لاہور: برآمدکنندگان اور ماہرین معاشیات نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کورونا وائرس کے باعث معیشت کے مختلف شعبوں کی مالی امداد کے لیے 1,200 ارب روپے کے امدادی پیکیج کا خیرمقدم کیا ہے لیکن سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں معمولی کمی کرنے پر تنقید بھی کی ہے۔
وزیراعظم کے ریلیف پیکیج کے تحت حکومت نے گندم کی پیداوار کے لیے 280 ارب روپے، یوٹیلٹی سٹورز کے لیے مزید 50 ارب روپے، میڈیکل ورکرز کے لیے 50 ارب روپے، ہنگامی حالات کے لیے 100 ارب روپے، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے لیے 25 ارب روپے، مزدوروں کے لیے 200 ارب روپے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور زراعت کے لیے 100 ارب روپے اور ملک کی غریب آبادی کو چار ماہ تک مدد فراہم کرنے کے لیے 150 ارب روپے (تین ہزار روپے ماہانہ فی کس) مختص کیے ہیں۔
ایکسپورٹ انڈسٹری کی معاونت کے لیے حکومت فی الفور ٹیکس ریفنڈز جاری کرے گی جو 100 ارب روپے بنتے ہیں۔ علاوہ ازیں، پرنسپل اور انٹرسٹ کی مد میں ادائیگیوں کے لیے وقت دیا جائے گا۔
دریں اثناء، سٹیٹ بنک آف پاکستان نے اپنے بنیادی پالیسی ریٹ میں 150 بیسز پوائنٹ کمی کرتے ہوئے اسے 11 فی صد کر دیا ہے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے گروپ لیڈر گوہر اعجاز نے اس رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت بچانے کے لیے سب سے اہم فیصلہ یہ ہے کہ شرح سود پانچ فی صد کی جائے اور اگلے چھ ماہ کے دوران اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔
انہوں نے اس موقف کا اظہار کیا کہ شرح سود کو زیادہ رکھتے ہوئے افراطِ زر پر قابو پانا ایک غلط نظریہ ہے جو ہماری معیشت کے لیے قابلِ اطلاق نہیں ہے۔
اپٹما پنجاب کے سربراہ عادل بشیر نے کہا کہ یہ حوصلہ افزا امر ہے کہ حکومت انڈسٹری کو تعاون فراہم کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے، تاہم، انہوں نے کہا کہ موجودہ لاک ڈائون کی طرح کے حالات میں شرح سود میں 150 بیسز پوائنٹس کی کمی کافی نہیں ہے کیوں کہ صنعت شرح سود میں نمایاں کمی کی امید کر رہی تھی۔
معروف ماہر معاشیات ثاقب شیرانی نے ان کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ امدادی پیکیج درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس پیکیج کے علاوہ مزید اقدامات کرنے کی ضرورت بھی ہے جن میں شرح سود میں نمایاں کمی کرنا بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے ریلیف پیکیج کے جلد از جلد نفاذ کے حوالے سے اختیار کیے جانے والے میکانزم سے حکومتی پالیسیوں کے نتائج کی وضاحت ہو گی۔
دریں اثناء، ماہر معاشیات ڈاکٹر فریدہ فیصل نے اس غیر یقینی دور میں حکومتی کارکردگی کی تعریف کی۔
انہوں نے کہا کہ پیکیج کے تحت تمام اہم سیکٹرز کے مسائل، مثال کے طور پر، ایس ایم ایز، ایکسپورٹرز، ٹرانسپورٹرز، تعمیراتی سیکٹر، ہیلتھ کیئر اور زراعت پر توجہ دی گئی ہے۔
دوسری جانب ماہر معاشیات اور ٹیکس کنسلٹنٹ ڈاکٹر اکرام الحق نے اس رائے کا اظہار کیا کہ وزیراعظم کی جانب سے جاری کیا گیا امدادی پیکیج نہ ہی مناسب ہے اور نہ ہی غیرمعمولی ہے اور اس میں انڈسٹریز، ورکرز، اور عوام کو درپیش چیلنجوں کا درست طور پر احاطہ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 2018 اور 2019 میں عمران خان کی قیادت میں برسرِاقتدار حکومت کے پاس ادارہ جاتی اصلاحات کرنے کا سنہری موقع تھا لیکن اس نے گزشتہ حکومتوں کی طرح اس جانب توجہ نہیں دی۔
معاشی ماہر نے اس موقف کا اظہار کیا کہ حکومتیں نہایت اہم ایشوز کے ساتھ پیش آنے میں ناکام ہو گئی ہیں جن میں کاروبار کرنے میں آسانی پیدا کرنا، کاروبار کرنے پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی کرنا، شرح نمو بڑھانا، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا، انسانی صلاحیتوں پر توجہ دینا، وسائل سے فائدہ اٹھانا، روزگار پیدا کرنا اور غیر پیداواری ٹیکس کے نظام میں تبدیلی لانا شامل ہیں جس کے تحت بڑے پیمانے پر ٹیکس عائد کیے گئے ہیں لیکن ریونیوز اس قدر حاصل نہیں ہو پا رہا۔