنچی۔

معیشت کے بڑے مالیاتی اشاریوں میں نمایاں بہتری آئی ہے اور یہ رجحان مارچ 2020ء تک جاری رہا۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ مالی استحکام درست سمت میں جاری و ساری ہے۔ مالی سال 2019ء کے اسی عرصے میں جولائی تا مارچ مالی سال 2020ء کے دوران مالی خسارہ کم ہو کر جی ڈی پی کا 4.0 فیصد رہا جوکہ گزشتہ مالی سال 2019ء کے اسی عرصے کے دوران جی ڈی پی کا 5.1 تھا۔ بنیادی توازن میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے کیونکہ مالی سال 2020ء میں جولائی تا مارچ کے دوران 193.5 بلین روپے کی زائد رقم جمع ہوئی ہے۔ جبکہ گزشتہ سال 463.3 بلین روپے کا خسارہ ہوا۔

کورونا وائرس کی وجہ سے 2020ء تجارت کی اچانک نیچے کی طرف گراوٹ کا اثر یکساں اور وسیع البنیاد ہوگا۔

پاکستان کو بھی اس ابتدائی تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق اپریل 2020ء میں برآمدات 957 ملین ڈالر رہیں۔ جس میں روپے کی قدار ڈالر کے مقابلے میں اپریل 2019ء میں 54 فیصد اور مارچ 2020ء میں 47 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ اسی طرح اپریل 2019ء کے مقابلہ میں درآمدات میں بھی 32 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ مارچ 2020ء کے مقابلے میں 3 فیصد کمی ہوئی۔ درآمدی بل میں کمی کا تعلق بین الاقوامی تیل کی قیمتوں میں کمی سے ہے۔ درآمدات میں کمی کی وجہ سے برآمدات اور ملکی پیداوار دونوں ملک میں تیار کی جانے والی اشیاء کی مستقل فراہمی کے عمل میں رکاوٹ کا سبب بنے گا۔

کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کو روکنے کیلئے مالیاتی اور مالی دونوں پالیسیوں کیلئے نئے سخت پالیسی اقدامات کی ضرورت محسوس ہوئی۔ حکومت نے 1.24 کھرب روپے کے مالی بحالی پیکج کا اعلان کیا۔ علاوہ ازیں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے گھریلو کاروبار اور کاروباری اداروں کی بندش سے بچانے کیلئے انہیں مالیاتی سیکورٹی فراہم کی گئی۔ مزید یہ کہ مالیاتی پالیسی کی شرح میں 15 مئی 2020ء تک مجموعی طور پر 525 بنیادی پوائنٹ کی کمی کی گئی جوکہ 13 فیصد سے زیادہ کے نقطہ عروج سے 8 فیصد تک رہ گئی ہے۔

مالی سال 2020ء کیلئے جی ڈی پی کی عارضی شرح نمو کا تخمینہ منفی 0.38 فیصد (زرعی 2.67 فیصد صنعتی منفی 2.64 فیصد اور خدمات کے شعبوں میں منفی 0.59 فیصد) لگایا گیا ہے۔

مالی سال 2020ء کیلئے صنعت اور خدمات دونوں کی منفی کارکردگی نے زراعت میں شرح نمو کے اضافہ کا ماند کر دیا جس کا جی ڈی پی کی مجموعی نمو میں 0.50 فیصا کا حصہ تھا (اب بھی اس کا جی ڈی پی میں 19.31 فیصد حصہ ہے)۔ مالی سال 2020ء کیلئے جی ڈی پی میں صنعت اور خدمات کا حصہ بالترتیب 19.29 اور 61.40 فیصد رہا۔

کورونا وائرس کے منفی اثرات کو کم کرنے کیلئے زیادہ رابطے اور سماجی فاصلے جیسے اقدامات کئے گئے تاکہ سماجی کاروباری رابطوں کی سرگرمیوں کو محدود کیا جا سکے جس کیلئے سخت لاک ڈاؤن کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اسی طرح ہوٹلوں میں کھانے، سفر، پرچون، ذاتی خدمات، ایندھن اور تفریحی پروگرامات میں اخراجات میں کمی واقع ہوئی۔ وائرس کے منفی اثرات نے خدمات کے شعبے کو شدید متاثر کیا جس سے اس شعبہ میں منفی 0.58 نمو حاصل ہوئی۔ کئی ممالک کی درآمدات پر پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات کی طلب میں کمی آسکتی ہے۔ موجودہ غیر یقینی صورتحال اور درپیش خطرات کے ساتھ سرمایہ کی اڑان کی بھی توقع کی جا سکتی ہے جس سے شرح مبادلہ پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔

گھریلو اور کاروباری اداروں کو لیکویڈیٹی سپورٹ فراہم کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اقدامات کے ساتھ ساتھ 1.24 کھرب روپے کے مالیاتی بحالی پیکج کی موجودہ معاشی بدحالی کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔

زراعت

زرعی شعبہ میں مضبوط نمو ریکارڈ کی گئی کیونکہ اس نے گزشتہ سال کی معمولی شرح نمو0.58 فیصد کے مقابلے میں سال 2019-20ء کے دوران 2.67 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔

2019-20ء کے دوران کپاس کی پیداوار گزشتہ سال کی 9.861 ملین گانٹھوں کے مقابلہ 9.178 ملین گانٹھیں پیدا ہوئیں اور اس میں شرح نمو منفی 6.9 ریکارڈ کی گئی۔

2019-20ء کے دوران گندم کی پیدوار 24.946 ملین ٹن ریکارڈ کی گئی جبکہ 2018-19ء میں اس کی پیداوار 24.349 ملین ٹن تھی لہذا اس میں 2.5 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔

2019-20ء کے دوران چاول کی پیداوار 7.410 ملین ٹن رہی اور گزشتہ سال کی 7.202 ملین ٹن پیدوار سے 2.9 فیصد زیادہ رہی۔

2019-20ء کے دوران گنے کی پیداوار 66.880 ملین ٹن رہی، لہذا گذشتہ سال گنے کی پیداوار 67.174 ملین ٹن رہی اس میں 0.4 فیصد کی کمی ہوئی۔

2019-20ء کے دوران مکئی کی پیداوار گذشتہ سال کی 6.826 ملین ٹن پیداوار کے مقابلہ میں 7.236 ملین ٹن رہی لہٰذا مکئی کی پیداوار میں 6.0 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔

