اسلام آباد: قرضوں کی انکوائری کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن نے انکشافات سے بھرپور اپنی رپورٹ وزیراعظم عمران خان کو پیش کردی۔
اس کمیشن کے قیام کا مقصد 2008ء سے 2018ء کے دس سال کے عرصے میں لیے جانے والے قرضوں کے استعمال کی تحقیقات کرنا تھا۔
کمیشن کی جانب سے جمع کروائی جانی والی رپورٹ میں وزیراعظم کو بتایا گیا ہے کہ مختلف وزارتوں کے اعلیٰ حکام کی وجہ سے قومی خزانے کو ایک ہزار ارب روپے کا نقصان ہوا۔
ذرائع کے مطابق کمیشن نے اورنج لائن میٹرو ٹرین، پشاور بس ریپڈ ٹرانسپورٹ اور نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے سمیت ایک ہزار ترقیاتی منصوبوں کی مد میں لئے جانے والے قرضوں بارے میں تحقیقات کیں۔
ان تمام منصوبوں کے لیے 2008ء سے 2018ء کے درمیان قرضے لیے گئے۔
ذرائع کے مطابق کمیشن نے اقتصادی امور ڈویژن سمیت متعدد صوبائی اور وفاقی وزارتوں کے حکام کو قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
چینی سبسڈی، اسد عمر پر کس نے دبائو ڈالا؟
چینی بحران رپورٹ میں ملز مالکان کی جانب سے بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کا انکشاف
کیا حکومت واقعی کورونا ریلیف فنڈ کا پیسہ گردشی قرضوں کی ادائیگی میں استعمال کر رہی ہے؟
کمیشن نے ملک کے 13 سیاسی خاندانوں، کچھ بااثر بیورو کریٹس اور متعدد محکموں جن میں لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے مختلف منصوبوں میں کردار کو بھی مشکوک قرار دیا ہے ۔
نیب کے ڈپٹی چئیرمین حسین اصغر کی سربراہی میں بننے والے 11 رکنی کمیشن نے ایک سال سے کم عرصے تک تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو جمع کرائی ہے۔
کمیشن کے ارکان میں نیب، آئی ایس آئی، ایم آئی ، آئی بی ، ایف آئی اے، سٹیٹ بنک آف پاکستان ، ایف بی آر، وزارت خزانہ اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے نمائندے شامل تھے۔
شروع میں کمیشن کو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے لیے جانے قرضوں کی تحقیقات چھ ماہ میں مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2008 سے 2018 تک ترقیاتی منصوبوں کے لیے 2 ہزار 400 ارب روپے کے قرضے لیے گئے جس سے اس عرصے میں ملک کا کل قرضہ 6 ہزار 690 ارب روپے سے بڑھ کر 30 ہزار 840 ارب روپے تک پہنچ گیا۔
واضح رہے کہ لیے گئے قرضوں کے غلط استعمال کی وجہ سے پاکستان کو اب انکی واپسی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
کمیشن کے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی کے K-4 منصوبے کے ڈیزائن میں تبدیلی سے قومی خزانے کو 30 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
اسی طرح اسلام آباد اور لاہور کے سیف سٹی منصوبوں کے علاوہ موٹروے کے ایم تھری منصوبے کے باعث بھی قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا۔
ذرائع کے مطابق اقتصادی امور ڈویژن میں من پسند افسران کی تعیناتی کے ذریعے کئی ایسے منصوبوں کے لیے قرضے حاصل گئے جو کہ کار آمد ہی نہیں تھے۔
انکوائری کمیشن نے اپنی 100 صفحات کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اختیارات کے غلط استعمال کے ذریعے کئی منصوبوں میں کک بیکس حاصل کیے گئے۔
مزید برآں 400 مقامی اور بیرونی قرضوں کی تفصیلات حاصل کرنے کے علاوہ کمیشن نے 100 سے زائد مشکوک بنک ٹرانزیکشنز کا بھی پتا لگایا ہے۔
کمیشن کی جانب سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ایسٹ ریکوری یونٹ کے ذریعے حاصل کیے جانے والے قرضوں کی تفصیلات بھی حاصل کی گئی۔
اسی طرح کمیشن نے پارلیمان ممبران کی جانب سے جعلی سکیموں کے نام پر اربوں روپوں کے فنڈز حاصل کرنے کا بھی انکشاف کیا ہے۔
کمیشن نے بی آر ٹی منصوبے کی لاگت میں بھی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے جس کی لاگت 30 ارب روپے سے 75 ارب روپے ہو گئی ہے۔ اسی طرح نندی پور پاورپلانٹ کی لاگت بھی 84 ارب سے 500 ارب تک پہنچ گئی۔
انکوائری کمیشن کی جانب سے پٹرولیم اور قدرتی ذرائع کے 25، وزارت مواصلات کے 85، ریلویز، پورٹ اینڈ شپنگ کے 56، ہائیر ایجوکیشن کمیشن 285، محکمہ صحت کے 78، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے 203، وزارت داخلہ کے 186 اور کابینہ ڈویژن کے 113 منصوبوں کا جائزہ لیا گیا۔