سندھ میں لاک ڈاؤن: ملازمین کی نوکریاں بچانے کا حکومتی اقدام چیلنج ہونے کا خطرہ

ماہرین کے مطابق ملازمین میں کمی کی ممانعت، تنخواہوں کی ادائیگی اور چھٹیوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے جاری کیا جانے والا نوٹی فکیشن سرکاری اداروں پر من وعن لاگو کیا جا سکتا ہے جبکہ نجی اداروں پر لاگو کرنے کے لیے نیا قانون بنانے کی ضرورت ہے

637

کراچی: صوبہ سندھ کی حکومت کی جانب سے سندھ ایپی ڈیمک ڈیزیز ایکٹ 2014 کے سیکشن 3(1)کے تحت ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت نجی و سرکاری کمرشل اور صنعتی اداروں کو ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور ملازمین کی تعداد میں کمی سے روک دیا گیا ہے۔

اس مقصد کے تحت لیبر سیکرٹری اور لیبر ڈائریکٹر کو خصوصی اختیارات دیتے ہوئے یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والے مشکل حالات میں ملازمین کو واجبات اور تنخواہوں کی ادائیگی، چھٹیوں کی فراہمی اور ملازمت کی حفاظت یقینی بنایا جائے۔

حکومت نے تنخواہوں میں کاٹ اور ملازمین کی تعداد میں کمی کو قابل سزا جرم قراردے دیا ہے۔

سندھ ایپی ڈیمک ڈیزیز ایکٹ 2014 حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ وبائی مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عارضی ریگولیشن کا نفاذ کرسکتی ہے اس جگہ پر جہاں وہ سمجھتی ہے    کہ عام قوانین بے سود ہیں۔
یہی ایکٹ حکومت کو یہ اختیار بھی دیتا ہے کہ وہ واجبات کی ادائیگی کے ذمہ دار اور طریقہ کار کا تعین بھی کرسکتی ہے۔

مسئلہ مگر یہ ہے کہ اس قانون کا اطلاق سرکاری اداروں پر تو من و عن ہوتا ہے مگر نجی اداروں پر اس کے اطلاق سے سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں۔

ورکر کی تعریف کیا ہے؟

سندھ ٹرم آف ایمپلائمنٹ ایکٹ 2015 کے سیکشن ٹو (این) میں وضع کردہ لیبر قوانین کے تحت جو تاثر ملتا ہے وہ تو یہ ہے کہ ورکر سے مراد تو بلیو کالر ایمپلائز جیسے کہ کلرک اور جسمانی مشقت کرنے والا عملہ ہے اور وائٹ کالر ایمپلائز جیسا کہ مینجمنٹ وغیرہ اس میں شامل نہیں ہے۔

اس ایکٹ کے تحت ورکر کی تعریف پر وہ شخص پورا اترتا ہے جو کہ کسی کمرشل یا صنعتی ادارے میں ہنر مندی یا غیر ہنر مندی پر مبنی کام یا جسمانی یا کلریکل کام کے لیے پرماننٹ، پرابیشن، عارضی یا کنٹریکٹ بنیادوں پر بھرتی کیا جائے۔

تاہم اس ایکٹ کے تحت وہ شخص جو کہ ملازمین کو بھرتی کرنے اور نکالنے کا اختیار رکھتا ہو وہ ملازمین کے زمرے میں نہیں آتا۔مزید برآں یہ ایکٹ کسی ایجنسی یا کنٹریکٹر کے ذریعے بھرتی کیے جانے والے افراد کو بھی ملازمین کے زمرے میں نہیں رکھتا۔

جیلانی اینڈ کمپنی کے محمد عمر طور کہتے ہیں کہ سندھ حکومت کا حکم نامہ صرف سرکاری اداروں کے لیے ہے کیونکہ متعدد عدالتی فیصلوں میں موجود تضاد کی وجہ سے اس با ت کا تعین غیر واضح ہے کہ کون ملازم ہے اور کون نہیں؟

انکا مزید کہنا تھا کہ ملازمین کی بھی کئی کیٹیگریز ہیں کچھ ملازم چند یا ایک ماہ کے لیے بھرتی کیے جاتے ہیں جبکہ کچھ یومیہ یا ہفتہ وار اجرت والے ہوتے ہیں۔

کیا نجی کمپنیاں ملازمین کو نکا ل سکتی ہیں؟

سندھ ٹرم آف ایمپلائمنٹ ایکٹ 2015 کا سیکشن سولہ اس حوالے سے یہ کہتا ہے کہ کوئی ادارہ کسی بھی ایسے واقعے جو کہ اسکے کنٹرول سے باہر ہو جیسا کہ آتشزدگی، سانحہ، مشینری کا ناکارہ ہوجانا، یا وبائی مرض کا پھوٹ جانا وغیرہ کی صورت میں ملازمین کے لیے کام کو بغیر کسی نوٹس کے غیر معینہ مدت کے لیے بند کرسکتا ہے۔

ایکٹ مزید کہتا ہے کہ اوپر بیان کی گئی وجوہات کے باعث چودہ دن تک کام بند رہنے کی صورت میں ادارے کو ملازمین کو انکی یومیہ اجرت کے نصف کے برابر معاوضہ ادا کرنا ہوگا اور اگر کام کو غیر معینہ مدت کیلیے بند کرنا پڑتا ہے تو ملازمین کو نوٹس یا مکمل معاوضے کی ادائیگی کے بعد فارغ کیا جا سکتا ہے۔

عمر طور کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ مالکان یا ملازمت پر رکھنے والا شخص ملازمین کو نکالنے کا اختیار نہ رکھتا ہو مگر سندھ ٹرم آف ایمپلائمنٹ ایکٹ 2015 کا سیکشن 16 انہیں کسی شخص کو ڈسپلن کی خلاف ورزی یا عدالتی طور پر قابل قبول صورت میں ملازمین کو نکالنے کا اختیار دیتے ہیں اور اس چیز کی وجہ سے سندھ حکومت کا حکم نامہ چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

کیا سندھ حکومت کا نوٹی فکیشن چیلنج کیاجا سکتا ہے؟

سندھ حکومت کے نوٹی فکیشن کے کئی کمزور پہلو ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

اول: یہ صرف ان نجی اور سرکاری کمرشل اور صنعتی اداروں پر لاگو ہوتا ہے جو کسی لیبر قوانین کے تحت قائم کیے گئے ہیں۔ مزید برآں یہ ان اداروں سے وابستہ ان افراد پر لاگو نہیں ہوتا جن کا کام انتظامی، سپروائزری اورنان کلریکل نوعیت کا ہے۔

دوم: یہ نوٹی فکیشن ملازمین کی تعاد میں کمی کی تو ممانعت کرتا ہے مگر انہیں نکالنے کے اختیار کے حوالے سے اس میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔

ان دونوں بنیادوں پر اس نوٹی فکیشن کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں اس نوٹی فکیشن کو لاگو کرنے اور اسے قانونی حیثیت دینے کے لیے حکومت کو ایک نیا قانون بنانا پڑے گا۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here