ڈیوٹی فری چینی درآمد کرکے چینی مافیا پر قابو پایا جا سکتا ہے، ماہرین

861

لاہور: معاشی ماہرین نے حکومت سے چینی کی درآمد پر پابندی ہٹانے (ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت) اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں کے فیصلے کا تعین مارکیٹ کو کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ 

انہوں نے کہا ہے کہ ڈیوٹی فری درآمدات سے نہ صرف ملک کو چینی کے کارٹلز کے اثر پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ کپاس کی فصل کے علاقوں میں گنے کی فصل کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

ذرائع کے مطابق چینی کی قیمتوں میں اضافے کے انکوائری کمیشن کی رپورٹ منظرِ عام پر آنے سے ملک کے بااثر چینی مافیہ کو دھچکا لگا ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے چینی کے کاروبار میں راج کر رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ طاقتور چینی مافیا تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین ہیں اور یہ اکثر چینی کی کارٹلز کے معاملے پر تمام سیاسی اختلافات کے باوجود ایک پیج پر ہوتے ہیں۔

 انڈسٹری میں ایک ذرائع نے بتایاکہ مافیا کی تمام حکومتی ایوانوں تک رسائی تھی یا ہے، گزشتہ ایک دہائی سے اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے یہ مافیا نے کپاس کے احاطے میں بھی چینی کی صنعتیں قائم کر لی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے: 

چینی بحران پرایف آئی اے رپورٹ سازش، عمران سے پہلے جیسے تعلقات نہیں رہے: جہانگیر ترین

چینی مافیا کے خاتمے کے لیے معاشی ماہرین کی حکومت کو تجاویز

پاکستان ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے مظفر گڑھ کے ماہرِ زراعت ملک احسن بدھ نے کہا کہ کئی سالوں سے گنے نے کپاس کی زمین پر بھی قبضہ جما لیا ہے جس سے کسانوں کو بھاری نقصان کے علاوہ معیشت بھی تباہ ہوئی ہے۔

ملک احسن نے بتایا کہ گنے کے کاشتکاروں نے کپاس کی فصل پر کیڑوں کے حملوں کے مواقع سے فائدہ اٹھایا ہے جس سے کئی سالوں سے کپاس کی کاشت تباہ ہوئی ہے۔

انہوں نے مزیدکہا ہے کہ “مافیا نے جنوبی پنجاب کے مظفر گڑھ، رحیم یار خان، خانیوال، لیہ اور راجن پور کے اضلاع میں کسانوں کو پیسے کی لالچ دے کر چینی کی ملیں منتقل کی تھیں۔ لیکن کپاس کی فصل کم ہونے سے چینی مافیا نے کسانوں کا استحصال شروع کر دیا”۔

یہ بھی پڑھیے:

وزیراعظم کا آٹا، چینی بحران تحقیقاتی کمیشن کے ارکان کو دھمکیاں دینے پر اظہار برہمی

چینی برآمد کا اصل فائدہ کاشتکاروں کو ہوا: پاکستان شوگر ملز ایسوی ایشن

ماہرِ زراعت نے کہا کپاس کی فصل کا اندرونی ایکو سسٹم گنے کی فصل پھیلنے سے خراب ہوا، ملک احسن نے تجویز دی کہ “اب یہ وقت ہے کہ ہم کپاس کے کاشتکاروں کی کیڑے مار سپرے، بیجوں اور امدادی قیمتیں وغیرہ کے ریگولیشنز متعارف کرا کر مدد کریں”۔

ذرائع نے کہا ہے کہ چینی کی ملوں کے مالکان کا اثرورسوخ صرف انڈسٹری تک ہی نہیں ہے کیونکہ یہ بہت سے معاشی حلقوں میں خود کو مضبوط کر چکے ہیں۔

“پاکستان میں 780 کے قریب چینی کے منافع خور ہیں جن میں سے چند کے سٹاک کی سالانہ 10 سے 15 ارب روپے مالیت ہے۔ ان منافع خوروں کے علاوہ ہر چینی کی مل کے 150 سے 250 کمیشن ایجنٹس ہیں جو کسانوں سے گنے سستے داموں خرید کر انہیں چینی کی ملوں میں فروخت کرتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here