45 دن کے لاک ڈاؤن سے ریٹیل سیکٹر کو 900 ارب روپے نقصان، لاکھوں نوکریاں ختم ہونے کا خدشہ

'ریٹیل سیکٹر میں ملک کی مجموعی افرادی قوت کا 18 فیصد برسر روزگار، موجودہ صورت حال لمبا عرصہ برقرار رہی تو لاکھوں تربیت یافتہ ملازمین نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے'

1085

لاہور: کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کیلئے حکومت کی جانب لاک ڈائون کے نفاذ ہر کاروباری شعبہ شدید متاثر ہوا ہے، ڈیڑھ ماہ کے لاک ڈائون سے پاکستان کے ریٹیل اور ہول سیل سیکٹر کو 900 ارب روپے نقصان اور لاکھوں نوکریاں ختم ہونے کا خدشہ ہے۔

چین سٹور ایسوسی ایشن آف پاکستان (سی اے پی) نے تین ہفتے قبل وزیراعظم عمران خان کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے حکومت سے مالی امداد دینے کا مطالبہ کیا تھا تاہم ایسوسی ایشن نے اب شکایت کی ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے مذکورہ تجاویز پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

چئیرمین سی اے پی رانا طارق نے پرافٹ اردو کو بتایا کہ ریٹیلرز کو لاک ڈاؤن کے دوران 900 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے جبکہ مذکورہ شعبہ جی ڈی پی میں 16 فیصد یعنی سالانہ سات کھرب روپے شامل کرتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ریٹیل سیکٹر میں براہِ راست روزگار ملک کی مجموعی افرادی قوت کا 18 فیصد ہے جس کا مطلب ہے کہ 90 لاکھ افراد اور ان کے خاندان ریٹیل اور ہول سیل سیکٹر سے روزی کماتے ہیں اور اگر ایک خاندان پانچ افراد پر بھی مشتمل ہو تو یہ سیکٹر 45 ملین افراد کا پیٹ بھرتا ہے۔

سی اے پی کے رکن اور حب لیدر کے ایم ڈی اسفندیار فرخ نے کہا کہ “ہم یوٹیلیٹی بلز، کرایوں اور بھاری ٹیکسوں کے باوجود بمشکل اپنے ملازمین کی نوکریاں برقرار رکھ پا رہے ہیں، گزشتہ 19 سالوں سے ہماری سب سے زیادہ سرمایہ کاری اُان لوگوں پر ہوئی ہے جن میں اکثر اب اپنی مہارت کے بل بوتے پر اپنے خاندانوں کیلئے روزگار کا ذریعہ بن چکے ہیں۔”

ان کا کہنا تھا کہ یہ بڑا المیہ ہے کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ریٹیل ملازمین کو ایک ماہ گزرنے کے باوجود کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا گیا بلکہ جب حکومت نے برآمدکنندگان اور دیگر شعبوں کیلئے اربوں کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا تو خود ریٹیلرز کو بے حد مایوسی ہوئی کیونکہ جن کیلئے ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا وہ پہلے ہی مالی لحاظ سے مضبوط تھے۔

یہ بھی پڑھیے:

کورونا کی معاشی تباہ کاری: ریٹیل سیکٹر نے حکومت سے امدادی پیکج مانگ لیا

کورونا، بڑے شاپنگ مالز دکانداروں کو کرایوں میں چھوٹ دینے پر رضامند

تاریخی لاک ڈائون کے باعث عالمی معیشت کی شرح نمو میں 3 فیصد گراوٹ متوقع

فرخ نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی ری فنانس سکیم صرف کاغذ کی حد تک ہی اچھی لگتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ نجی بینک چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو قرضوں دینے پر آمادہ نہیں۔ لیکن اب بھی حکومت سے ہی امید ہے کہ وہ اقدامات اٹھائے گی اور جنہیں اصل میں ریلیف کی ضرورت ہے ان کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور کرے گی۔

ثنا سفیناز کے ڈائریکٹر الطاف ہاشوانی نے بتایا کہ “ریٹیل سیکٹر کو بھی برآمدی شعبے یا دیگر شعبہ جات کی طرح حکومتی امداد کی ضرورت ہے، بدقسمتی سے سٹیٹ بینک کی ریلیف فنڈنگ سکیم سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے مسائل حل نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ملازمین ان کے کاروبار کا لازمی حصہ ہیں اور وہ انہیں ہر صورت اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں لیکن اگر حکومت نےکوئی ریلیف پیکج نہ دیا تو ریٹیل سیکٹر بھی اپنے ملازمین کو نکالنے پر مجبور ہوگا جس سے تربیت یافتہ افرادی قوت کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہو جائے گی اور ملک کے متوسط طبقے پر معاشی لحاظ سے مزید منفی اثر پڑے گا۔

چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) کراس سٹچ (Cross Stitch) اسد شفیع نے اس حوالے سے کہا کہ ریٹیل برانڈز ہمارے کاریگروں کی پہچان ہیں اور یہ افسوس ناک امر ہوگا کہ اگر حکومت مشکل سے دوچار اس شعبے کو ریلیف فراہم نہیں کرتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ریٹیلرز ابھی سے اپنے مالی اخراجات پورے نہیں کر پا رہے اور چونکہ آمدن بھی نہیں ہو رہی تو قرضے اور سود کیسے ادا کریں گے؟

فرہاج فٹ وئیر (ہش پپیز پاکستان) کے مینجنگ ڈائریکٹر محمد قاسم نے کہا کہ کورونا کے باعث لاک ڈائون سے پیدا شدہ صورت حال سے ریٹیل و ہول سیل سیکٹر صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بری طرح متاثر ہوا ہے، اگر صورت حال لمبے عرصے تک برقرار رہی تو لاکھوں تربیت یافتہ ملازمین اپنے نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here