دیگر فصلیں جن کا زرعی اضافہ میں حصہ 11.53 اور جی ڈی پی میں حصہ 2.23 فیصد ہے، ان کی نمو میں 4.57 فیصد کا اضافہ ہوا جس کی وجہ دالوں، روغنی بیجوں اور سبزیوں کی پیداوار میں اضافہ ہے۔

گلہ بانی جن کا زرعی قدر اضافہ میں حصہ 60.56 فیصد اور جی ڈی پی میں حصہ 11.69 فیصد ہے اس کی شرح نمو پچھلے سال کی 3.82 فیصد کے مقابلہ میں 2.58 فیصد رہی۔

ماہی گیر کا شعبہ جس کا زرعی قدر اضافہ میں حصہ 2.06 فیصد اور جی ڈی پی میں حصہ 0.40 فیصد ہے، اس کی نمو میں 0.60 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اس کے مقابلہ میں گذشتہ سال کے اسی عرصہ میں اس شعبہ کی شرح نمو 0.80 فیصد تھی۔

جنگلات کا شعبہ جس کا زراعت میں حصہ 2.13 فیصد ہے اور جی ڈی پی میں حصہ 0.41 فیصد ہے، اس کی شرح نمو میں 2.29 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اس کے مقابلہ میں گذشتہ سال کے اسی عرصہ میں اس شعبہ کی نمو 7.87 فیصد تھی۔

2019-20ء کے دوران چنے کی پیداوار 545 ہزار ٹن رہی لہٰذا چنے کی پیداوار میں 21.9 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس کی وجہ بوائی کے وقت سازگار موسمی حالات کی وجہ سے پیداوار کا زیادہ ہونا ہے۔

2019-20ء کے دوران باجرے اور تمباکو کی پیداوار میں 9.7 فیصد اور 5.8 فیصد بالترتیب اضافہ ہوا۔ جوار کی پیداوار میں 19.5 فیصد کمی ہوئی جبکہ جو، تارا میرا و رائی کی پیداوار پچھلے سال پر برقرار رہی۔

2019-20ء کے دوران سرخ مرچ اور مونگ کی پیداوار میں گذشتہ سال کے مقابلہ میں بالترتیب 34.5 فیصد اور 12.6 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ ماش، آلو اور پیاز کی پیداوار میں گذشتہ سال کے مقابلہ میں بالترتیب 5.8 فیصد، 5.3 فیصد اور 1.0 فیصد کمی رہی جبکہ مسور کی پیداوار گذشتہ سال کی پیداوار کے مساوی رہی۔

2019-20ء (جولائی تا مارچ) کے دوران تقریباً 189.687 ہزار ٹن خریف/ربیع کی فصلوں کے بہتر بیج مہیا کئے گئے۔

2019-20ء (جولائی تا مارچ) کے دوران بینکوں نے 912.2 ارب روپے کے قرض فراہم کئے جو کہ 1350 ارب روپے کے سالانہ مجموعی ہدف کے 67.6 فیصد پر مبنی ہے اور یہ قرض فراہمی گذشتہ سال کے مماثل عرصہ کے دوران 804.9 ارب روپے رہا۔ 2019-20ء کے دوران خریف 2019ء کی فصلوں کیلئے پانی کی کل دستیابی 65.3 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) ریکارڈ کی گئی اور 67.1 ملین ایکڑ فٹ کے اوسط سسٹم میں اس سال کے مقابلہ میں 2.7 فیصد کمی رہی اور خریف 2018ء کی نسبت 9.4 فیصد اضافہ رہا۔ ربیع 2019-20ء کے دوران پانی کی کل دستیابی 29.2 ملین ایکڑ فٹ ریکارڈ کی گئی جو کہ ربیع 2018-19ء سے 17.7 فیصد زائد ہے۔

2019-20ء (جولائی تا مارچ) کے دوران گذشتہ سال کی اس مدت کے مقابلہ میں کھاد کی ملکی پیداوار میں 5.8 فیصد اضافہ ہوا۔ کھاد کی ملکی پیداوار میں اضافہ کی بنیادی وجہ کھادوں کیلئے اضافی گیس کی فراہمی کی وجہ سے ہے تاہم درآمد شدہ کھاد کی فراہمی میں 20.7 فیصد کمی واقع ہوئی۔ لہٰذا مقررہ مدت کے دوران کھاد کی کل دستیابی میں 0.28 فیصد کمی واقع ہوئی۔

مالی سال 2019-20ء (جولائی تا مارچ) کے دوران نائٹروجن آفٹیک میں 2.4 فیصد، فاسفیٹ آفٹیک میں 2.6 فیصد اور پوٹاش آفٹیک میں بھی 14.5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

یوریا کی قیمت میں 11.5 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ ڈی اے پی قیمت میں 3.1 فیصد کا اضافہ ہوا۔ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کو 5 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کر دیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں یوریا کی فی بوری قیمت میں 298 روپے، جنوری 2020ء سے کمی واقع ہوئی۔

صنعت سازی اور کان کنی

مالی سال 2020ء کے جولائی تا مارچ کے دوران بڑے پیمانے پر اشیاء کی تیاری کے شعبہ کی شرح نمو منفی 5.4 فیصد رہ گئی ہے جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں منفی 2.34 فیصد تھی۔

صنعت کے شعبہ سے متعلق اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کھاد کے کے شعبہ کی نمو سب سے زیادہ رہی جو کہ 5.81 فیصد۔ چمڑے کی مصنوعات میں 4.96 فیصد، ربڑ کی مصنوعات میں 4.31 فیصد، کاغذ اور بورڈ میں 4.23 فیصد اور غیر دھاتی معدنی مصنوعات میں 1.82 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

جن شعبوں میں اس مدت کے دوران منفی نمو ریکارڈ کی گئی۔ آٹو موبائلز 36.50 فیصد، لکڑی کی مصنوعات 22.11 فیصد، کوک اینڈ پٹرولیم کی مصنوعات 17.46 فیصد، الیکٹرونکس 13.54 فیصد، لوہا اور فولاد کی مصنوعات 7.96 فیصد، فارماسوٹیکلز 5.38 فیصد، ٹیکسٹائل 2.57 فیصد، خوراک، مشروبات اور تمباکو 2.33 فیصد اور کیمیکلز 2.30 فیصد رہی۔

