تمباکو انڈسٹری کی پالیسی سازی میں مداخلت، عالمی ادارے کا حکومت سے کمپنیوں کیساتھ تمام معاہدے ختم کرنے کا مطالبہ

تمباکو انڈسٹری میں بڑے پیمانے پر سابق سرکاری اہلکاروں کی شمولیت سے مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہوگیا، انڈسٹری کی پالیسی سازی میں مداخلت کے انڈکس میں پاکستان 66 ممالک کی فہرست میں 33 ویں نمبر پر

785

اسلام آباد: گلوبل ٹوبیکو انڈسٹری انٹر فیرنس انڈکس (جی ٹی آئی آئی) نے حکومت پاکستان سے تمباکو کمپنیوں کے ساتھ تمام معاہدے اور مفاہمت کی یادداشتیں ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔

ادارے نے پاکستان میں تمباکو سے متعلق تمام کارپوریٹ سوشل ریسپانسی بلٹی کے پروگراموں پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

گلوبل انڈکس کے مطابق بڑی تعداد میں سرکاری اہلکاروں کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد تمباکو کمپنیوں کا حصہ بننے کی وجہ سے مفادات کا ٹکراؤ ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

تمباکو کے پودے سے کورونا وائرس کی ویکسین بنانے کے تجربات جاری

حکومت سگریٹ اور کولڈ ڈرنک پر ٹیکس لگانے میں ناکام

ٹیلی میڈیسن: کورونا وائرس اور لاک ڈائون شعبہ صحت کو کیسے تبدیل کر رہا ہے؟

تمباکو انڈسٹری کی جانب سے ملکی پالیسی سازی میں مداخلت کے حوالے سے 66 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 33واں نمبر ہے۔

ادارے کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ پاکستان میں تمباکو یا کسی دوسری صنعت کے اپنے مفادات کے لیے سیاسی جماعتوں اور مہمات کا حصہ بننے اور سیاسی نمائندوں سے تعلق بنانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

اس کے نقصان کی ایک بڑی مثال یہ ہے کہ تمباکو انڈسٹری نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے سگریٹ کے پیکٹ پر لگائی جانے والی وارننگ کے سائز کو چھوٹا کروا لیا ہے۔

ادارے کا مزید کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ تمباکو کی صنعت کو پیدوار، تیاری، مارکیٹ شئیر، مارکیٹنگ اخراجات، ریونیو اور لابنگ سرگرمیوں کی معلومات فراہم کرنے کا پابند بنائے، مزید برآں بیوروکریسی کے تمباکو انڈسٹری سے میل جول کے حوالے سے بھی ضابطہ کار بنایا جائے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here