کورونا وائرس، لاک ڈائون سے پاکستان میں کساد بازاری کا خدشہ

نجی شعبے کو نوکریاں بچانے میں مدد دینے کی ضرورت ہے وگرنہ صحت کے مسائل سے روزگار کے مسائل بڑے ہوجائیں گے: ماہرین

736

لاہور: معاشی ماہرین اور کاروباری برادری نے کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ حالات کے باعث ملک میں کساد بازاری کا خدشہ ظاہر کردیا۔

پرافٹ اردو سے گفتگو میں ممتاز صنعت کار ولید طارق سہگل نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کے باعث ملک کساد بازاری کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ وائرس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے دو تین ماہ کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں لیکن اگر یہ اثرات طویل عرصے تک رہتے ہیں یا وائرس کی کوئی نئی لہر آتی ہے تو ملکی اور عالمی معیشت کے لیے یہ شدید نقصان کا باعث ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے:

کورونا وائرس نےعالمی معیشتوں کوہلا کر رکھ دیا،شائد پاکستان کے لیے ویسا تباہ کن ثابت نہ ہو

کورونا وائرس: ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا آئی ڈی اے رکن ممالک سے قرض واپسی موخر کرنے پراتفاق

کورونا وائرس عالمی معیشت کو دو کھرب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے: اقوامِ متحدہ

کورونا وائرس پاکستان کی معیشت کیلئے کس حد تک تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے؟ 

ماہرین کہتے کہ موجودہ حالات میں کساد بازاری ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے ایک ڈرائونا خواب ہوگا۔

ٹیکس کنسلٹنٹ اور معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا تھا کہ ملک تو پہلے ہی کساد بازاری کا شکار ہے ۔ اسکی وجہ وہ بھاری ٹیکس، بلند شرح سود اور آسمان کو چھوتی مہنگائی قرار دیتے ہیں۔

اپنی بات سمجھاتے ہوئے ڈاکٹر حق کا کہنا تھا کہ عارضی کساد بازاری وہ معاشی وقت ہوتا ہے جس میں تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں محدود ہوجاتی ہیں اور جی ڈی پی میں مسلسل دو سہ ماہیوں میں گراوٹ دیکھی جا رہی ہے جبکہ ہماری معیشت پچھلے کئی ماہ سے سکڑ رہی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ اگر حکومت لاک ڈاون کے بعد مزید نقصان روکنا چاہتی ہے تو وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ  رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبے کے لیے ایک جامع پلان کا اعلان کریں  اور ان سیکٹروں کو دس سال تک ٹیکس سے چھوٹ دی جائے۔

ڈاکٹر اکرام الحق سے اتفاق کرتے ہوئے موبی لنک کے صدر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر غضنفر اعظم کا کہنا تھا کہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیاکی معیشت بھی بدترین کساد بازاری کا سامنا کر رہی ہے۔

انہوں نے اس خوف کیا اظہار کیا کہ اس صورت حال میں ہر دن چیلنج ہوگا اور پیداوارمیں کمی، تجارت میں کمی اور نوکریوں میں کمی کا خطرہ درپیش ہوگا۔

انکا کہنا تھا کہ فی الحال  ضرورت سماجی دوری اختیار کرنے اور بارڈروں کو سیل کرنے کی ہے تاکہ لوگوں کو بیماری اور بھوک سے بچایا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نجی شعبے کو نوکریاں بچانے میں مدد دینے کی ضرورت ہے وگرنہ صحت کے مسائل سے روزگار کے مسائل بڑے ہوجائیں گے۔

ایس سی ایس سیکیورٹیز کے سی ای او نوشاد چمدیا کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پاکستان  پہلے ہی کساد بازاری کا شکار ہے۔

انکا کہنا تھا کہ وائرس پوری دنیا کو معاشی طور پر نیچے لائے گا اور بہت سے معاشی ماہرین وائرس کے بعد چین کو سپر پاور کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور ہمارے لیے اس سب میں اچھی بات یہ ہے کہ ہم چین کے قریبی اتحادی ہیں اور اس  چیز سے ہمیں طویل المدتی بنیادوں پر فائدہ ہوگا۔

اسٹیٹ بنک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے ممبر اسد زمان کہتے ہیں کہ لوگ شرح سود میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں جو کہ حقیقت میں ایک غلط قدم ہے۔ انکا کہنا تھا کہ شرح سود میں پہلے ہی خطربناک کمی کردی گئی ہے۔

انہوں نے کہا  کہ شرح سود ایسی چیز ہے جسکا  اثر معیشت اور اس سے جڑی ہر چیز جیسا کہ ایکسچینج ریٹ،  فارن ایکسچینج ریزروز اور حکومتی بجٹ خسارے وغیرہ پر ہوتا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے حتی الامکان درست اقدامات لینے ہونگے اور کوئی ایک اقدام اس بحران کا حل نہیں ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here