کان کنی اور سنگ کنی کے شعبے میں جولائی تا فروری مالی سال 2020ء کے دوران 8.82 فیصد کمی ہوئی جبکہ گذشتہ سال یہ شرح منفی 3.19 فیصد تھی۔ بیرائیٹ، کوارٹز، گیرو اور ڈولومائٹ میں بالترتیب 241.6 فیصد، 130.8 فیصد، 68.8 فیصد اور 16.27 فیصد اضافہ ہوا تاہم چند معدنیات کی نمو زیر جائزہ عرصہ میں منفی رہی۔ مثلاً کوئلہ 6.34 فیصد، قدرتی گیس 6.36 فیصد، خام تیل 10.55 فیصد، کرومائٹ 54.5 فیصد، میگنی سائٹ 55.9 فیصد، چونے کا پتھر 14.71 فیصد، سنگ مرمر 3.62 فیصد اور خام لوہے میں 32.73 فیصد کمی ہوئی۔

مالیاتی ارتقاء

مالی سال 2019ء کے دوران جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر کل محاصل 1.29 فیصد جبکہ کل اخراجات 22 فیصد رہے۔ نتیجتاً مالیاتی خسارہ 9.1 فیصد تک بڑھ گیا۔

جولائی تا مارچ مالی سال 2020ء کے دوران کل اخراجات بڑھ کر 6,376.1 ارب روپے (جی ڈی پی کا 15.3 فیصد) ہو گئے۔ جو کہ گذشتہ سال کے قابل موازنہ عرصہ کے دوران 5,506.2 ارب روپے (جی ڈی پی کا 14.5 فیصد) تھے۔ لہٰذا ان اخراجات میں 15.8 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

رواں اخراجات جولائی تا مارچ مالی سال 2020ء کے دوران 16.9 فیصد نمو کے ساتھ 5,611.6 ارب روپے (جی ڈی پی کا اسلام آباد۔13.4فیصد) رہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں گزشتہ سال کے اسی عرصہ کے دوران رواں اخراجات 4,798.4ارب روپے (جی ڈی پی کا 12.6فیصد) تھے۔

ترقیاتی اخراجات اور خالص قرض دہی جولائی تا مارچ 2020ء کے دوران 14.2فیصد اضافہ کے ساتھ 781.4ارب روپے رہے جبکہ گزشتہ سال یہ اخراجات 684.2ارب روپے تھے۔

ترقیاتی اخراجات (خالص قرض دہی کو نکال کر) جولائی تا مارچ 2020ء کے دوران بڑھ کر 751.7ارب روپے ہو گئے جبکہ اس کے مقابلے میں گزشتہ سال یہ اخراجات 655.9ارب روپے تھے۔ اس طرح مالی سال 2019ء میں 34فیصد منفی نمو کے مقابلے میں مالی سال 2020ء میں شرح نمو 14.6فیصد اضافہ ہوا۔

جولائی تا مارچ مالی سال 2020ء کے دوران پی ایس ڈی پی کے تحت اخراجات (وفاقی اور صوبائی) بڑھ کر 722.5ارب روپے ہو گئے جو مالی سال 2019ء کے اسی عرصہ میں 578.5ارب روپے تھے۔ اس طرح شرح نمو میں 24.9فیصد اضافہ ہوا

کل محاصل مالی سال 2020 کے پہلے نو ماہ کے دوران بڑھ کر 4,689.9ارب روپے ہو گئے جو گزشتہ سال کے مقابل موازنہ عرصہ کے دوران 3,583.7ارب روپے تھے جس سے 30.9فیصد نمو کی عکاسی ہوتی ہے۔

جولائی تا مارچ مالی سال 2020کے دوران ٹیکس محاصل 13.7فیصد اضافہ کے ساتھ 3,594.3ارب روپے ہو گئے جبکہ اس کے مقابلے میں گزشتہ سال کے اسی عرصہ میں 3162.1ارب روپے تھے۔

غیر ٹیکس محاصل جولائی تا مارچ 2020 کے دوران 159.9فیصد اضافہ کے ساتھ 1,095.6ارب روپے ہو گئے جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 421.5ارب روپے تھے۔

جولائی تا اپریل مالی سال 2020کے دوران ایف بی آر ٹیکس وصولی 3300.6ارب روپے رہی (عبوری) جبکہ مالی سال 2019کے اسی عرصہ کے دوران یہ 2980ارب روپے تھے لہٰذا اس میں 10.8فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

بلاواسطہ ٹیکسوں کی وصولی میں مالی سال 2020کے پہلے دس ماہ میں 14.1فیصد کا اضافہ ہوا۔ وصولی 1071.7ارب روپے سے بڑھ کر 1223.2ارب روپے ہو گئے۔ ایف بی آر کے کل ٹیکس وصولی میں بلاواسطہ ٹیکسوں کا حصہ پہلے دس ماہ میں 37.1فیصد رہا۔

بالواسطہ ٹیکسوں کی خام اور خالص وصولیوں میں بالترتیب 11.4فیصد اور 8.9فیصد کی نمو دیکھی گئی۔ جولائی تا اپریل مالی سال 2020کے دوران بالواسطہ ٹیکسوں کاایف بی آر کے کل ٹیکس وصولی میں 62.9 فیصد حصہ رہا۔

مالی سال 2020 کے جولائی تا مارچ کے عرصہ کے دوران صوبائی حکومتوں کے کل محاصل میں 12.2فیصد کا اضافہ ہوا۔ جبکہ کل اخراجات 11.4فیصد سے بڑھے۔ نتیجتاً مجموعی صوبائی سرپلس میں 394.1ارب روپے کا ضافہ ہوا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں گزشتہ سال کے مماثل عرصہ میں یہ سرپلس 291.6ارب روپے تھے۔

مالیاتی خسارہ بطور جی ڈی پی کے فیصد کے مالی سال 2020کے جولائی تا مارچ کے عرصہ کے دوران 4.0فیصد ہو گیا جبکہ گزشتہ مالی سال کے قابل موازنہ عرصہ میں یہ 5.1فیصد تھا۔ کوویڈ19کے پھیلنے سے معیشت کے لئے نمایاں چیلنجز سامنے آئے ہیں۔ خاص طور پر مالی حسابات پر شدید دباؤ آنے کا اندیشہ ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے مالی سال 2020کے آغاز میں اپنی پالیسی حکمت عملی میں 100بی پی ایس کے ساتھ 13.25فیصد اضافہ کیا، اہم گھریلو اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی، تیل کی عالمی قیمتوں میں تیزی سے کمی اور کورونا وائرس وبائی امراض کی وجہ سے طلب میں کمی کے پس منظر افراط زر کے بہتر نقطہ نظر کی وجہ سے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی پالیسی کے موقف کو تبدیل کرتے ہوئے دو مہینوں کے دوراتن لگاتار چار فیصلوں میں پالیسی کی شرح میں مجموعی 525بی پی ایس کے ساتھ 8فیصد تک کمی کی۔

