‘لاک ڈاؤن نرم نہ کرتے تو مزید 71 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے’

تمام صوبائی حکومتوں کی آمادگی کے بعد ہی لاک ڈاؤن نرم کرنے کا فیصلہ کیا، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا قومی اسمبلی میں کورونا وباء کے حوالے سے پالیسی بیان

501

اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ تمام صوبائی حکومتوں کی آمادگی کے بعد ہی لاک ڈاؤن نرم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اگر لاک ڈاؤن نرم کرنے کا فیصلہ نہ کرتے تو مزید 71 ملین لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے، کورونا کی وباء ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم کسی کی پگڑی نہ اچھالیں اور صرف اور صرف پاکستان کارڈ کھیلیں کیونکہ اس صورتحال میں صوبائی کارڈز کھیلنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سوموار کو قومی اسمبلی میں کورونا وباء کے حوالے سے پالیسی بیان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ کو آگے بڑھتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا حکومت نے اس کا احترام کرتے ہوئے اجلاس ایک نکاتی ایجنڈے پر طلب کیا تاکہ ارکان اپنی رائے دے سکیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ اس وقت تک چیلنج رہے گا جب تک اس کا علاج دریافت نہیں ہوگا۔ اس کی ویکسین آنے میں اٹھارہ ماہ سے دو سال تک لگے سکتے ہیں۔ ہمیں اس عرصہ کے لئے معمول کا کاروبار چلانے کے لئے اصول وضع کرنے ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں اس وقت 40 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں اور 2 لاکھ سے زائد اموات واقع ہو چکی ہیں۔ اس وبا کے آغاز پر دنیا کا کوئی ملک بھی اس کے لئے تیار نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس پہلے ہی وسائل کم تھے، امریکہ جیسے مستحکم اور خوشحال ملک میں 80 ہزار، برطانیہ میں 31 ہزار، اٹلی 30 ہزار، فرانس میں 26 ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔ پاکستان ترقی پذیر اور محمود وسائل والا ملک ہے۔ ہمارا صحت کا نظام بھی بہتر نہیں ہے۔ پاکستان میں 29 ہزار مثبت کیسز ہیں۔ یہاں 26 فروری کو کراچی میں کرونا کا پہلا کیس سامنے آیا۔

