کورونا بحران: چین سے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے قرضوں میں رعایت کا مطالبہ زور پکڑنے لگا

چین کا قرضے معاف کرنے سے انکار، دوست ممالک کے لیے شرح سود کم کرنے یا ختم کرنے سمیت واجب الادا قرض کی رقم کم کرنے پر غور کا عندیہ

878

بیجنگ: کورونا وائرس نے پوری دنیا کے معاشی نظام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے، وائرس اور لاک ڈائون کے باعث چین کا سب سے بڑا ’ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘ بھی شدید متاثر ہوا ہے اور جن ممالک میں ‘بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو’ کے تحت مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے انہوں نے معاشی بدحالی کی وجہ سے چین سے قرضوں میں رعایت لینے کیلئے درخواستیں دینا شروع کردی ہیں۔ 

اس حوالے سے فنانشل ٹائمز کو بتایا گیا کہ چین متعدد ممالک کو قرضوں پر سود معطل کرنے کے  بارے میں غور کر رہا ہے تاہم یہ قرضے مکمل معاف کیے جانے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔

ایکسپورٹ امپورٹ  بنک آف چائنہ کے ساتھ مل کر بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے لیے اربوں ڈالر کے قرضے دینے والے چائنہ ڈیویلپمنٹ بنک کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ’’بہت سے ممالک قرضوں کی شرائط پر دوبارہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں مگر نئی ڈیل میں وقت لگتا ہے اور فی الحال ہم ملک سے باہر بھی نہیں جا سکتے‘‘۔

انکا کہنا تھا کہ ان کے 20 فیصد منصوبوں کا مسائل کا شکار ہوجانا کسی قدر قابل برداشت ہے مگر ‘بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو’ کے آدھے منصوبوں کا مسائل کا شکار ہوجانا نا قابل قبول ہے، ہم قرضوں میں توسیع اور سود میں ریلیف دینے پر غور کرسکتے ہیں لیکن عام طور پر ہمارے قرضے مارکیٹ اصولوں کے مطابق جاری کیے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

کورونا، ٹرمپ کی چین پر چڑھائی عالمی اسٹاک مارکیٹوں کو لے ڈوبی

کورونا، لاک ڈائون، معاشی گراوٹ کے باوجود چین کے بڑے بنکوں کی مالی کارکردگی بہتر، منافعے میں اضافہ

کورونا، ورلڈ بنک نے پاکستان کے لیے 247.5 ملین ڈالر کا پروگرام تشکیل دے دیا

’ بیلٹ اینڈ روڈ ‘ منصوبہ 2013ء میں چین کے صدر ژی جن پنگ کی جانب سے شروع کیا گیا تھا اور اس کا مقصد دنیا میں چین کا معاشی اثر و رسوخ بڑھانا تھا، منصوبے میں شامل 138 ممالک معاشی لحاظ سے ترقی پذیر ہیں۔

اگرچہ چین نے اس منصوبے کے بارے میں بہت کم مالیاتی تفصیلات جاری کی ہیں مگر واشنگٹن میں قائم RWR Advisory  نامی کنسلٹنسی کے مطابق  2013ء سے اب تک چینی مالیاتی ادارے اس منصوبے کے لیے 461 ارب ڈالر کے قرضے جاری کرچکے ہیں اور یہ مالی حجم اس منصوبے کو دنیا کا سب بڑا ترقیاتی منصبوبہ بناتا ہے۔

جان ہاپکنز سکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے مطابق قرض رعایت کی درخواست دینے والے زیادہ تر ممالک کا تعلق افریقہ سے ہے جہاں چینی حکومت، بنکوں اور کنٹریکٹرز کی جانب سے 2000ء سے 2017ء تک 143 ارب ڈالر کے قرضے جاری کیے گئے۔

گزشتہ ماہ چین نے جی 20 ممالک کیساتھ غریب ممالک کی قرض ادائیگیاں سال کے آخر تک منجمد کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے مگر ذرائع یہ کہتے ہیں کہ ابھی اس بات کا تعین کیا جا رہا ہے کہ کس ملک میں کونسے قرض کی ادائیگی مؤخر کی جائے اور اس حوالے سے چین کیساتھ بھی دو طرفہ بنیادوں پر بات چیت چل رہی ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر چینی حکومت کے ایک اہلکار نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ چین کی ترجیح قرضوں پر سود کو معطل کرنا ہوگی مگر ایسے قرض دار جن کی ساکھ اچھی ہے ان کے قرضے ری شیڈول بھی کیے جا سکتے ہیں تاہم قرضوں کی معافی ہر صورت آخری آپشن ہوگا۔

ایک اور اہلکار کے مطابق چین کے مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضوں کی معافی تو نہیں ہوگی کیونکہ ان پر مالیاتی اہداف پورے کرنے کا بوجھ ہے، البتہ چائنہ ڈیویلپمنٹ بنک اور ایگزم بنک آف چائنہ ان ممالک کو قرضوں میں رعایت دے سکتے ہیں جن کے ساتھ چین کے دوستانہ تعلقات ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہم شرح سود میں کمی یا اسے ختم کرنے کے علاوہ ادا کیے جانے والے قرض کی رقم میں بھی کمی کرسکتے ہیں جس کا مقصد اپنے قرض داروں کو مشکلات میں جانے سے بچانا ہے اور ایسا کرنا خود ہمارے مفاد میں ہے۔’

ادھر فچ سلوشنز کا ایک رپورٹ میں کہنا ہے کہ کورونا کے باعث بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ آجائے گی کیونکہ عالمی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے اور اس منصوبے میں شامل ممالک نئے منصوبوں کے لیے نئے قرضے نہیں لیں گے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here