پاکستانی آم کی ایکسپورٹ تاریخ کے سخت ترین چیلنج سے دوچار، 40 فیصد کمی کا خدشہ

عالمی وباء اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سنگین اثرات، رواں سیزن آم کی ایکسپورٹ کا ہدف 80 ہزار ٹن تک محدود کر دیا گیا، مینگو پلپ کی برآمد بھی 35 فیصد کم رہنے کا خدشہ، کروڑوں ڈالرز کا نقصان

421

اسلام آباد: کورونا وائرس، موسمیاتی تبدیلیوں، مقامی سطح پر آم کی پیداوار میں کمی کے ساتھ عالمی منڈی میں کساد بازاری، طلب میں کمی اور فضائی آپریشن محدود ہونے کے ساتھ فریٹ میں غیر معمولی اضافہ نے آم کی ایکسپورٹ کو سنگین مسائل سے دوچار کردیا ہے اور رواں سال پاکستانی آم کی ایکسپورٹ میں 40 فیصد کمی کا خدشہ ہے۔

پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے رواں سیزن آم کی ایکسپورٹ کا ہدف 80 ہزار ٹن تک محدود کردیا ہے جو گزشتہ سال کی ایک لاکھ 30 ہزار ٹن کی ایکسپورٹ کے مقابلے میں 50 ہزار ٹن کم ہے۔

ایکسپورٹ کے ہدف میں کمی کے ساتھ ہی آم کی ایکسپورٹ سے حاصل ہونے والے ریونیو میں بھی نمایاں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گزشتہ سیزن ایک لاکھ 30 ہزار ٹن آم کی ایکسپورٹ سے 9 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا تھا جو رواں سیزن 5 کروڑ ڈالر تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔

آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کے مطابق کورونا کی عالمی وباء کی وجہ سے پاکستان سے آم کی ایکسپورٹ کا سیزن بے یقینی کا شکار ہے اور ایکسپورٹ 40 فیصد تک کم رہنے کا خدشہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے: فروٹ ایکسپورٹرز کا حکومت سے آم کی برآمدات کیلئے تاریخ میں توسیع کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے یورپ، امریکا سمیت پاکستانی آم کی خریدار منڈیاں بند پڑی ہیں، لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایئرلائنز، سیاحت، ہوٹلنگ اور شاپنگ سینٹرز بند ہونے سے دیگر اشیاء کی طرح آم کی کھپت بھی متاثر ہوگی۔

دوسری جانب فضائی آپریشن محدود ہونے کی وجہ سے فضائی کمپنیوں نے کرایوں میں تین گنا اضافہ کردیا ہے، گزشتہ سیزن 175 روپے فی کلو کرایہ وصول کرنے والی ایئرلائنز رواں سیزن یورپ کے لیے 550 روپے فی کلو کرایہ طلب کررہی ہیں، خلیجی ریاستوں کے لیے 80 روپے فی کلو سے بڑھا کر 240 روپے فی کلو کر دیا گیا ہے جس سے آم کی ایکسپورٹ کی لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔

وحید احمد کے مطابق ملک سے 55 فیصد آم سمندر کے راستے، 20  فیصد فضائی راستے اور 25 فیصد زمینی راستے سے ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔فضائی کمپنیوں کی جانب سے فریٹ میں ہوشربا اضافہ کی وجہ سے فضائی راستے سے آم کی ایکسپورٹ میں 70 فیصد تک کمی کا خدشہ ہے۔

دوسری جانب ایران اور افغانستان کو زمینی راستے سے آم کی ایکسپورٹ بھی لاک ڈائون یا کورونا کی روک تھام کے پیش نظر سرحدوں کی بندش سے مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔

پاکستانی آم کے خریدار بہت سے ممالک کے لیے فضائی آپریشنز تاحال بحال نہیں ہوئے، اسی طرح جو فضائی آپریشن کھل رہے ہیں وہاں بھی پروازوں کے شیڈول کی تبدیلی جیسے خدشات کا سامنا ہے جس سے ایکسپورٹ کو درپیش مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

پاکستانی ایکسپورٹرز فریٹ کی بلند لاگت کا بوجھ اٹھا کر یورپ تک آم پہنچا بھی دیں تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ مذکورہ شپمنٹس بروقت کلیئر کرا لی جائیں اور خریداروں تک پہنچائی جاسکیں۔

پاکستان سے صرف تازہ آم ہی نہیں بلکہ آم سے تیار شدہ ویلیو ایڈڈ مصنوعات مینگو پلپ کی ایکسپورٹ اور مقامی کھپت میں بھی کمی آنا شروع ہوگئی ہے جس کے اثرات سیزن کے دوران مزید پختہ ہوجائیں گے، ہوٹلنگ، سیاحت، فضائی سفر اور شاپنگ سینٹر بند ہونے کی وجہ سے جوسز کی طلب گرچکی ہے جس کی وجہ سے مینگو پلپ کی ایکسپورٹ اور مقامی  طلب میں بھی کمی آرہی ہے۔