انہوں نے کہا کہ 26 فروری کو ہماری ٹیسٹنگ صلاحیت 100 ٹیسٹ روزانہ تھی اب ہماری ٹیسٹنگ کی صلاحیت روزانہ 20 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ پہلے آٹھ لیبارٹریاں تھیں اب 70 لیبارٹریاں ہیں۔ پاکستان میں 2 لاکھ 17 ہزار سے زائد لوگوں کے ٹیسٹ ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آبادی کے لحاظ سے یہ صلاحیت ابھی کم ہے۔ اس میں ہم اضافہ کریں گے۔ اگر پاکستان کا جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو ہماری ٹیسٹنگ کی صلاحیت ان کے مقابلہ میں اب بھی زیادہ ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبوں کے پاس چلا گیا ہے۔ ان ترامیم کے بعد صوبہ سندھ میں مسلسل حکومت پیپلز پارٹی کی ہے اور دس سال پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو حکومت کرنے کا موقع ملا۔ جب یہ ذمہ داری صوبوں کو سونپی گئی تو یہ دونوں جماعتیں ان صوبوں میں برسراقتدار تھیں۔ ہمیں حقائق اور اعداد و شمار کے مطابق بات کرنی چاہیے۔ پاکستان میں انفیکشن کی شرح 2.17 فیصد ہے جبکہ عالمی یہ 6.8 فیصد سے زائد ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس حوالے سے اجتماعی دانش اور اجتماعی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کئے جائیں گے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی زیر قیادت دو فورم قائم کئے گئے۔ جب یہ وبا سامنے آئی فی الفور نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا جس میں چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کے وزراء اعلیٰ کو بھی طلب کیا گیا اور این سی سی قائم کی گئی۔ این سی سی کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے این سی او سی قائم کی گئی۔ اس کا روزانہ صبح نو سے 11 بجے اجلاس ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کورونا وبا کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے ایک متفقہ قومی حکمت عملی تشکیل دینی ہے۔ وفاق اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لئے کوشاں ہے۔ ہم صوبوں کو لچک دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ وفاق کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے نوک پلک درست کر سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بین الصوبائی ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ہم نے مختلف صوبوں کی مختلف آراء کو مدنظر رکھ کر فیصلے کئے۔ کورونا ایک عالمی وباء ہے۔ اس حوالے سے قومی ایمرجنسی لاگو ہے۔ اس پر کسی بھی قسم کا ردعمل بھی علاقائی سوچ پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔ جب تک سندھ، پنجاب، بلوچستان، کے پی کے، گلگت بلتستان اور کشمیر محفوظ نہیں ہوگا پاکستان محفوظ نہیں ہو سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں آر ایس ایس کی زیر نگرانی مودی حکومت نے بھارت میں کورونا کو مذہبی رنگ دے کر مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ ہم اس سوچ کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں یہ بھی کہا گیا کہ ایران کے زائرین سے یہ وباء پھیلی، تافتان میں زائرین کے لئے سنٹر قائم کئے گئے۔ ایران جو عالمی پابندیوں کا شکار ملک ہے۔ انہوں نے پاکستانیوں کو فوری طور پر وہاں سے روانہ کیا۔ بلوچستان حکومت نے اس حوالے سے بہترین کردار ادا کیا۔ پھر کہا گیا کہ کورونا تبلیغی کی وجہ سے پھیلا۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے صوبوں کے درمیان کسی قسم کا امتیازی برتاؤ نہیں کیا۔ سندھ کے ساتھ ناانصافی کا تاثر درست نہیں ہے۔ احساس کفالت پروگرام پورے پاکستان پر لاگو ہے۔ سندھ میں 26 ارب روپے 23 لاکھ خاندانوں کو پہنچ چکے ہیں۔ ہم نے اپنے دستیاب وسائل کا رخ اس طرف کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس وقت این ڈی ایم اے کی طرف سے 154534 حفاظتی کٹس سندھ کو فراہم کی ہیں۔ اسی طرح فیس ماسک بھی پنجاب، سندھ اور دیگر صوبوں میں آبادی کے تناسب سے تقسیم کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ بیروزگار لوگوں کے لئے 75 ارب کی رقم مختص کی گئی ہے۔ جو بھی اس معیار پر پورا اترے گا اسے رقم دی جائے گی۔ بجلی اور گیس کے بلوں میں 7 لاکھ 70 ہزار سے زائد صارفین کو ریلیف دیا گیا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے ریلیف پیکج اس کے علاوہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ ایوان وسائل کو مدنظر رکھے تو ہمارے سامنے این ایف سی ایوارڈ کا فارمولہ موجود ہے۔ صوبے سرپلس ہیں اور مرکز کے پاس وسائل کم ہیں۔ وفاقی سوچ صوبائیت میں مبتلا نہیں ہونی چاہیے۔ پیپلز پارٹی سے وفاق کی خوشبو آیا کرتی تھی۔ اب صوبائی تعصب کی بو آتی ہے۔ اس پر ہمیں نظرثانی کرنا ہوگی۔ کورونا وباء ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہمیں پاکستان کارڈ کھیلنا ہے۔ اس میں صوبائی کارڈز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں اس وقت 1 لاکھ دس ہزار پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جو وطن آنے کے لئے بے قرار ہیں۔ ہم نے بیس ہزار پاکستانیوں کو وطن واپس پہنچایا ہے۔ باقیوں کو بھی وطن لانا چاہتے ہیں مگر وفاق اس وقت تک اس صلاحیت میں اضافہ نہیں کر سکتا جب تک تمام صوبے قرنطینہ کی سہولیات میں اضافہ نہیں کریں گے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here