کم جولائی تا 24اپریل مالی سال 2020کے عرصہ کے دوران وسیع زر (ایم2) میں 1481.3ارب روپے (8.3فیصد نمو) کا اضافہ ہوا جبکہ اس کے مقابلے میں گزشتہ سال کے قابل موازنہ عرصہ یہ 540.6ارب روپے (3.4فیصد) تھا۔

محفوظ زر میں یکم جولائی تا 24اپریل مالی سال 2020کے عرصہ کے دوران 549.1ارب روپے (8.4فیصد نمو) کااضافہ ہووا جبکہ گزشتہ سال محفوظ زر 488.0ارب روپے (8.9فیصد) تھا۔

Broad Moneyیعنی وسیع زر (M2) میں بینکاری سیکٹر کے خارجی اثاثہ جات (این ایف اے) میں یکم جولائی تا 24اپریل مالی سال 2020کے عرصہ میں 803.7ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصہ کے دوران 890.4ارب روپے کی کمی ہوئی تھی۔

یکم جولائی تا 24اپریل مالی سال 2020ء کے عرصہ کے دوران بینکاری سیکٹر کے داخلی اثاثہ جات (این ڈی اے) میں 587.6ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ اس کے مقابلے میں گزشتہ سال کے اسی عرصہ میں بینکاری سیکٹر کے داخلی اثاثہ 1,431.0ارب روپے تھے۔

مالی سال 2020کے یکم جولائی تا 24اپریل کے عرصہ کے دوران گورنمنٹ سیکٹر قرض گیری 911.7ارب رہی جبکہ اس کے مقابلے میں گزشتہ سال یہ 825.9ارب روپے تھی۔

مالی سال 2020کے یکم جولائی تا 24اپریل کے عرصہ کے دوران حکومت نے بینکاری نظام سے بجٹ سپورٹ کے لئے 1023.9ارب روپے کا قرض لیا جبکہ گزشتہ برس اس مدت کے دوران 990.9ارب روپے قرض لیا تھا۔

حکومت نے یکم جولائی تا 24اپریل مالی سال 2020کے عرصہ کے دوران مرکزی بینک (ایس بی پی) کو 736.5ارب روپے واپس کیے جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں 3204.7ارب روپے قرض لیا تھا۔ اس کے برعکس حکومت نے مالی سال 2020کے یکم جولائی تا 24اپریل کے عرصہ میں فہرستی بینکوں سے 1760.4ارب روپے قرض لیا جبکہ گزشتہ سال 2213.9ارب روپے واپس کیے تھے۔

مالی سال 2020کے یکم جولائی تا 24اپریل کے عرصہ میں نجی اداروں 304.7ارب روپے کا قرض دیا گیا جبکہ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران 581.0ارب روپے کا قرض دیا گیا تھا جس سے سال بہ سال کے بنیاد پر 24اپریل 2020کو نجی اداروں کے قرض میں 6.4فیصد کی نمو ہوئی۔

سرمایہ کی منڈیاں

رواں مالی سال 2020کے آغاز میں کے ایس ای 100انڈیکس 33901.58پوائنٹس پر کھلا اور13جنوری 2020کو 43218.67کی بلندی ترین سطح پر پہنچ گیا جس کے بعد کمی ہونا شروع ہو گئی اور 25مارچ 2020کو 27228.8کی سب سے کم ترین سطح پر تھا۔

30اپریل 2020کو کے ایس ای 100انڈیکس 34111.64پوائنٹس پر بند ہوا اور مالی سال 2020کے پہلے دس مہینوں میں 0.61فیصد کا اضافہ درج کیا گیا۔

مارکیٹ سرمایہ کاری کا آغاز یکم جولائی 2019کو 6887.3ارب روپے سے ہوا اور 30اپریل 2020کو 6376.71ارب روپے پر بند ہوا۔ اس دوران مارکیٹ سرمایہ کاری میں 510.58ارب روپے کی کمی آئی۔

جنوری 2020تک انڈیکس کی اچھی کارکردگی کی وجہ مستحکم شرح تبادلہ اور بیرونی کھاتوں میں بہتری ہوئی۔ مارچ میں کمی کوویڈ19کے پھیلنے سے تھی۔

حکومت کے محرک پیکج اور کوویڈ19کے تناظر میں ایس ای سی پی کے اقدامات کے نتیجے میں انڈیکس اپریل میں مستحکم ہوا۔ مالی سال جولائی تا مارچ 2020کے دوران پندرہ قرض سیکیورٹیز جن کی قدر 76.17ارب روپے تھی، ان کا اجراء کیا گیا۔ 31مارچ 2020 کو 106کارپوریٹ قرض سیکیورٹیز واجب الادا تھے جس کی رقم 651.68ارب روپے تھی۔

افراط زر

عمومی افراط زر (سی پی آئی) کی شرح مالی سال 2020کے دوران جولائی تا مئی کے دوران اوسط 10.9فیصد رہی جو گزشتہ سال کی مدت میں 6.7فیصد تھی۔

مالی سال 2020کے جولائی تا مئی کے دوران شہری غذائی افراط زر کی شرح 13.6فیصد اور علاوہ از خوراک 8.4فیصد ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ سال کے اسی عرصہ میں 4.4فیصد اور 7.7فیصد تھی
مالی سال 2020، جولائی تا مئی کے دوران شہری اور دیہی بنیادی (core) افراط زر بالترتیب 7.6فیصد اور 8.7فیصد رہا جو گزشتہ سال 7.2فیصد اور 6.8فیصد تھا۔

جولائی تا مئی کے دوران تھوک قیمتوں کا اشاریہ (ڈبلیو پی آئی) میں مالی سال 2020میں پچھلے سال 16.2فیصد کے مقابلے میں 11.1فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ قیمتوں کے حساس اشاریہ (ایس پی آئی) میں مالی سال 2020کے دوران 14.0فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو پچھلے سال کے 4.7فیصد تھا۔
حکومت عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ اقتصادی محرک پیکج، احساس ایمرجنسی ریلیف پروگرام، ایس ایم ایز کے لئے ترغیبی پیکیج اور پٹرولیم قیمتوں میں کمی وغیرہ معاشرے کے تمام طبقات خصوصاً غریب خاندانوں کو کثیر الجہتی مثبت اثرات فراہم کرے گا۔

