کراچی: فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئرمین میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ روپے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو دباؤ سے نکالنے، گردشی قرضہ ختم کرنے اور ملک کو قرضوں سے نجات دلانے کے لئے برآمدات بڑھانا واحد ذریعہ ہے۔
بزنس کمیونٹی سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں بھی کمی کا امکان ہے، پاکستان اس وقت سنگین معاشی بحران سے گزر رہا ہے جسکی وجہ ماضی کی بد انتظامی اور موجودہ وباء کے بعد لاک ڈاؤن ہے جس نے لاکھوں افراد سے ان کا روزگار چھین لیا ہے جبکہ تخمینہ ہے کہ ایک کروڑ 80 لاکھ لوگ بھی بیروزگار ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملکوں اور اداروں کی درجہ بندی کرنے والے بین الاقوامی ادارے موڈیز نے پاکستان کی معاشی درجہ بندی پر نظر ثانی کے فیصلے کے چند روز بعدملک کے پانچ بڑے بینکوں کی مالی حالت پر بھی نظر رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کا نتیجہ درجہ بندی میں تنزلی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ حکومت کی جانب سے کمرشل قرضے بروقت ادا کرنے کے فیصلے کے اعلان میں غیر ضروری تاخیر ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس واچ لسٹ سے نکلنے کے لئے فوری اقدامات کرے۔ پاکستانی معیشت کے حجم کے مقابلہ میں برآمدات گزشتہ 15 سال سے مسلسل گرتی ہوئی اب 7.6 فیصد تک پہنچ گئی ہیں، عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق لکسمبرگ کی برآمدات معیشت کے حجم کے مقابلہ میں 224.8 فیصد، ویتنام کی برآمدات معیشت کے حجم کے مقابلہ میں.4 95 فیصد، ہانگ کانگ 188 فیصد، بحرین 88.1 فیصد، ایران 25 فیصد، بھوٹان 29 فیصد، بھارت 20 فیصد اور بنگلہ دیش کی 15 فیصد ہے۔
زاہد حسین نے کہا کہ پاکستانی برآمدات کی صورتحال مخدوش ہے، 2018 کی برآمدات سے صرف 38 فیصد درآمدات کی ادائیگی ممکن ہوئی جو غیر تسلی بخش صورتحال ہے۔ حکومت نے معیشت کی دستاویز بندی اور اسکا رخ درست کرنے کیلئے قابل قدر اقدامات کئے ہیں تاہم برآمدی شعبہ کے تحفظات کے مد نظر زیرو ریٹنگ کی سہولت دوبارہ دینے پر غور کیا جائے۔ برآمدات کے فروغ کے لئے افریقہ سمیت تمام غیر روائتی منڈیوں کا جائزہ لیا جائے۔