کراچی: پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروباری ہفتے کے تیسرے روز بھی مارکیٹ میں گراوٹ دیکھنے میں آئی، کے ایس ای 100 انڈیکس 1336 پوائنٹس کمی سے 27228 کی چھ سال کی کم ترین سطح پر آگیا ہے جبکہ رواں ماہ کے دوران سٹاک مارکیٹ میں ٹریڈنگ کو آٹھ بار روکا جا چکا ہے۔
بدھ کو کاروبار کا آغاز ہوا تو کچھ ہی دیر میں کے ایس ای 100 انڈیکس 4 فیصد سے زائد کمی سے ایک ہزار 270 پوائنٹس گر کر 27 ہزار 294 پوائنٹس پر آگیا جبکہ کے ایس ای 30 انڈیکس میں 5.33 فیصد تک کمی ہوئی، انڈیکس 11 ہزار 859 پوائنٹس پر آنے کے باعث کاروبار کو دو گھنٹوں کے لیے روکنا پڑا۔
یاد رہے کہ رواں ہفتے میں کاروبار دوسرے جبکہ مارچ میں آٹھویں بار روکا جا چکا ہے، اس سے پہلے سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان نے کورونا وائرس کے بحران کے باعث انفرادی اسٹاک میں ٹریڈنگ روکنے کے عمل کے قوانین میں ترمیم کر کے 7.5 فیصد سے 5 فیصد کیا تھا۔
نئے قانون کے مطابق کاروبار 45 منٹ کی بجائے دو گھنٹوں تک روکنے کا فارمولا اپنایا گیا جس کا مقصد مارکیٹ میں طوفانی مندی کے باعث سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔
دو گھنٹوں کے مارکیٹ ہالٹ کے بعد کاروبار شروع ہوا تو انڈیکس میں معمولی ریکوری سے 600 پوائنٹس اضافہ ہوا اور یہ 27 ہزار سے زائد پوائنٹس تک گیا لیکن مارکیٹ کے اختتام تک تیزی کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور انڈیکس 1336 پوائنٹس کمی سے 27 ہزار 228 پوائنٹس پر بند ہوگیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شرح سود میں صرف ڈیڑھ فیصد کی کمی اور حکومتی معاشی پیکج پر سٹاک مارکیٹ کے بروکرز اور سرمایہ کار مطمئین نہیں ہوسکے ہیں۔ بروکرز حکومت سے براہ راست پیکچ کے منتظر ہیں۔
بدھ کے کاروباری روز کے دوران سٹاک مارکیٹ میں 82 کمپنیاں مثبت اور 179 کمپنیاں منفی زون میں نظر آئیں۔ دوسری طرف انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میں اضافے سے ایک ڈالر 162 روپے کا ہو گیا ہے۔
امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی
رواں کاروباری ہفتے کے تیسرے روز انٹر بینک میں ڈالر کی فروخت 162 روپے کے برابر ہو گئی جو جُون 2019 سے کم ترین سطح ہے تاہم سٹیٹ بینک نے ڈالر کی قدر میں اضافے کو روکنے کے اقدامات نہیں کیے۔
عارف حبیب لمیٹڈ کے ریسرچ ہیڈ سمی طارق کے مطابق “یہ عارضی طور پر ہونا چاہیے جیسا کہ اشیا کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، پیداواری فرق دوبارہ سرمایہ کاری کو مائل کرے گا۔ تاہم، حالیہ دوسری کرنسیوں کی قدر میں اضافے کے خطرے سے بچنے کے نتیجے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے”۔
شرح سود میں کمی
شرح سود میں کمی کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔ بدھ کے روز سٹیٹ بینک نے شرح سود میں 150 پوائنٹس کمی کی جو 12.5 فیصد سے 11 فیصد تک آ گئی ہے۔
سٹیٹ بینک نے اس سے قبل منگل کو شرح سود 13.25 فیصد سے 12 فیصد کی تھی۔
سٹیٹ بینک نے کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے حفاظتی طور پر ملک سے کرنسی نکال لی ہے، بہت سے ترقی یافتہ ممالک کورونا وائرس بحران کی وجہ سے ابھرتی ہوئی منڈیوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تاکہ لیکویڈیٹی حاصل کی جا سکے۔
اسی دوران بین الاقوامی منڈیوں میں کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے سٹاک مارکیٹس گراوٹ کا شکار ہو رہی ہیں تاکہ لیکویڈیٹی حاصل ہو۔
17 مارچ کو گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے ایکسچینج ریٹ پالیسی پر واضح کیا تھا کہ جب کبھی مارکیٹ میں مندی ہوئی تو سٹیٹ بینک مندی روکنے کے لیے مداخلت کرے گا، لیکن بینک ڈالر کی قیمت کی سمت کا تعین کرنے کے لیے طلب اور رسد کو متحرک طریقے سے دبانے کی کوشش نہیں کرے گا۔
وفاقی حکومت نے ملک میں لاک ڈاؤن کے باعث معاشی صورتحال کو بہتر کرنے لیے 1200 ارب روپے کے معاشی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ ریلیف پیکیج میں سے 200 ارب روپے مزدوروں کے لیے مختص کیے گئے ہیں اور 100 ارب صنعت اور برآمدکنندگان کو ٹیکس ریفنڈ کے طور پر دیا جائے گا۔