تجارت اور ادائیگیاں

پاکستان کی برآمدات چیلنجنگ خارجی عوامل کے باوجود اپنے بیشتر حریفوں کی نسبت بہتر رہی، مالی سال 2020ء کے جولائی تا فروری برآمدات 15.6 بلین امریکی ڈالر رہیں جو کہ گزشتہ سال کے اس عرصہ میں 15.1 بلین امریکی ڈالر تھیں۔ اس میں 3.6 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

مالی سال 2020ء کے جولائی تا اپریل کے دوران برآمدات 18.4 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئیں جو کہ گزشتہ سال کے اس عرصہ میں 19.2 بلین ڈالر تھیں جس میں 3.9 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ کووڈ 19 کی وجہ سے اوورسیز مارکیٹ میں پاکستانی برآمدات کی گرتی ہوئی مانگ کے ساتھ موجودہ آرڈرز کو پورا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سالانہ بنیاد پر برآمدات اپریل کے ماہ میں 54.2 فیصد کم ہو کر 957 ملین امریکی ڈالر رہیں جو کہ گزشتہ سال کے اس عرصہ میں 2089 بلین امریکی ڈالر تھی۔

گروپ کے لحاظ سے برآمدات کے جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 2020ء کے جولائی تا اپریل میں فوڈ گروپ میں 1.9 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ٹیکسٹائل گروپ 2.8 فیصد پٹرولیم گروپ میں 40.4 فیصد اور دیگر مینوفیکچرز گروپ میں 8.3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

مالی سال 2020ء کے جولائی تا اپریل میں درآمدات 38 بلین امریکی ڈالر رہیں جبکہ گزشتہ سال کے مماثل عرصے میں 45.4 ملین امریکی ڈالر رہیں جس میں 16.2 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ ڈپرس انڈسٹریل مال کی وجہ سے درآمدات کی کوانٹم میں کمی ہوئی جس کو گرتی ہوئی بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں نے مزید سہارا دیا جس میں خاص کر خام تیل، ایل این جی، کوئلہ اور دھات شامل ہیں۔

مالی سال 2020ء کے جولائی تا اپریل کے عرصے میں گروپ کے لحاظ سے پٹرولیم، ٹرانسپورٹ، زرعی، خوراک، ٹیکسٹائل، مشینری دھات سب میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مارکیٹ بیس ایکسچینج ریٹ سسٹم کے نفاذ کے ساتھ ساتھ قبل از اپنائے گئے۔ مالی سال 2020ء مینجمنٹ پالیسیوں کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 71 فیصد کم ہو کر 3.3 بلین امریکی (جی ڈی پی کا 1.3 فیصد) رہیں جبکہ گزشتہ سال یہ 11.4 بلین امریکی ڈالر تھیں (جی ڈی پی کا 4.1 فیصد)

بہتری بنیادی طور پر درآمدات سے ہوئی ہے۔ معاشی استحکام کے اقدامات تیل کی قیمتوں میں کمی اور توانائی کے شعبے کو فرنس آئل بیس سے ہٹانا، درآمدات میں کمی کی وجہ بنی جو کہ 16.9 فیصد کم رہیں۔

مالی سال 2020ء میں جولائی تا اپریل کے عرصے تجارتی خسارہ 29.5 فیصد کمی کی، 16.4 بلین امریکی ڈالر رہا جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ میں 23.3 بلین امریکی ڈالر تھا۔ مالی سال 2020ء میں جولائی تا اپریل کے دوران خدمات میں 7.6 فیصد کمی واقع ہوئی جو 4.7 بلین امریکی ڈالر رہا جبکہ گزشتہ سال یہ 5.1 بلین امریکی ڈالر تھا۔ وبائی مرض COVID-19 کی وجہ عالمی معیشت کو لاک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور دنیا بھر میں سفر اور سیاحت پر پابندی عائد ہے۔

مالی سال 2020ء میں جولائی تا اپریل کے دوران خدمات کی درآمد میں 18.9 فیصد کمی واقع ہوئی ہے اور یہ گزشتہ سال کے 9.0 بلین ڈالر کے مقابلے میں 7.3 بلین امریکی ڈالر رہے۔ مالی سال 2020ء کے جولائی تا اپریل میں خدمات میں تجارت کا توازن 33.4 فیصد کم ہو کر 2.6 بلین امریکی ڈالر رہا جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 3.9 بلین ڈالر تھیں۔

مالی سال 2020ء کے جولائی تا اپریل کے عرصے میں انکم اکاؤنٹ بیلنس میں 4.8 فیصد کا اضافہ ہوا اور یہ 4.8 بلین امریکی ڈالر تک پہنچا۔ مالی سال 2020ء کے جولائی تا اپریل کے دوران ترسیلات زر میں 5.5 فیصد کا خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور 18.8 بلین ڈالر رہا جبکہ گزشتہ سال یہ 17.8 بلین ڈالر رہا۔

پاکستان چونکہ تیل درآمد کرتا ہے تو عالمی تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں جو کہ عالمی معاشی سست روی کی وجہ سے ہے جس نے پاکستان کو بہت فائدہ دیا۔ مہنگائی میں کمی کے علاوہ اس سے درآمدی بل میں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو آسانی سے نفاذ کیا جا سکتا ہے جو کہ اس طرح ادائیگی کے توازن میں بہتری آئے گی۔

مالی سال 2020ء کے جولائی تا اپریل کے عرصہ میں خالص بیرونی براہ راست سرمایہ کاری 126.8 فیصد اضافہ کے ساتھ 2.3 بلین امریکی ڈالر تک پہنچا جبکہ خالص FPI کا بیرونی اخراج 0.42 بلین ڈالر تک پہنچا۔ وباء کی وجہ سے تمام بڑی اسٹاک مارکیٹ میں مندی رہی اور بہت کیپیٹل آؤٹ فلو کا خطرہ ہے۔

اپریل 2020ء کے آخر تک زرمبادلہ کے ذخائر 18.7 بلین ڈالر رہے۔ مرکزی بینک (SBP) کے پاس موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر 12.3 بلین ڈالر جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 6.4 بلین ڈالر تھے۔

مالی سال 2020ء کے جولائی تا اپریل کے دوران اوسط شرح مبادلہ ڈالر کے مقابلے میں 157.1 روپے رہی۔

