وبا کے دِنوں میں آن لائن خریداری میں اضافہ، پاکستان چین کے تجربے سے کیا سیکھ سکتا ہے؟

787

لاہور: کورونا وائرس پھیلنے کے باعث ملک بھر میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے ، پاکستان اس حوالے سے چین کے تجربے سے سیکھ کر ملک میں ای کامرس کو مزید فروغ دے سکتا ہے۔ 

  سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اِس حوالے سے صارفین کو احتیاط کرنے کی ہدایت کوتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بینکوں میں جانے اور اے ٹی ایم استعمال کرنے کی بجائے انٹرنیٹ بینکنگ اور موبائل فون بینکنگ کا استعمال زیادہ کریں۔

مرکزی بینک نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے تمام بینکوں اور فنانشل سیکٹر کو عوام اور کاروباری شعبوں میں سروسز فراہم کرنے کے خصوصی اقدامات کی اہم ذمہ داری دی ہے، سٹیٹ بینک کے اقدام کا مقصد ملک میں ای کامرس کو فروغ دینا ہے۔

پاکستان میں 2001 سے کاروباری مقاصد کے لیے ای کامرس استعمال ہو رہی ہے۔ اکثر ریٹیلرز کپڑوں کے آؤٹ لیٹ سے لے کر الیکٹرونک اشیاء کے سٹورز صارفین کو اپنی مصنوعات بیچنے کے لیے ویب سائٹس استعمال کر رہے ہیں۔

چین میں 2003 میں سارس ( Severe Acute Respiratory Syndrome) کی وباء کے بعد سے ای کامرس استعمال کی جا رہی ہے، اس وقت وباء پھیلنے سے لاکھوں چینی شہری گھروں میں محصور ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں آن لائن سیلز کی  شاندار راہیں کھلنے لگی تھیں۔

 2003 کی وباء کے بعد چین میں علی بابا گروپ اور جے ڈی ڈاٹ کام (JD.com) کی دو ای کامرس کمپنیاں سامنے آئی تھیں، علی بابا جیک ما (Jack Ma) اور انکے ساتھیوں کی جانب سے 1999 میں متعارف کرائی گئی جو سالوں پہلے ایک چھوٹی سے کمپنی تھی اور اب چین میں بڑی کمپنی جانی جاتی ہے۔

 علی بابا کورونا وائرس (کووِڈ 19)سے پہلی بار مقابلہ نہیں کر رہی بلکہ اس سے قبل بھی 2003 میں  تاؤ باؤ (Taobao) کمپنی کی شروعات کے دوران بھی SARS کی وباء پھیلی تھی جس سے کمپنی کا آن لائن کاروبار خوب چمکا تھا جبکہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کمپنی نے اپنا ہیڈکوارٹر قرنطینہ بنا لیا تھا۔

 7 مئی 2003 کو چینی صوبے زنگ جیانگ (Zhejiang)میں علی بابا پراجیکٹ کی لیڈر سانگ جی (Song Jie) میں سارس وائرس کی تشخیص ہوئی تھی جو عملے کے کئی ارکان کے ساتھ رابطے میں آئی تھیں جس سے وباء پھیلنے کے خطرات میں اضافہ ہو گیا تھا۔

اس کے بعد جیک ما نے اعلان کیا تھا کہ انکی کمپنی سارس   وائرس پھیلنے کے باوجود کاروباری آپریشنز جاری رکھے گی تاہم ملازمین کو کام پر آنے سے منع کر دیا گیا تھا، اس طرح آن لائن شاپنگ کے پلیٹ فارم تاؤ باؤ کی بنیاد رکھی گئی تھی جس کے بعد جیک ما چین میں امیر ترین انسان بن گئےتھے۔

دوسری  ای کامرس کاروبار کی کہانی جے ڈی ڈاٹ کام کی ہے جو علی بابا کی طرح کی ہی کمپنی ہے، رچرڈ لی (Richard Liu) نے 1998 میں بیجنگ کے ٹیکنالوجی مرکز میں ایک ریٹیل یونٹ قسطوں پر حاصل کر کے جے ڈی ڈاٹ کام کی بنیاد رکھی تھی، کمپنی کی ترقی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور 2003 تک رچرڈ نے چین بھر میں 12 نئے سٹورز کھول لیے تھے۔

تاہم رچرڈ چین میں 2003 کے سارس وائرس پھیلنے کے بعد کاروبار کا سوچ رہے تھے کہ ایک کاروباری موقع ان کے ہاتھ لگ گیا جس کے بعد وہ آن لائن مصنوعات فروخت کرنے لگے۔

 اس کے بعد انہوں نے 2004 میں ایک ریٹیل ویب سائٹ کھولی اور جے ڈی ڈاٹ کام کی بنیاد رکھی، پھر 2005 میں چئیرمین جے ڈی ڈاٹ کام رچرڈ نے اپنے اینٹوں سے بنے سٹورز کو بند کر کے آن لائن سٹورز کھولے جو آخر کار کامیاب ثابت ہوئے۔

علی بابا اور جے ڈی ڈاٹ کام جیسی ای کامرس کمپنیوں نے  SARS کی وبا پھیلنے پر سخت محنت کی اور ہزاروں چینی شہریوں کا رخ آن لائن شاپنگ کی طرف موڑنے میں کامیاب ہو گئیں۔

سٹیٹ بینک کے مطابق وہ سٹیک ہولڈرز سے صورتحال کی تہ تک جانےکے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں اور شہریوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here