لاہور: وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اعلان کردہ تعمیری شعبے کے ریلیف پیکیج سے متعلق صنعتکاروں اور معاشی ماہرین کی طرف سے ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔
جمعہ کے روز وزیراعظم عمران خان نے تعمیری شعبے کا پیکیج اعلان کرتے ہوئے کہا تعمیری شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے انکے ذرائع آمدن بارے نہیں پوچھا جائے گا جبکہ تمام تعمیری مواد پر سوائے لوہے اور سیمنٹ کے ود ہولڈنگ ٹیکس میں رعایت دی جائے گی۔
پاکستان ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) میپل لیف سیمنٹ فیکٹری لمیٹڈ سعید طارق سیگل نے کہا کہ وزیراعظم کے تعمیراتی شعبے کے پیکیج کو دیکھ کر حوصلہ بڑھا ہے، خاص کر ان مشکل حالات میں “جب ہم کورونا وائرس کے ساتھ ساتھ معاشی مستقبل کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں”۔
تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں سیمنٹ سیکٹر پر کسی بھی دوسرے شعبے کی نسبت زیادہ ٹیکس لگایا جاتا ہے اور اس سے صنعت کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔
سیگل نے کہا کہ “میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ بجٹ میں حکومت صنعت پر لگائے جانے والے ٹیکس کو عالمی معیار کے برابر لانے پر غور کرے گی”۔
اسی دوران ٹیکس کنسلٹنٹ اور معاشی ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے صنعتی شعبے کو انڈسٹری بنانے کا اعلان کیا تھا اور اس سے 14 اپریل (لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد) کھل جائے گی تاکہ مزدور روزی کما سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے مذکورہ شعبے کی ترقی کے لیے کنسٹرکشن انڈسٹریل بورڈ کے قیام کا اعلان بھی کیا۔
اکرام الحق نے کہا کہ “تعمیرات میں سرمایہ کاروں کے لیے انکے ذرائع آمدن کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا جائے گا جبکہ فکسڈ انکم ٹیکس فی یارڈ کی بنیاد پر واپس لیے جانے کے بعد پھر سے بحال کیا گیا”۔
ڈاکٹر حق کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کے لیے جو نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم میں سرمایہ کاری کریں گے، 90 فیصد فکسڈ انکم ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی جبکہ مکان بیچنے پر کیپیٹل گین ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔
“پنجاب اور خیبرپختونخوا نے سروسز کی مد میں سیلز ٹیکس کم کرنے کے علاوہ دیگر ٹیکسسز جیسے کیپیٹل ویلیو ٹیکس، سٹیمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس وغیرہ میں رعایت کی ہے۔ سندھ بھی شاید یہی کرے”۔
انہوں نے کہا کہ تمام تعمیری شعبے کی تمام انڈسٹریز بھی کھولی جائیں گی اور ان اقدامات سے ورکرز کی مدد ہو گی۔
سی ای او میپل لیف سیمنٹ نے مزید کہا کہ”وزیراعظم نے ایک صورت کو نظر انداز کر دیا کہ نہ صرف ہنر مند اور غیر مند مزدور اس سے فائدہ اٹھائیں گے بلکہ ان سے ملنے والے غیر معمولی ٹیکس فوائد سے ہیلتھ انشورنس کو بھی یقینی بنائیں گے”۔
انہوں نے کہا کہ متحرک رئیل اسٹیٹ، رہائش اور تعمیراتی صنعت کے اثر انداز ہونے سے یقیناََ ڈوبتی صنعتوں کو بھی یقینی طور پر مدد فراہم کرے گی”۔
ٹیکس کنسلٹنٹ نے مزید کہا کہ ناقدین یہ شاید کہیں کہ پاکستان میں،زیادہ تر رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات میں دولت مند سرمایہ کاری کرتے ہیں، لہذا، وہی حقیقی فائدہ اٹھائیں گے۔
معاشی ماہر نے کہا کہ “لیکن ملازمت وہ جو پیدا کریں گے اور اشیا اور سروسز وہ خریدیں گے اس سے معاشی سرگرمیاں شروع ہوں گی جو وقت کی ضرورت ہے”۔
ڈاکٹر حق نے کہا کہ “کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انکی حکومت بجائے جاری ٹیکسوں کے انفراسٹرکچر منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کا رجحان، روزگار پیدا کرنا، لوگوں کی قابلیت و صلاحیت پیدا کرنے کی تربیت اور چھوٹے بڑے کاروباری سیگمنٹس میں سرمایہ کاری کرنے والے افراد کے لیے فراخ مراعات کی پیش کش کرتی ہیں۔ تاہم انہیں محسوس کرنا چاہیے کہ حکومت کے پاس انفراسٹرکچر منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے پیسہ نہیں ہے”۔
اسی دوران سیکرٹری جنرل پاکستان ایسوسی ایشن آف لارج سٹیل پروڈیوسرز (پی اے ایل ایس پی) سید واجد اقبال بخاری نے کہا کہ سٹیل انڈسٹری تعمیری شعبے کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن وزیراعظم کی جانب سے مذکوری انڈسٹری کے لیے ریلیف نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر سٹیل انڈسٹری بند ہوجاتی ہے تو صنعتی شعبے کی بقا ممکن نہیں، حکومت کو سٹیل انڈسٹری کے تحفظات ضرور دور کرنا چاہییں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت شرح سود کم کر کے 5 فیصد تک کرے اور لاک ڈاؤن کے دنوں میں تمام بینکوں کے قرضوں پر سود وصول نہیں کیا جانا چاہیے۔
بخاری نے کہا کہ “مینوفیکچرنگ کمپنیوں، ریٹیلرز اور تاجروں کے لیے کم سے کم ٹرن اوور ٹیکس صفر فیصد تک کرنا چاہیے۔