سرکاری قرضے

رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران مجموعی طور پر سرکاری قرضہ 35207 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا جس میں 2499 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ اس مدت کے دوران وفاقی حکومت نے اپنے خسارے کی مالی اعانت کے لئے جو قرض لیا وہ 2080 ارب روپے تھا۔ یہ فرق بنیادی طور پر درج ذیل سے منسوب ہے۔

i۔ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں 2 فیصد کمی واقع ہوئی۔

ii۔ وفاقی حکومت کے نقد بیلنس میں اضافہ اور

iii۔ پی آئی بیز کی فیس ویلیو (جو قرض کی ریکارڈنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے) اور احساس شدہ قیمت (Realized Value) (جو بجٹ کی وصولی کے طور پر ریکارڈ کیا جاتا ہے) کے درمیان فرق۔

رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران اٹھایا جانے والا زیادہ تر اندرونی قرض درمیانی مدت سے طویل مدتی سرکاری سیکورٹیز (پاکستان انوسٹمنٹ بانڈ) اور قومی بچت کی اسکیموں کے ذریعے تھا۔

رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران اٹھایا گیا تمام بیرونی قرض رعایتی سودی شرائط پر کثیر الجہتی اور دوطرفہ ذرائع سے تھا۔

طویل المدتی سرکاری بانڈوں کے ذریعے قرض لینے میں لاگت کم ہوئی۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت اسٹیٹ بینک کی پالیسی شرح سے کم شرحوں پر طویل مدتی بانڈوں کے ذریعے قرض حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
حکومتی عزم کے مطابق جاری مالی سال کے دوران اسٹیٹ بینک سے کوئی نیا قرض نہیں لیا گیا۔ درحقیقت پچھلے سالوں میں اسٹیٹ بینک سے حاصل کردہ بقایا قرض میں 286 ارب روپے کی خالص ریٹائرمنٹ/واپسی تھی۔

سرکاری سیکورٹیز میں سرمایہ کاری کو متنوع بنانے اور اسلامی اداروں میں دستیاب لیکویڈیٹی کو فائدہ پہنچانے کے لئے حکومت نے پانچ سالہ فلوٹنگ ریٹ سکوک کا اجراء شروع کیا ہے۔

مختصر مدت کے قرض کو طویل مدتی قرض میں از سر نو مرتب کرنے اور طویل مدتی قرض میں ادھار لینے میں لاگت میں تیزی سے کمی کی وجہ سے 2019-20ء کے دوران سودی اخراجات 2891 ارب روپے کے بجٹ کے مقابلے میں 2700 ارب روپے متوقع ہیں۔

درمیانی مدت کے دوران سرکاری / حکومتی مقاصد میں مختلف اقدامات کے ذریعے اپنی مجموعی فنانسنگ ضروریات (جی ایف این) کو کم کرتا ہے جس میں بنیادی طور پر درج ذیل شامل ہیں۔

i۔ ٹریژری سنگل اکاؤنٹ کے ذریعہ بہتر نقد بہاؤ کا انتظام

ii۔ اندرونی مارکیٹ میں پختگی کو بڑھانا، لاگت اور بیشتر فنانسنگ خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے

iii۔ باقاعدہ اسلامی بنیاد پر قرض دینے کے پروگرام کو تیار کرنا اور

iv۔ مراعات یافتہ شرائط و ضوابط سے فائدہ اٹھانے کے لئے دوطرفہ اور کثیر الجہتی ترقیاتی شراکت داروں سے زیادہ سے زیادہ مراعات یافتہ بیرونی فنانسنگ حاصل کرنا۔

تعلیم

سال 2017-18ء کے دوران قومی سطح پر داخلوں کی کل تعداد 51.0 ملین تھی جبکہ اس کے مقابلہ میں سال 2016-17ء کے دوران داخلوں کی تعداد 53.6 بلین تک مزید بڑھنے کا تخمینہ ہے۔

سال 2017-18ء کے دوران تعلیمی اداروں کی کل تعداد 262 ہزار تھی جبکہ 2016-17ء کے دوران یہ تعداد 260.1 ہزار تھی۔ تعلیمی اداروں کی تعداد 2018-19ء میں 266.3 ہزار ہونے کا تخمینہ ہے۔

سال 2017-18ء کے دوران اساتذہ کی کل تعداد 1.77 ملین تھی جبکہ 2016-17ء کے دوران یہ تعداد 1.73 ملین تھی جس سے 27 فیصد اضافے کی عکاسی ہو رہی ہے۔ سال 2018-19ء کے دوران اساتذہ کی تعداد 1.83 ملین ہونے کا تخمینہ ہے۔

پاکستان کے سماجی اور معیاری زندگی پیمائش کے سروے 2018-19ء کے مطابق شرح خواندگی (دس سال اور اس سے زیاد) 60 فیصد ہے جبکہ 2015-16ء میں یہ شرح 58 فیصد تھی۔ مرد (71 فیصد) خواتین (49 فیصد)، شرح خواندگی دیہی علاقوں (51 فیصد) کی نسبت شہری علاقوں میں (74 فیصد) زیادہ رہی۔

سال 2015-16ء کے مقابلہ میں سال 2018-19ء کے دوران ملکی سطح پر خام تعلیمی اندراج کی شرح پرائمری سطح تک (عمر 6 تا 10 سال) 87 فیصد پر مستحکم رہی جبکہ خالص اندراج کی شرح میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا جو کہ 65 فیصد سے بڑھ کر 2018-19ء میں 66 فیصد ہو گئی۔

تعلیم پر سرکاری اخراجات بطور جی ڈی پی کے فیصد کے مالی سال 2019ء میں 2.3 فیصد رہے جبکہ مالی سال 2018ء میں یہ جی ڈی پی کا 2.4 فیصد تھے۔ تعلیم سے متعلقہ صارف میں مالی سال 2019ء میں 4.7 فیصد (868.0 ارب روپے) کا اضافہ ہوا۔

پی ایس ڈی پی سال 2019-20ء کے تحت حکومت نے ایچ ای سی کے لئے 29.047 ارب روپے مختص کئے۔ مالی سال 2020ء جولائی تا مارچ کے دوران جاری منصوبوں کے لئے 22.738 ارب روپے (کل اختصاص کا 80 فیصد) جاری کئے گئے ہیں۔

صحت اور غذائیت

کورونا وائرس کی وبائی بیماری 26 فروری 2020ء کو پاکستان میں پہنچنے کی تصدیق ہو گئی تھی۔ جب ایران سے واپسی کے دوران کراچی پہنچنے پر ایک مریض کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا، تب سے اندرون اور بیرون ملک منتقلی سے اس وبائی مرض کا پھیلاؤ شروع ہوا۔

