پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی، حکومتی نوازش یا عالمی منڈی میں مندی کی مہربانی؟

کورونا کے باعث لاک ڈاؤن کی وجہ سے عالمی منڈی میں مندی کا رجحان ہے جس سے قیمتیں مسلسل کم ہورہی ہیں، حکومت نے ملک میں قیمتیں کم نہ کرنے کی پوری کوشش کی مگر قانونی پابندی کی وجہ سے اس کے پاس عوام کو ریلیف دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔

500

کراچی : حکومت کی جانب سے رواں ماہ کے آغاز میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بار پھر کمی اعلان کیا گیا۔

اس حوالے سے اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پٹرول، لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں مزید کم کردی ہیں اور اب جنوبی ایشیا میں ایندھن کی سب سے کم قیمت پاکستان میں ہے ۔ انڈیا میں ہمارے مقابلے میں تقریباً دگنی جبکہ بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا میں اسکی قیمت ہم سے 50 سے 75 فیصد زیادہ ہے۔‘

ایندھن کی قیمتوں میں کمی کے اس اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر ہر طرف اسی کا چرچہ تھا مگر تیل کی عالمی منڈی میں بھی قیمتیں کم ہوئیں اور چوں کہ پاکستان تیل درآمد کرتا ہے اس لیے کسی حد تک ریلیف ملنا یقینی تھا، کیا ایسا نہیں ہے؟

لیکن کیا حکومت کو تیل کی قیمتوں میں کمی کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے؟

عالمی منڈی میں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے تیل کی قیمتیں مسلسل کم ہورہی ہیں، روس اور سعودی عرب کا تنازع بھی تیل کے دام گرنے کی ایک بڑی وجہ ہے جس کے باعث پاکستان ماضی کی نسبت سستے داموں تیل درآمد کررہا ہے۔

اس مثال سے تیل کی قیمت میں کمی کا تناسب سمجھنے میں آسانی ہوگی:

گزشتہ برس یعنی جون 2019ء میں پٹرول کی ایکس ریفائنری قیمت 76.65 روپے تھی جبکہ اسے 112.68 روپے میں فروخت کیا جارہا تھا۔ آج پٹرول کی ایکس ریفائنری پرائس 23.99 روپے فی لٹر ہے لیکن عوام کو یہ 74.52 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔

اس کے باوجود تیل کی قیمتیں کم کرنے پر حکومت کی تعریف کرنا سمجھ سے بالاتر اور دلچسپی سے بھرپور چیز ہے۔

پٹرول کی قیمت ماہانہ بنیادوں پر طے کی جاتی ہیں اور جون میں اس میں 7.6 روپے کی کمی تو ہوئی مگرحکومت نے لیوی میں اضافہ کردیا۔

تو دیے جانے والا ریلیف حکومت کی طرف سے نہیں ہے؟

 پٹرول پر زیادہ سے زیادہ 30 روپے لیوی کی اجازت ہے اور جب حکومت عوام کو ریلیف دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو عموماْ اس ہی میں کمی کی جاتی ہے مگر اس بار حکومت نے کمی کے بجائے اسے اپنی انتہا یعنی 30 روپے تک پہنچا دیا ہے۔

لیوی کے تیس روپے سے زیادہ نہ ہونے کے باعث حکومت کو ایندھن کی قیمت میں 7 روپے 6  پیسے کی کمی کرنا پڑی۔

یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قیمتوں میں کمی حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف نہیں ہے بلکہ عالمی منڈی میں تیل کی کم ہونے والی قیمتوں کا اثر ہے۔

اس ماہ تیل کی قیمتوں کا تعین کرتے ہوئے حکومت کے پاس آپشن تھا کہ وہ قیمتیں 44.52 یا 74.52 روپے کے درمیان رکھے لیکن اس نے قیمتیں ممکنہ طور پر بلند سے بلند سطح پر رکھنے کا فیصلہ کیا۔

ناقدین کہتے ہیں کہ جون میں ایندھن کی قیمتیں کم کرنے کے بجائے حکومت کو اپنا ریونیو بڑھانا چاہیے تھا مگر اس کے نتیجے میں منی بجٹ لانا پڑنا تھا جو کہ وسائل کا ضیاع ہی ہونا تھا۔

مختصر یہ کہ تیل کی قیمتوں میں کمی ہونے پر آپکو حکومت نہیں بلکہ عالمی منڈی میں مندی کا شکرگزار ہونا چاہیے کیونکہ حکومت کے پاس ایندھن کی قیمتوں میں کمی کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن نہیں تھا۔

کیا حکومت کی جانب سے لیوی میں اضافہ کرنا بُرا اقدام ہے ؟

سادہ الفاظ میں اس سوال کا جواب ’نہیں‘ ہے کیونکہ حکومت کورونا وبا کی روک تھام اور اس کے تناظر میں ریلیف اقدامات پر ایک بہت بڑی رقم خرچ کر رہی ہے اور لاک ڈاؤن کے باعث اسے ٹیکسوں کی مد میں ریونیو میں بھی کمی کا سامنا ہے اور اسے اس صورتحال میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے مزید پیسوں کی بھی ضرورت ہے۔

لیکن حقائق پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ ایک طرف تو حکومت تیل کی قیمتوں میں کمی کا کریڈٹ لے رہی اور دوسری طرف کورونا کے تناظر میں  1.2 کھرب روپے کا ریلیف پیکج دیتے ہوئے اس نے ایندھن کی مد میں ریلیف دینے کے لیے 75 ارب روپے مختص کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔

 یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے غلط بیانی سے کام لیا جا رہا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here