پاکستان سے مینگو پلپ خریدنے والی عالمی کمپنیوں نے اپنے آرڈرز پہلے ہی محدود کرنا شروع کردیے ہیں اور مقامی سطح پر بھی جوسز کا استعمال کم ہورہا ہے۔ مجموعی طور پر مینگو پلپ کی ایکسپورٹ اور مقامی فروخت  35 فیصد تک کم رہنے کا خدشہ ہے۔

وحید احمد کے مطابق کورونا کی وباء نے رواں سال سر اٹھایا لیکن پاکستان میں کلائمنٹ چینج کے اثرات گزشتہ پانچ سال سے آم کی فصل پر مرتب ہورہے ہیں جس سے پیداوار میں کمی کا سامنا ہے اور آم کی فصل تیار ہونے کے وقت میں دو ہفتوں کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے رواں سیزن بھی آم کی پیداوار میں نمایاں کمی کا سامنا ہے۔

آم کی پیداوار میں پنجاب کا حصہ 70 فیصد ہے جہاں رواں سیزن 35 فیصد پیداوار کم رہی، اسی طرح سندھ کا شیئر مجموعی پیداوار میں 29 فیصد ہے جہاں آم کی پیداوار رواں سیزن 15 فیصد کم رہی۔

یہ بھی پڑھیے: آم کی فصل ضائع ہونے کا خطرہ، ہنگامی امداد کا مطالبہ

وحید احمد کے مطابق کلائمنٹ چینج کے زرعی شعبے بالخصوص بڑی فصلوں اورپھلوں کی پیداوار پر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے تاحال کوئی جامع ریسرچ نہیں کی گئی جس کی روشنی میں کسانوں اور کاشتکاروں کو رہنمائی فراہمی کی جاسکے اور پیداوار میں کمی اور نقصانات کو روکا جاسکے۔

پی ایف وی اے نے ویژن 2030 کے تحت صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے لیے جامع روڈ میپ دیا ہے جس پر وفاق اور صوبائی حکومتیں عمل کرکے پاکستان کے زرعی شعبہ کو کلائمنٹ چینج کے اثرات سے محفوظ بناسکتی ہیں۔

وحید احمد نے کہا کہ پاکستان سے آم ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں کو ایسے چیلنجز کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا، خریدار ملکوں کی صورتحال بے یقینی کا شکار ہے جس کی وجہ سے ایکسپورٹرز محتاط ہیں، بالخصوص فضائی راستے سے ایکسپورٹ پر فریٹ چارجز میں غیرمعمولی اضافے نے ایکسپورٹرز کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے اور زیادہ تر سمندر کے راستے سے روایتی منڈیوں تک ایکسپورٹ کو ترجیح دے رہے ہیں۔

وحید احمد نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ آم کی ایکسپورٹ کو نقصانات سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ایکسپورٹرز کو فضائی راستے سے ایکسپورٹ پر فریٹ کی مد میں سبسڈی فراہم کی جائے تاکہ پاکستان بیرونی منڈیوں بالخصوص یورپ اور امریکا میں کرونا کی وجہ سے پیدا ہونیو الے چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اپنا مقام برقرار رکھ سکے۔

اسی طرح مقامی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے فوائد گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کی شکل میں ایکسپورٹرز کو منتقل کرنے کے لیے حکومت اپنا کردار ادا کرے کیونکہ ایندھن کی قیمت کم ہونے کے باوجود مقامی گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کسی قسم کی کمی نہیں لائی گئی۔

وحید احمد نے کہا کہ کورونا کی وباء کی روک تھام کے لیے آم کے باغات سے لے کر فیکٹریوں، دفاتر، پیک ہائوسز میں حفاظتی اقدامات کی وجہ سے بھی کاروباری لاگت میں اضافہ ہورہا ہے، وفاقی حکومت کرونا کے حفاظتی اقدامات پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی ایکسپورٹرز کو مدد فراہم کرے حفاظتی ماسک، سینیٹائرز، درجہ حرارت چیک کرنے کے آلات اور حفاظتی لباس اور دیگر سازوسامان فراہم کرکے انڈسٹری کو درپیش اسی چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹ کے مقررہ ہدف کو پورا کرنے کے لیے ایکسپورٹ سے جڑے ہوئے تمام اداروں، پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ، کسٹم، سی پورٹ اور ایئر پورٹ اتھارٹیز کا تعاون بھی ناگزیر ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here