5 جون 2020ء تک ملک بھر میں کورونا وائرس سے متاثر مریضوں کی کل تعداد 89,249 جبکہ تندرست ہونے والے مریضوں کی کل تعداد 31,198 اور انتقال کر جانے والوں کی کل تعداد 1,838 رپورٹ ہوئی۔ سندھ میں سب سے زیادہ 33,536 کیسز، پنجاب میں 33,144، خیبر پختونخوا میں 11,890 اور بلوچستان میں 5,582 کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس وباء سے اموات کی شرح تقریباً 2.1 فیصد ہے۔

کورونا وائرس (COVID-19) کے تناظر میں حکومت پاکستان نے ایک اعلیٰ سطح کی قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) تشکیل دی ہے جو اس وبائی مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ہر روز صورتحال کا جائزہ لیتی ہے تاکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان موثر رابطوں کو یقینی بنا کر اس وبائی بیماری پر قابو پایا جا سکے۔

وفاقی حکومت اور صوبوں کے باہمی تعاون کے ساتھ بروقت اقدامات کئے جانے کی وجہ سے اب تک اس وباء کو مزید پھیلنے سے روک رکھا ہے۔

پاکستان کے 2018ء کے قومی غذائیت کے سروے (این این ایس) کے مطابق 40 فیصد بچے جن کی عمریں پانچ سال سے کم ہیں، ان کی نشونما غیر کامل ہے اور باقی 20 فیصد کا وزن معمول سے کم ہے۔

قومی غذائیت کے سروے (این این ایس) نے مزید انکشاف کیا ہے کہ ہماری آبادی کا تقریباً 18 فیصد (38 ملین) خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے۔

غذائی قلت کے معاشی اخراجات جی ڈی پی کے نقصان کے لحاظ سے بہت زیادہ او رمستقل ہیں جو پاکستان میں ہر سال تین فیصد (7.6 بلین ڈالر) ہیں۔

حکومت ملیریا، تپ دق، ایچ آئی وی/ ایڈز ذیابیطس، کینسر، دل کی بیماریوں جیسی مہلک بیماریوں کے خلاف لڑنے کے لئے صحت پر آنے والے اخراجات میں اضافے کی خواہاں ہے۔

مالی سال 2019ء کے دوران وفاق اور صوبائی حکومتوں کے ذریعے مجموعی صحت کے اخراجات بڑھ کر 421.8 بلین روپے ہو گئے ہیں جو کہ پچھلے سال 416.5 بلین روپے تھے اور پچھلے سال کی شرح نمو 1.3 فیصد رہی اور مالی سال 2019ء کے دوران یہ جی ڈی پی کا 1.1 فیصد رہی۔

آبادی، افرادی قوت اور روزگار

نیشنل انسٹی ٹیوت برائے پاپولیشن کے تخمینہ کے مطابق 2019ء میں آبادی 211.17 ملین ہے۔ یہ ڈیٹا NIPS نے جو 2016ء میں پروجیکشن کی تھی اس کے مطابق ہے۔

2017ء کی مردم شماری کے مطابق آبادی 207.77 ملین تھی جس کے نتائج کا باقاعدہ نوٹیفکیشن کابینہ اور مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی منظوری کے بعد جاری کیا جائے گا۔

NIPS کے مطابق آبادی 2019ء میں اضافے کی شرح 1.94 فیصد اور کل شرح نمو 3.3 فی خاتون ہے۔

یوتھ انٹر پرنیور شپ سکیم کے تحت حکومت نے نوجوانوں کے کاروبار کے لئے 465 ملین روپے دسمبر سے مارچ 2020ء تک قرض کی مد میں تقسیم کئے۔

سی پیک کے ابتدائی منصوبوں سے ملک میں 85,000 سے زائد ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے۔

PIDE کے ابتدائی تخمینے کے مطابق 2019-20ء کی آخری سہ ماہی میں کوویڈ 19 ملازمتوں پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔

اگر محدود پیمانے پر لاک ڈاؤن کیا گیا تو 1.4 ملین لوگوں کی ملازمتیں چلی جائیں گی۔ درمیانے درجے کے لاک ڈاؤن میں 12.3 ملین اور مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں 18.53 ملین لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

پاکستان پاورٹی ایلیوشن کے تحت احساس پروگرام کے ذریعے جولائی تا مارچ 2020ء تک 21.4 بلین روپے بغیر سود کے قرضوں کی مد میں تقسیم کئے۔

تارکین وطن کی تعداد 2018ء میں 382,439 تھی جو کہ 2019ء میں بڑھ کر 625,203 ہو گئی۔

مواصلات اور نقل و حمل

پاکستان کی شاہراہوں کا سلسلہ 39 قومی شاہراہوں، موٹرویز، ایکسپریس ویز اور سٹریٹجک روڈز پر مشتمل ہے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے موجودہ پورٹ فولیو میں جاری منصوبوں کی تعداد چالیس ہے جن کے لئے 2019-20ء پی ایس ڈی پی میں 117.5 ارب روپے مختص ہیں۔

این ایچ اے کے مطابق پاکستان میں سڑکوں کی کل لمبائی 263775 کلومیٹر ہے اور اس حوالے سے پاکستان پوری دنیا میں 22 ویں نمبر پر ہے۔ سی پیک کے تحت جاری بڑے منصوبوں کی تعمیر سے اس درجہ بندی میں مزید بہتری متوقع ہے۔

پی آئی اے سی نے اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے پچھلے 22 ماہ سے گراؤنڈز B-777، A320 اور ATR طیارے قابل استعمال بنائے ہیں اور منافع بخش روٹس سیالکوٹ سے پیرس، پشاور سے شارہ شروع کر لئے ہیں۔

موجودہ مالی سال میں فروری تک پاکستان ریلوے کی آمدنی میں 8.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ آمدن 36.9 ارب روپے ہے جبکہ پچھلے سال میں اسی دورانیہ کی آمدن 34 ارب روپے تھی۔

موجودہ مالی سال میں مارچ تک پی این ایس سی کی آمدن میں 6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ آمدن 1411 ملین رہی ہے جبکہ پچھلے سال کے اسی دورانیہ میں پی این ایس سی کی آمدن میں 6 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ آمدن 1411 ملین رہی جبکہ پچھلے سال کے اسی دورانیہ میں پی این ایس سی کی آمدنی 1332 ملین تھی۔

