کورونا کے حوالے سے بڑی پیشرفت، ڈاؤ نیورسٹی کو امیونوگلوبیولن کی تیاری کیلیے پلازمہ جمع کرنے کی اجازت 

اس طریقہ علاج میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون سے اینٹی باڈیز کو علیحدہ کرنے کے بعد شفاف کرکے امیونو گلوبیولن تیار کی جاتی ہے، یہ طریقہ پلازما تھراپی سے بالکل ہی مختلف ہے

686

کراچی: سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی نے ڈاؤنیورسٹی کو امیونوگلوبیولن (آئی وی آئی جی یا وریدی انجیکشن کے ذریعے دی جانے والی دوا) کی تیاری کیلیے پلازمہ جمع کرنے کی اجازت دے دی جبکہ اس سے پہلے گذشتہ مہینے کے وسط میں نیشنل بائیو ایتھکس کمیٹی نے کلینکل ٹرائل کی منظوری بھی دی تھی۔

یونی ورسٹی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق یونیورسٹی کے ماہرین نے اپریل کے اوائل میں کورونا کے علاج کیلیے انٹرا وینس امیونو گلوبیولن تیار کرلی تھی۔

اس طریقہ علاج میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون میں نمو پانے والے اینٹی باڈیز کو علیحدہ کرنے کے بعد شفاف کرکے امیونو گلوبیولن تیار کی جاتی ہے، یہ طریقہ علاج پلازما تھراپی سے بالکل ہی مختلف ہے تاہم یہ امیونو گلوبیولن پلازما سے ہی کشید کی جاتی ہے۔

ریسرچ ٹیم کے سربراہ پروفیسر شوکت علی کے مطابق امیونو گلوبیولن کی تیاری کے لیے بڑی مقدار میں پلازما جمع کرنے کی ضرورت پڑے گی اس کے لیے سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی سے پلازما جمع کرنے کی اجازت طلب کی گئی تھی، جو مل گئی ہے جبکہ ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی بھی گذشتہ مہینے کے آخر میں اس (وریدی انجیکشن کے ذریعے دی جانے والی)دواکیکلینیکل ٹرائل کی منظوری دے چکی ہے۔

واضح رہے کہ یہ طریقہ علاج امریکی ادارے ایف ڈی اے سے منظورشد ہ محفوظ لورسک اورکورونا کے خلاف انتہائی موثر ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ٹیلی میڈیسن: کورونا وائرس اور لاک ڈائون شعبہ صحت کو کیسے تبدیل کر رہا ہے؟

کورونا کی ویکسین بنانے کے لیے عالمی رہنماؤں کا 7.4 ملین یورو دینے کا اعلان

جاپانی کمپنی کی تیار کردہ دوا کورونا وائرس کے علاج میں معاون ہونے کے ’انکشاف‘ پر شئیرز میں 15 فیصد اضافہ

ڈاؤ نیورسٹی کی ٹیم ابتدائی طور پرمارچ 2020ء میں خون کے نمونے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی بعد ازاں اس کے پلازما سے اینٹی باڈیزکو کیمیائی طور پر الگ تھلگ کرنے، صاف شفاف کرنے اور بعد میں الٹرا فلٹر تکنیک کے ذریعے ان اینٹی باڈیز کو مرتکز کرنے میں کامیاب ہوگئی اس طریقے میں اینٹی باڈیز سے باقی ناپسندیدہ مواد جن میں بعض وائرس اور بیکٹیریا بھی شامل ہیں، انہیں ایک طرف کرکے حتمی پروڈکٹ یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کرلی جاتی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پہلی مرتبہ پاکستان میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون سے یہ امیونوگلوبیولن تیار کی گئی ہے۔

پروفیسر شوکت علی کے مطابق یہ طریقہ غیرمتحرک مامونیت (پےسو امیونائزیشن) کی ہی ایک قسم ہے مگر اس میں مکمل پلازمہ استعمال کرنے کے بجائے اسے شفاف کرکے صرف اینٹی باڈیز ہی لیے جاتے ہیں اس محفوظ اورموثر طریقہ کار کو اس سے پہلے بھی بڑے پیمانے پر دنیا میں پھیلنے والے وبائی امراض سارس، مرس اور ابیولا میں موثر طورپر استعمال کیا جا چکا ہے جبکہ تشنج، انفلوئنزا اور ریبیز کی شفاف اینٹی باڈیز دنیا میں تجارتی سطح پر فروخت کیلیے بھی دستیاب ہوتے ہیں۔

 ریسرچ ٹیم نے کوووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں کی جانب سے کم مقدار میں عطیہ کیے گئے خون کو شفاف کر کے اینٹی باڈیز علیحدہ کیے جو کورونا کو غیرموثر کرچکے تھے ان کی لیبارٹری ٹیسٹنگ اور حیوانوں پر اس کا سیفٹی ٹرائل کرکے حاصل ہونے والی ہائپر امیونوگلوبیولن کو کامیابی کے ساتھ تجرباتی بنیادوں پر انجیکشن کی شیشیوں (وائلز)میں محفوظ کرلیا تھا تاہم بڑے پیمانے پر انجیکشن تیار کرنے کیلیے بڑی مقدار میں پلازما کے عطیات کی ضرورت ہے۔

ڈائو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کی جانب سے پلازما جمع کرنے کی اجازت ملنے پر ریسرچ ٹیم کو مبارکباددی ہے اور انہیں ہدایت کی ہے کہ جس محنت دیانت اور خلوص کے ساتھ یہ امیونوگلوبیولن تیار کی گئی ہے اب انسانیت کی خدمت کے جذبے کے عمل کا آغاز کیاجائے، یقین کامل ہے کہ آپ کی محنت رنگ لائے گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here