واشنگٹن: امریکا نے آج متحدہ عرب امارات کی پانچ کمپنیوں پر مبینہ طور پر ایران سے تیل کی فراہمی پر پابندی عائد کر دی ہے جس کی وجہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یکطرفہ طور پر مشرقِ وسطیٰ کے ملک پر عائد پابندیاں ہیں۔
امریکا کے ٹریژری ڈیپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ گزشتہ برس ایران کی سرکاری آئل کمپنی سے لاکھوں میٹرک ٹن تیل ان پانچوں کمپنیوں نے خریدا اور یہ ظاہر کیا کہ یہ عراق سے لیا گیا ہے یا خطہ ظاہر نہیں کیا۔
یہ پابندیاں امریکا کی جانب سے متحدہ عرب امارات کی کمپنیوں کے خلاف کیا جانے والا غیرمعمولی اقدام ہے جو امریکا کی ایران کے خلاف مہم میں ناصرف قریبی اتحادی ہے بلکہ خلیجی ملک میں بسنے والی ایک بڑی تعداد میں ایرانی کمیونٹی کا نمایاں تجارتی مرکز بھی ہے۔
وزیر ٹریژری سٹیون منوچن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایرانی حکومت پیٹرولیم اور پیٹروکیمیکل کی فروخت سے دہشت گرد پراکسیز جیسا کہ آئی آر جی سی، کیو ایف وغیرہ کو فنڈ کرتا ہے اور صحت اور ایرانی عوام کی فلاح پر فنڈز خرچ نہیں کرتا۔
ان کا اشارہ پاسدارانِ انقلاب کی ایلیٹ فورس قدس فورس کے کمانڈو قاسم سلیمانی کی جانب تھا جو جنوری میں بغداد ایئرپورٹ پر امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
ان پابندیوں کے باعث ان کمپنیوں کے امریکا میں موجود اثاثے منجمد ہو جائیں گے اور ان کے ساتھ لین دین پر پابندی عائد ہو گی۔
ان پانچ کمپنیوں میں پیٹرو گرینڈ ایف زی ای، الفابیٹ انٹرنیشنل ڈی ایم سی سی، سوئسول ٹریڈ ڈی ایم سی سی، عالم التھروا جنرل ٹریڈنگ ایل ایل سی اور الوانیو ایل ایل سی کو شامل ہیں۔
ٹرمپ 2018 میں ایران کے ساتھ عالمی حمایت سے ہونے والے معاہدے سے دستبردار ہو گئے تھے، اس معاہدے کے تحت ایران اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر تیار ہو گیا تھا، تام معاہدے کی منسوخی کے بعد امریکا نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ تمام ملک ایران سے تیل خریدنا بند کردیں جو اس کی بنیادی ایکسپورٹ ہے۔
چین کے نمایاں استثنیٰ کے علاوہ ملکوں کی اکثریت نے امریکا کی جانب سے سزائوں کے خوف کے باعث تذبذب کے ساتھ ایران سے تیل خریدنا بند کر دیا تھا۔