کورونا وائرس ہر چیز کو متاثر کر رہا ہے اور یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ توانائی کے شعبے پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ پاکستان جیسے ممالک جو توانائی کی درآمد پر انحصار کرتے ہیں ان کے لیے یہ چیز بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
توانائی کے حوالے سے ہنگامی حالت کا اعلان کرنے سے قبل پاکستان کو اپنےآپشنز پر غور کرنا ہوگا اور ان میں سے بہترین آپشن کا انتخاب کرنا ہوگا مگر اس میں مسئلہ یہ ہے کہ جلد بازی میں فیصلہ لینے کے بجائے ماضی کا سارا ڈیٹا کھنگالنا ہوگا اور یہ جاننا ہوگا کہ مسئلہ کہاں پیدا ہوتا ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم بوکھلا کر ایل این جی کے لیے ادھر ادھر دیکھیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ماہرین کی رہنمائی سے مقصد حاصل کیا جائے۔
ایک ایسے وقت میں جب عالمی سطح پر ایل این جی کی سپلائی مسائل کا شکار ہے اور پاکستان کی مقامی گیس کی پیداوار تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے تو توانائی کا کونسا بحران ہمارے سر پر کھڑا ہے؟ آئیے جانتے ہیں
ہم کہاں کھڑے ہیں؟
یہ جاننے کے لیے حقائق کا سہارا لینا ہی دانشمندی ہوگی توآئیے سب سے پہلے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی ( اوگرا ) کی 2018ء کی ’’سٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس رپورٹ میں اوگرا نے بتایا تھا کہ مقامی گیس کی پیداوار 2018ء سے 2028ء تک یومیہ 3.3 کیوبک فٹ سے کم ہوکر 1.6 کیوبک فٹ سے بھی کم رہ جائے گی جبکہ تب تک ڈیمانڈ 8.3 کیوبک فٹ یومیہ ہونے کی وجہ سے شارٹ فال 6.6 کیوبک فٹ یومیہ ہوجائے گا۔
ملک میں توانائی کے شعبے میں گیس کا حصہ 48 فیصد ہے جبکہ 2018ء میں ایل این جی کا مجموعی گیس سپلائی میں حصہ 23 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔
شعبہ توانائی 2018ء میں گیس کا سب سے بڑا صارف تھا جس نے اس برس 37 فیصد گیس جبکہ گھریلو سیکٹر نے 20 فیصد، کھاد کے شعبے نے 17 فیصد، ٹرانسپورٹ کے شعبے نے 5 فیصد، کیپٹو پاور(صنعتوں وغیرہ کیلئے مختص پاور پلانٹس) نے 10 فیصد، صنعتی سیکٹر نے 9 فیصد اور کمرشل سیکٹر نے صرف 2 فیصد گیس استعمال کی۔

مقامی طور پر گیس کی پیداوار کم ہونے کی وجہ سے ایل این جی استعمال کرنے کا رجحان بڑھا ہے کیونکہ یہ درآمد کیے جانے کے باوجود سستی ہے، دی نیوز میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق فرنس آئل سے ایل این جی کی طرف منتقلی کے بعد قومی خزانے کو 5 ارب ڈالر کی بچت ہوئی۔
2015ء تک 19 میگا ٹن سے زائد ایل این جی درآمد کی گئی جس سے امپورٹ بل میں جی ڈی پی کے دو فیصد کے برابر بچت ہوئی۔ لیکن سینیٹ کی سب کمیٹی برائے توانائی میں ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے ایل این جی کے معاہدوں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن اب وہی معاہدے ہی بار آور ثابت ہو رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتیں کنڑول کرنے کی وجہ سے گیس کی مقامی پیداوار میں سرمایہ کاری کچھ زیادہ پر کشش نہیں رہی۔
مزید برآں پاکستان میں گیس کی قیمتیں بھی کبھی مستحکم نہیں رہیں۔ 1950ء اور1960ء کی دہائی میں قیمتوں کا تعین لاگت کی بناء پر ہوتا تھا مگر 1985ء کے بعد سے اسے تیل کی قیمت کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔
تاہم 2012ء کی پٹرولیم ایسکپلوریشن اینڈ پروڈکشن پالیسی کے مطابق حکومت کی جانب سے زون تھری میں گیس کی قیمت چھ ڈالر، زون ٹو میں 6.30 ڈالر اور زون وَن میں 6.60 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کردی گئی۔
یہ پالیسی آف شور زونز کے لیے بھی گیس کی قیمتوں کا جامع میکانزم پیش کرتی ہے جس کے تحت زون زیرو میں گیس کی قیمت شیلو کے لیے 7 ڈالر، ڈیپ کے لیے 8 ڈالر اور الٹرا ڈیپ کے لیے کچھ دوسری مراعات کے ساتھ 9 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔
تاہم ملک کی 55 گیس فیلڈز کے لیے گیس کے ریٹ ان کی دریافت کے وقت کی پالیسی کے مطابق ہیں لہٰذا ماڑی گیس فیلڈ جو کہ 1950 میں قائم ہوئی تھی حکومت کو سب سے سستی گیس فراہم کرتی ہے، یعنی 1.40 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو جو کہ 2012ء کی پالیسی کے مطابق 5.70 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو بنتی ہے۔
جولائی 2018ء میں اوگر نے گیس کی قیمتوں میں 30 فیصد اضافہ کردیا تھا، پاکستان میں گیس کی ویل ہیڈ قیمت (ہول سیل یا پروڈکشن پوائنٹ کی قیمت) اس وقت 3.50 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے جو کہ بھارت سے 10 فیصد زائد جبکہ بنگلہ دیش کی نسبت دگنی ہے۔
گیس کی ویل ہیڈ قیمت کا انحصار حکومت کی منظوری پر ہوتا ہے اور حکومت اس کے تعین میں مختلف عناصر کو شامل کرتی ہے تاکہ صنعتوں اور گھریلو صارفین کو سستا ایندھن فراہم کیا جا سکے۔
بنگلہ دیش کا گیس ٹیرف دنیا میں سب سے کم ہے، وہاں صنعتوں کو گیس 3.66 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے فراہم کی جاتی ہے جبکہ امریکہ میں یہ ٹیرف 4.01 فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔ بنگلہ دیش اپنے شیل ذرائع کی وجہ سے دنیا میں سستی ترین گیس پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
پاکستان کا صنعتی ٹیرف 7 ڈالر فی ایم ایم بی ٹو یو ہے جو کہ یورپ اور ایشیا سے تھوڑا ہی کم ہے تاہم برآمدات کے حوالے سے اہم سمجھی جانے والی صنعتوں کےلیے یہ ٹیرف 5.24 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو رکھا گیا ہے۔
بھارت اور بنگلہ دیش میں گھریلو سیکٹر کے لیے ٹیرف بالترتیب 10 ڈالر اور 4.25 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے مگر پاکستان میں گھریلو صارفین کیلئے 10 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو سب سے بڑی سلیب کا ریٹ ہے۔
رواں برس جنوری میں اوگرا نے گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمت 191 فیصد، کھاد کے شعبے کے لیے 135 فیصد، اور تندوروں، زیرو ریٹڈ ایکسپورٹ انڈسٹری، بجلی گھروں، سی این جی، سیمنٹ سیکٹر اور کیپٹو پاور پلانٹس کے لیے 31 فیصد مہنگی کردی تھی۔
تاہم تمام سیکٹرز کی جانب سے منفی ردعمل آنے پر حکومت نے یہ اضافہ چھ ماہ کے لیے مؤخر کردیا، قیمتیں بڑھنے کی صورت میں جو بہرحال بڑھیں گی ہی متبادل تو ایل این جی ہی ہوگی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اگر تیل کی قیمت 50 سے 55 ڈالر فی بیرل ہو تب بھی ایل این جی ملکی گیس کی نسبت سستی ہی پڑتی ہے۔
کچھ لوگ دوسرے ممالک کی قطر سے ایل این جی کی خریداری کے حوالے سے غلط معلوما ت پھیلا رہے ہیں پاکستان نے ایل این جی کی خریداری مسابقتی نرخوں پر کی ہے، ہوسکتا ہے بھارت نے ایل این جی کی کچھ مقدار ہم سے بہتر نرخوں پر حاصل کی ہو مگر ہمارے طویل مدتی معاہدوں کے نرخ بھی برے نہیں ہیں اور آنے والے مہینوں میں فائدہ مند ہی ہونگے۔
ایل این جی کی قیمتوں کا براہ راست دارمدار تیل کے نرخوں پر ہوتا ہے، ایسے میں پاکستان ایل این جی کے جو آٹھ کارگو درآمد کر رہا ہے وہ اوسطً 3.2 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو میں ملیں گے یہ نرخ کم ہوکر 3.04 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہوجائیں گے بشرطیکہ پاکستان مستقبل کی سپاٹ پرائس 3.3 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر مزید چار کارگو درآمد کرتا ہے۔
کورونا وائرس کا اثر
اگرچہ سپاٹ پرائسز میں کچھ اضافہ ہوا ہے مگر یہ اب بھی سال کی کم ترین سطح پر ہیں، چین ایل این جی کا دوسرا بڑا درآمد کنندہ ہے مگر کورونا وائرس کی وجہ سے اس کی ایل این جی امپورٹ میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے اس کی قیمتوں کو زبردست دھچکا لگا ہے۔
Giles Farrer جو کہ ممتاز انرجی کنسلٹنگ فرم Wood Mackenzie کے ریسرچ ڈائریکٹر ہیں کا کہنا تھا کہ قیمتوں کی فارورڈ کرو (Forward Curve) ایل این جی کی شٹ ان (Shut-in) ظاہر کر رہی ہے اگرچہ ہو سکتا ہےکہ ایسا امریکہ کی جانب سے نہ ہو۔
انکا کہنا تھا کہ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں گیس کی قیمتیں تیل کے نرخوں کیساتھ منسلک نہیں ہوتیں لہذا امریکا میں گیس کی قیمتیں باقی دنیا کے مقابلے میں زیادہ کم نہیں ہونگی۔