منسٹری آف آئی ٹی ٹیلی کام کے مطابق پاکستان میں ہر ماہ 70 لاکھ سم کارڈ اور 10 ہزار بینک کارڈ درآمد ہوتے ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں آئی ٹی اور آئی ٹی ای ایس ترسیلات کی شرح نمو میں 17.5 فیصد متواتر سالانہ اضافہ ہوا ہے جو کہ باقی تمام صنعتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور خطے میں بھی سب سے زیادہ ہے۔

FY2019-20 میں پاکستان کی آئی ٹی اور آئی ٹی ای ایس برآمدات 4.1 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں اور برآمداتی ترسیلات ایک ارب ڈالر کے قریب ہیں۔

آئی ٹی ای ایس اینڈ آئی ٹی برآمدات میں مائیکرو انٹرپرائرز، کنسلٹنٹس، اور فری لانسر کا حصہ تقریباً 500 ملین کے لگ بھگ رہا ہے اور اس شعبے میں اندرون ملک سے آمدنی ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہوئی ہے۔

موجودہ مالی سال میں فروری تک آئی ٹی ای ایس اینڈ آئی ٹی کے شعبے میں برآمداتی ترسیلات 26.24 فیصد شرح نمو میں اضافے کے ساتھ 88.74 ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جو کہ پچھلے سال کے اس دورانیے میں 702.9 ملین ڈالر تھیں۔

جولائی 2015ء سے دسمبر 2019ء تک ٹیلی کام کے شعبے میں ایف ڈی آئی 1.5 ارب ڈالر رہی۔ پاکستان میں 2002ء سے اب تک ٹیلی کام میں 8.5 ارب ڈالر سرمایہ کاری ہوئی۔

موجودہ مالی سال میں دسمبر تک ٹیلی کام کے شعبے نے 173 ارب روپے سرکاری خزانے میں جمع کروائے ہیں اور ٹیلی کام کے شعبے میں سالانہ آمدنی موجودہ مالی سال میں 553.8 ارب متوقع ہے جو کہ پچھلے مالی سال کے 440 ارب روپے کے مقابلے میں 12.9 فیصد زیادہ ہے۔

پیمرا اور ایف ایم ریڈیو کے لئے 254 لائسنس اور ٹی کیبل کے لئے 4062 لائسنس جاری کئے ہیں۔ پیمرا نے لائسنس جاری کرتے ہوئے ایڈوانس ٹیکس کی مد میں ایک ارب سے زیادہ سرکاری خزانے میں جمع کروائے ہیں۔

توانائی

پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کا سالانہ کرچ 19.68 ملین ٹن ہے۔ مقامی پیداوار 11.59 ملین ٹن ہے۔ باقی 8.09 ملین ٹن درآمد کی جاتی ہیں پارکو کے علاوہ مقامی تیل کے کارخانے پرانے ہیں اور وہ بھی 40 فیصد فرنس آئل پیدا کرتے ہیں جس کی قیمت کم ہے۔

موجودہ مالی سال میں مارچ تک LPG کی کل پیداوار 739785 ٹن رہی۔ اس وقت ملک میں گیارہ (11) LPG پروڈیوسر اور دوسو (200) LPG کی مارکیٹنگ کمپنیاں ہیں جن کے 7000 سے زیادہ Distributors ہیں۔ موجودہ مالی سال میں مارچ تک LPG کے بنیادی ڈھانچے میں 3.72 ارب روپے کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔

توانائی میں LPG کا حصہ صرف 1.2 فیصد ہے جس کی وجہ پیداواری مشکلات اور ایل پی جی کی قدرتی گیس اور لکڑی کے مقابلے میں زیادہ قیمت ہے۔ اس وقت ایل پی جی کا مارکیٹ حجم1061447 ٹن سالانہ ہے۔ اس کا 76 فیصد مقامی پیداوار ہے باقی درآمد کی جاتی ہے۔

پاکستان میں قدرتی گیس کی یومیہ پیداوار چار (4) بلین Cubic Feet ہے۔ پاکستان میں 96 لاکھ گیس صارفین کیلئے 12971 کلو میٹر لمبی ٹرانسمیشن نیٹ ورک اور 37058 کلو میٹر پائپ لائن موجود ہے۔
PAEC نے یکم جولائی 2019ء سے 31 مارچ 2020 تک 7143 ملین یونٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کی۔

حکومت توانائی کے متبادل ذرائع مثلاً ونڈ، شمسی اور دوسرے Alternate Renewable Energy ذرائع جن کی ملک میں وسیع پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ پر توجہ مرکوز کر رہی ہے تاکہ Renewable Energy ٹیکنالوجی کی گرتی ہوئی قیمتوں کی بدولت سستی بجلی پیداوار کر کے ترقی کی راہ ہموار کر سکے۔

سماجی تحفظ

کورناوائرس (Covid-19) کے تناظر میں حکومت نے 144 ارب کے امدادی پیکیج کی منظوری دی جس میں احساس پروگرام کے تحت 12 ملین غریب خاندانوں کو 12,000 روپے کی فوری مالی امداد فارہم کی جائے گی۔

05 جون 2020ء تک احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت 9.7 ملین مستحقین کو 1118.0 ارب روپے کی رقم ادا کی گئی۔

مالی سال 2020ء میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے بجٹ کی مختص رقم کو بڑھا کر 180 ارب روپے کر دیا گیا ہے تاکہ معاشرے کے غریب ترین طبقات میں غیر مشروط نقد رقم کی منتقلی کو یقینی بنایا جا سکے۔

غیر مشروط کیش ٹرانسفر پروگرام کو اب کفالت پروگرام کے طور پر بہتر اور مستحکم کیا گیا ہے۔ جس کے ذریعے ملک کی کم از کم 7.0 ملین مستحق اور غریب ترین خواتین کو 2,000 روپے ماہانہ نقد وظیفہ دیا جائے گا۔

شروع میں کفالت پروگرام کے تحت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والی 4.2 ملین خواتین کو شامل کیا گیا ہے اور اس سال مزید تقریباً تین ملین مستحق خواتین کو شامل کیا جائے گا۔ اور 2020 کے آخر تک اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے والوں کی کل تعداد 7.0 ملین ہو جائے گی۔

پاکستان میں غربت کے خاتمہ کا فنڈ (PPAF) مائیکرو کریڈٹ، پانی، صحت، تعلیم اور ذریعہ معاش میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ PPAF نے جولائی تا مارچ مالی سال 2020ء کے دوران ملک بھر کے 144 اضلاع میں اپنی شراکتی تنظیم (Pos) کو 2.469 ملین روپے کی رقم فراہم کی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here