آرڈرز منسوخ، سرمایہ پھنس گیا، انڈسٹری بحران کا شکار، صنعتکاروں کا حکومت سے گیس نرخوں میں کمی کا مطالبہ

پانچ زیرو ریٹیڈ سیکٹرز کوسوئی سدرن گیس کے دھمکی آمیز نوٹسز پرشدید احتجاج، وزیراعظم ایس ایس جی سی کو صنعتکاروں کو ہراساں کرنے سے روکیں، نوٹسز واپس لیے جائیں، رہنماء نکاٹی

829

کراچی : صنعتکاروں نے کورونا وائرس سے پیدا شدہ سنگین معاشی بحران کے باعث برآمدی صنعتوں بالخصوص ٹیکسٹائل انڈسٹری کو تباہی سے بچانے اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے پیش نظر گیس نرخوں میں کمی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صنعتکاروں نے پانچ زیرو ریٹیڈ سیکٹرز کو سوئی سدرن گیس کے دھمکی آمیز نوٹسز پرشدید احتجاج کرتے ہوئے وزیراعظم سے معاملے کا نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے سرپرست زبیر موتی والا نے وزیراعظم عمران خان کو ارسال کیے گئے ایس او ایس میں کہا کہ کورونا کی وبا کے باعث صنعتیں تقریباً دو ماہ بندش کا شکار رہی ہیں اور اب حکومت کے ایس او پیز کے مطابق مرحلہ وار پیدواری سرگرمیاں بحال ہورہی ہیں تاہم دنیا بھرمیں کورونا کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے امریکا سمیت یورپی ممالک کی جانب سے سرحدوں کو بند کرنے سے پاکستان کی برآمدی صنعتوں کو بھی بہت بڑا دھچکا لگا ہے کیونکہ غیر ملکی خریداروں نے مال کی ڈیلیوری لینے سے انکار کردیا تھا اور بڑی تعداد میں برآمدی آرڈرز بھی منسوخ کردیے گئے تھے جس سے ملکی برآمدات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف پاکستان میں کورونا کے باعث صنعتوں کی بندش اور دوسری طرف غیر ملکی خریداروں کا تیار مال کی ڈیلیوری نہ لینے سے برآمدکنندگان کا سرمایہ پھنس کر رہ گیا ہے اور انہیں شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ ملک کی موجودہ صورتحال اور سنگین معاشی بحران کے باعث حکومت کو برآمدی صنعتوں کو سپورٹ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

زبیر موتی والا نے بتایا کہ اوگرا نے گیس کی قیمت 60.7 ڈالر مقرر کی تھی جو فی لوقت 25 ڈالر پر آ گئی ہے لہٰذا گیس نرخوں میں 40 فیصد کمی کی جاسکتی ہے جبکہ آرایل این جی کی قیمت دو ڈالر سے بھی نیچے آگئی ہے جس کے فوائد تمام ملکوں نے اپنی صنعتوں تک پہنچائے ہیں لہٰذا گیس کے زائد نرخوں اور پیداواری لاگت میں مسلسل اضافے کے باعث ملکی صنعتیں کس طرح عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرپا ئیں گی۔

انہوں نے وزیراعظم کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ حکومت صنعتوں کو یوٹیلیز کی مد میں ریلیف فراہم کرکے خاطر خواہ مدد فراہم کرسکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی کم قیمتوں کو مدنظر رکھ کر گیس کے نرخوں میں بھی اسی تناسب سے کمی کرے تاکہ صنعتوں کی پیداواری لاگت میں کمی لائی جاسکے اور ملکی برآمدات کو فروغ حاصل ہو۔

سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) نے کرونا وبا سے پیدا ہونے والے سنگین معاشی بحران کے باوجودصنعتکاروں کو ہراساں کرنے کا نیا طریقہ ڈھونڈ لیا اور برآمدی صنعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایف بی آر سے سرٹیفکیٹ حاصل کرکے20جولائی 2020تک جمع کروانے کی ہدایت کی ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر مقررہ مدت میں سرٹیفیکیٹ جمع نہ کروایا گیا تو زیروریٹیڈ سیکٹر کی صنعتوں پر معمول کا ٹیرف لاگو کیا جائے گا۔

دوسری جانب نارتھ کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (نکاٹی) کے سرپرست اعلیٰ کیپٹن اے معیز خان اور صدر نسیم اختر نے صنعتکاروں کوسوئی سدرن گیس کی جانب سے ارسال کیے گئے دھمکی آمیز نوٹسز پر شدید احتجاج کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان سے اس کا نوٹس لینے کی درخواست کی ہے۔

ایک بیان میں نکاٹی کے رہنماؤں نے کہا کہ کورونا وبا کی وجہ سے پہلے ہی صنعتیں بندش کا شکاررہی ہیں جس سے برآمدکنندگان اور صنعتکاروں کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے لہٰذا موجودہ سنگین صورتحال میں ایس ایس جی سی نے معیشت کو مشکل کی اس گھڑی میں سنبھالا دینے کے بجائے صنعتکاروں کو ہراساں کرنا شروع کردیا ہے۔

نکاٹی کے رہنماؤں کاکہنا تھا کہ ایس ایس جی سی کی جانب سے پانچ  زیرو ریٹیڈ سیکٹرز (ٹیکسٹائل، قالین، کھیل اور جراحی کا سامان) کے رجسٹرڈ مینوفیکچرر اور برآمدکنندگان کوجاری کیے گئے نوٹسز میں کہا گیا ہے کہ گیس کے کم نرخوں کی سہولت سے مستفید ہونے اور زیرو ریٹنگ کی حیثیت کی توثیق کے لیے کمشنر اِن لینڈ ریونیو سے سرٹیفکیٹ حاصل کر کے ہرحال میں 20 جولائی 2020 تک جمع کروائیں بصورت دیگر پانچ زیرو ریٹیڈ سیکٹرز کو رعایتی نرخوں پر گیس فراہمی بند کردی جائے گی اور معمول کے مطابق ٹیرف لاگو کیا جائے گا۔

صنعتکار رہنمائوں نے کہا کہ وزیراعظم کورونا زدہ معیشت میں برآمدکنندگان باالخصوص پانچ زیرو ریٹیڈ سیکٹرز کو سہولیات فراہم کے اقدامات کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف ایس ایس جی سی کے پاس پہلے ہی پانچ زیرو ریٹیڈ سیکٹرز کے رجسٹرڈ مینوفیکچرر اور برآمدکنندگان کی تمام معلومات موجود ہے پھر بھی ایف بی آر کے سرٹیفکیٹ کا تقاضا کرنا سجھ سے بالاتر ہے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایس ایس جی سی کرونا لاک ڈاؤن سے متاثرہ صنعتوں کی پیداواری سرگرمیاں بحال کرنے میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here