ترقی پذیر دنیا کو کورونا کیساتھ غربت کا چیلنج بھی درپیش، قرضوں میں ریلیف درکار ہوگا: وزیر اعظم 

کروڑوں لوگوں کو بھوک سے بچانے کیلئے معیشت کو کھولنا ضروری، بہت مشکل اصلاحات کے بعد مالی خسارہ کم کیا، ویکسین آنے تک وائرس کے ساتھ رہنا ہوگا: عالمی اقتصادی فورم سے خطاب

616
وزیر اعظم عمران خان کا عالمی اقتصادی فورم میں کووڈ 19 ایکشن پلیٹ فارم سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب، فوٹو: پی آئی ڈی

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو کورونا کے ساتھ ساتھ غربت کا چیلنج بھی درپیش ہے، کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے متاثرہ ممالک کو مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی، صحت کے نظام کی بہتری اور دیگر اقدامات کے لئے مالیاتی انتظام کی ضرورت ہے، موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے قرضوں میں ریلیف درکار ہوگا، کروڑوں لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لئے معیشت کو کھولنا ضروری ہے۔

عالمی اقتصادی فورم میں کووڈ 19 ایکشن پلیٹ فارم سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی حالت یکسر مختلف ہے، پاکستان بنگلہ دیش اور بھارت جیسے ملکوں میں وائرس مغرب کی طرح تیزی سے نہیں پھیلا، مغرب اور ہم میں فرق یہ ہے کہ ہمیں کورونا کے ساتھ غربت کا چیلنج بھی درپیش ہے، ہم نے ایک طرف کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنا ہے اور اس کے لئے لاک ڈاؤن کرنا ہے اور سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے اثرات آبادی پر کم سے کم پڑیں اور غربت نہ پھیلے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دو کروڑ پچاس لاکھ ورکرز یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں یا خود روزگار سے وابستہ ہیں اور اگر لاک ڈاؤن کریں تو وہ بے روزگارہو جائیں گے۔ پاکستان میں 120 سے 150 ملین افراد ایسے ہیں جنہیں غربت کا سامنا ہے اور جب تک وہ کام نہیں کریں گے اپنے خاندانوں کا پیٹ نہیں پال سکتے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ان لوگوں کے لئے ہم نے نقد رقم کی فراہمی کا پروگرام شروع کیا ہے اور اب تک ایک کروڑ سے زائد خاندانوں میں امداد تقسیم کر چکے ہیں لیکن یہ مختصر مدت کا حل ہے۔ ہم نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے بچنے کے لئے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا لیکن اس کے بعد کاروبار اور صنعتی شعبے کو بھی کھولنا شروع کیا۔ کروڑوں لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لئے ہمیں اپنی معیشت کھولنا ضروری ہے۔ ہماری معیشت کا بڑا حصہ غیر رسمی ہے اور ہمیں کورونا وائرس کے کیسز بڑھنے اور اس کے پھیلاؤ کا بھی خدشہ ہے لیکن اگر اکانومی نہیں کھولیں گے تو بھوک کا خطرہ رہے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ مغربی ممالک کو بھی کورونا وائرس بڑھنے کے خطرے کا سامنا ہے۔ جب تک ویکسین نہیں آ جاتی بحیثیت ملک و قوم اس وائرس کے ساتھ ہم نے رہنا ہے۔ موجودہ صورتحال میں ہمیں کورونا وائرس سے بچاؤ اور معیشت بحال کرنے کے اقدامات میں توازن پیدا کرنا ہے۔ ہم نے ایک ملین رضا کار تیار کئے ہیں جو ہماری انتظامیہ کی مدد کریں گے کیونکہ ہماری انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر پہلے ہی بہت زیادہ بوجھ ہے۔ یہ رضاکار فورس لوگوں کے اجتماع کو روکنے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لئے حوصلہ افزائی کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال ہمارے ملک کے لئے بہت ہی مشکل ثابت ہو رہا ہے، ہم نے بہت مشکل اصلاحات کے بعد جاری کھاتوں اور مالیاتی خسارہ کم کیا۔ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ کورونا وائرس پوری دنیا کے لئے چیلنج رہے گا اور اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے مل کر ہمیں کام کرنا ہوگا۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے متاثرہ ممالک کو مشترکہ حکمت عملی تیار کرنا ہوگی اور اس کے لئے عالمی سطح پر ردعمل کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ مصر، نائجیریا اور ایتھوپیا کے سربراہان سے بات ہوئی ہے، دوسرے ترقی پذیر ممالک کو بھی پاکستان کی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔ برآمدی آرڈرز کم ہو گئے ہیں، ہمارا زیادہ انحصار ترسیلات زر پر ہے، ان میں بھی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ہمارے لوگ خلیجی ممالک میں زیادہ ہیں اور عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کے بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہم نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر بنایا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کورونا وائرس کے کیسز بڑھ رہے ہیں تو اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کو کیسے نمٹنا ہے اور معیشت کو کیسے آگے لے کر جانا ہے۔ جی 20 ممالک نے غریب ملکوں کے لئے قرضوں میں رعایت کی پالیسی کا اعلان کیا ہے، صحت کی سہولیات کی فراہمی اور دیگر اقدامات کے لئے ہمیں مالیاتی سہولت کی ضرورت ہے اور قرضوں میں ریلیف درکار ہوگا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here