کیا پاکستانی معیشت میں کیش کے بڑھنے کی کوئی امید ہے؟

1639

کراچی: کورونا وائرس کی وبا کے دوران کیش کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ مناسب بھی معلوم ہوتا ہے جب حالات غیر معمولی ہوں تو لوگ بنکوں سے رقوم نکلواتے ہیں۔ کرنسی کی گردش میں بھی اضافہ ممکن ہے جیسا کہ حکومت نے ایک اعشاریہ دو ارب روپے کے ہنگامی پیکیج کا اعلان کیا ہے تاکہ ورکرز اور کاروباری اداروں دونوں کی مدد کی جا سکے۔

موجودہ حالات کا تجزیہ کرنے کے دو طریقہ کار ہیں:

پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے ایم 2 کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے جو معیشت میں رقوم کی ترسیل کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ان میں نقد رقوم، ڈیپازٹس اور ایسے اثاثے شامل ہیں جنہیں فی الفور کیش میں تبدیل کیا جا سکتا ہو۔

مزید پڑھیں: شیڈول بینکوں کے ڈیپازٹس میں 992 ارب اضافہ، 133کھرب روپے ہو گئے

مرکزی بنک کے اعداد و شمار کے مطابق، 13 مارچ تک کرنسی کی گردش 5.594 ٹریلین روپے تھی جس میں گزشتہ ہفتے کی نسبت معمولی ہی اضافہ ہوا تھا جب 5.553 ٹریلین روپے کی سرکولیشن ہوئی۔

کرنسی کی سرکولیشن نے پانچ ٹریلین کی حد 2019 میں پار کی، چار ٹریلین کی حد 2018 اور تین ٹریلین کی حد 2016 میں پار کی جب کہ 2013 کے دوسرے نصف سے یہ دو ٹریلین روپے سے زیادہ پر ٹھہری ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: مارچ میں 700 ملین ڈالر سے زیادہ کے ٹی بلز نکلوائے گئے: سٹیٹ بنک آف پاکستان

کیا ان اعداد و شمار سے کوئی انداز لگایا جا سکتا ہے؟ بی ایم اے کیپیٹل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سعد ہاشمی کے مطابق، 2019 اور 2020 کے دوران نمایاں اضافہ ہوا جس کی وجہ حکومت کی جانب سے ٹیکسیشن کی پالیسیوں اور دستاویزی کارروائیوں میں سختی تھی۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے بنکوں کے بجائے کیش گھروں میں رکھنے کو ترجیح دی تاکہ ٹیکسیشن سے بچ سکیں۔

اگرچہ جیسا کہ امید تھی، ہنگامی پیکیج کے حالیہ معاشی اعلان نے بھی کچھ مشکل پیدا کی ہے۔ عمومی طور پر حکومت آئی ایم ایف کے قواعد کے تحت نجی سیکٹر سے قرضہ لیتی ہے، لیکن سعد ہاشمی کا کہنا ہے کہ اس اصول میں کورونا وائرس کے غیر معمولی حالات کے باعث نرمی ممکن ہے۔ ان حالات میں حکومت مرکزی بنک سے قرض لے سکتی ہے جس کے باعث مزید رقم پرنٹ کی جا رہی ہے، جس کا مطلب مزید ایم 2 اور مرید کیش کا گردش میں آنا ہے۔

مزید پڑھیں: ریلیف پیکج: پٹرولیم مصنوعات 15 روپے سستی، مزدوروں کیلئے 200 ارب، غریب خاندانوں کیلئے 150 ارب کا اعلان

موجودہ حالات کا تجزیہ کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے:

سیٹیٹ بنک آف پاکستان کے اعداد و شمار کا سرسری سا جائزہ لیا جائے تو فروری کے آخری ہفتے میں ڈیپازٹ 14.814 ٹریلین روپے تھے۔ یہ جنوری کے اعداد و شمار 14.672 سے ناصرف زیادہ تھے بلکہ 2002 کے بعد سب سے زیادہ ڈیپازٹ بھی تھے جو اس سے اگلے ہفتے کم ہوئے اور 13 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے میں ان میں ایک بار پھر اضافہ ہو گیا۔

عارف حبیب لمیٹڈ سے منسلک تجزیہ کار فیضان کامران کہتے ہیں کہ ڈیپازٹس پر کوئی ردِعمل ظاہر کرنا قدرے مشکل ہے یا مارچ کے اختتام پر ان کا حجم کیا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا یقیناً مشکل ہے کہ آنے والے ہفتوں کے دوران کیش کا یہ پیٹرن کس طرح تبدیل ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں، یہ اَمر نہایت اہم ہے کہ مرکزی بنک یہ یقینی بنانے کے حوالے سے نہایت فعال رہا ہے کہ لاک ڈائون کے دوران بنک کھلے رہیں جیسا کہ بنکنگ انڈسٹری کو ناگریز خدمات میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ غالباً کیش کے نکالے جانے کے حوالے سے تشویش نہیں ہے بلکہ معاشی سرگرمیوں میں کمی کے باعث معاشی سست روی ہے۔

فیضان کامران کہتے ہیں کہ بنکوں کی تشویش کی وجہ غالباً اثاثوں کے تناظر میں ہو گی کیوں کہ معاشی سرگرمیوں میں سست روی کے باعث تازہ قرض نہیں دیے جائیں گے اور کریڈٹ کے ڈیفالٹ کر جانے کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔

شرح سود ایک اور پہلو ہے جسے مدِنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر شرح سود زیادہ ہو گی تو نظری طور پر زیادہ رقوم کو بنکوں میں موجود ہونا چاہئے۔ پاکستان میں اگرچہ ڈیپازٹس میں اضافہ ہوا ہے تاہم مرکزی بنک کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر متعدد مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں کہ ٹیکس نیٹ کے دائرہ کار میں آنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور پاکستانی اب بھی کیش نکلوا رہے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here