کاسمیٹکس کمپنی کا پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی پر ہراساں کرنے کا الزام

شاہین کاسمیٹکس کے مطابق اسے فری سیل سرٹیفیکیٹ درکار ہے مگر پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے دو افسران اس ضمن میں غیر قانونی مطالبات کر رہے ہیں

1028

اسلام آباد : ایک مقامی کاسمیٹکس کمپنی نے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے مسلسل ہراساں کیے جانے بارے مطلع کیا گیا ہے۔

پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی سے وابستہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق یہ شکایت شاہین کاسمیٹکس کی جانب سے لگائی گئی ہے جس کا کہنا ہے کہ اسے پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے فری سیل سرٹیفیکیٹ کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔

کمپنی کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر کنفرمٹی اسیسمنٹ آف سسٹم کلیری فکیشن سنٹر یاسین اختر اور ڈپٹی ڈائریکٹر اصغرعلی کی جانب سے سرٹیفکیٹ جاری کرنے لیے غیر قانونی مطالبات کیے جارہے ہیں حالانکہ کمپنی کی جانب سے اس حوالے سے درکار تمام  دستاویزات فراہم کردی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے :

بلیک بورڈ پر مائیکروسافٹ ورڈ سکھانے والے استاد کے سوشل میڈیا پر چرچے

کورونا وائرس کے مریض کا ٹیسٹ  لینے کے لئے روبوٹ تیار

فواد چودھری کی متحدہ عرب امارات کو زراعت کے شعبہ میں سرمایہ کاری کی دعوت

کمپنی کا کہنا ہے کہ غیر قانونی مطالبات پورے نہ کیے جانے پر اس کا جائز مطالبہ پورا نہیں کیا جا رہا۔

وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو لکھے گئے خط میں بتایا گیا ہے کہ اس سے پہلے تمام دستاویزت کی فراہمی کے بعد کمپنی نے پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے سابق چئیرمین ڈاکٹر شہزاد افضل سے مذکورہ سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا تھا

مگر محکمے کے موجودہ سربراہ کی جانب سے یہ سرٹیفکیٹ پچھلے چھ ماہ سے جاری نہیں کیا گیا۔

کمپنی کا بتانا تھا کہ اسکا نمائندہ پچھلے لائسنس اور سرٹیفکیٹ کی کاپی کے ہمراہ پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے دفترگیا تاکہ محکمے کی موجودہ انتظامیہ کو یہ دستاویزات فراہم کرسکے تاہم پہلے تو یاسین اختر اور اصغر علی کی جانب سے معاملے میں دلچسپی ہی نہ لی گئی۔

مگر بعد ازاں انہوں نے اس شرط پر بات سنی اور سرٹیفکیٹ جاری کرنے پر آمادگی ظاہرکی کہ کمپنی اس بات کا اقرار کرے کہ اس نے اس پہلے فری سیل سرٹیفکیٹ غیر قانونی اور ناجائز طریقے سے حاصل کیا تھا۔

 یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ڈاکٹر شہزاد افضل انتہائی اچھی شہرت کے حامل سائنسدان ہیں مگر انہیں پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے جونیر افسران کی شکایات کے بعد او ایس ڈی بنا دیا گیا تھا۔

ذرائع کا دعوی ہے کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور پاکستان سٹینڈرڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے کچھ اعلی افسران یاسین اختر کو ادارے کا لاہور میں سربراہ بنانا چاہتے تھے جو کہ ڈاکٹر شہزاد افضل کے جونیر تھے۔

ڈاکٹر شہزاد پر الزام ہے کہ انہوں نے ادارے میں ہونے والی مبینہ کرپشن  کے حوالے سے تحقیقات کی معلومات میڈیا کو فراہم کی جو کہ ادارے کی بدنامی کا باعث بنی۔

تاہم ڈاکٹر شہزاد کو ان پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات سے پہلے اور معاملے پر انہیں سنے بغیر ہی عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

شاہین کاسمیٹکس کی جانب سے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو لکھے گئے خط نے وزارت کے اعلی افسران کو مشکل صورتحال سے دوچار کردیا ہے

جس میں کمپنی کی جانب سے ڈاکٹر شہزاد افضل کے خلاف ہونے والی انکوائری کو بد نیتی پر مبنی اقدام قرار دیتے ہوئے اسے بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here