لندن: کورونا وائرس کے باعث امریکی وفاقی ریزروز اور اس کے مسابقتی اداروں کی جانب سے ریٹ کٹ کے باوجود مقامی منڈیاں سنبھل نہیں سکی ہیں جب کہ برینٹ اور یو ایس خام تیل سوموار کو 30 ڈالر فی بیرل سے کم ہو گیا ہے اور دوسری جانب چینی فیکٹریوں کی پیداوار میں گزشتہ 30 برسوں میں سب سے زیادہ کمی آئی ہے۔
وبا کے باعث معاشی سست روی پر قابو پانے کے لیے فیڈرل ریزروز نے اتوار کو اپنے بنیادی ریٹ کو قریباً صفر کر دیا تھا، کچھ ایسا ہی ریزرو بنک آف نیوزی لینڈ نے غیرمعمولی طور پر ریٹ میں ریکارڈ کمی کر کے کیا جب کہ ایشیا میں منڈیاں تجارت کے لیے کھلی رہیں۔
دوسری جانب بنک آف جاپان نے بعدازاں مانیٹری پالیسی کو مزید آسان کیا جب کہ خلیج کے مرکزی بنکوں نے بھی شرح سود میں کمی کی ہے۔ تاہم، یہ اقدامات سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے میں ناکام رہے ہیں اور سٹاک مارکیٹس دوبارہ کمزور ہو گئی ہیں۔
کامرز بنک سے منسلک اینالسٹ کارسٹن فرش نے کہا ہے، قیمتوں میں اتارچڑھائو قابلِ ادراک ہے، شرح سود میں کمی اور بانڈز کی خریداری کا نیا پروگرام تیل کی حالیہ طلب میں کمی کے تناظر میں سودمند نہیں ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر مزید ممالک لاک ڈائون کرنے کے علاوہ اپنی سرحدوں کو بند کرتے ہیں اور پروازوں کو منسوخ کرتے ہیں تو تیل کی طلب پر اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے اور بالخصوص اس کی وجہ سے معاشی سست روی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دریں اثنا، چین کی صنعتی پیداوار جنوری فروری میں گزشتہ برس اسی عرصہ کی نسبت 13.5 فی صد کم ہوئی ہے جو خدشات سے کہیں زیادہ ہے، یہ جنوری 1990 کے بعد کم ترین سطح ہے جب سے روئٹرز ریکارڈ مرتب کر رہا ہے۔
برینٹ کے خام تیل میں 2016 کے بعد نمایاں کمی آئی ہے جس کے باعث امریکی خام تیل کے لیے عالمی منڈیوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
آئی این جی کے تجزیہ کار ویرن پیٹرسن کہتے ہیں کہ برینٹ میں آنے والی کمی پر حیران نہیں ہونا چاہئے جس کی وجہ یورپ میں کورونا وبا کی شدت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈبلیو ٹی آئی کو ایک اور وجہ سے بھی فائدہ حاصل ہو رہا ہے اور وہ صدر ٹرمپ کے سٹریٹیجک پیٹرولیم ریزروز کو یہ احکامات دینے سے متعلق خبریں ہیں کہ کم سے کم قیمتوں پر تیل کے ذخائر برقرار رکھے جائیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے جمعہ کو کہا تھا کہ امریکا تیل کی کم قیمتوں سے فائدہ اٹھائے گا اور ملک کے خام تیل کے ریزروز کو برقرار رکھا جائے گا جس کا مقصد توانائی کے ان پیداوارکنندگان کی مدد کرنا ہے جو قیمتوں کے بحران کا شکار ہیں۔
آئی ایچ ایس مرکیٹ نے سوموار کو کہا ہے کہ دنیا میں اس وقت ممکنہ طور پر سب سے زیادہ سرپلس تیل کے ذخائر ریکارڈ کیے گئے ہیں اور امریکی خام تیل کی پیداوار اگلے 18 ماہ کے دوران دو سے چار ملین بیرل روزانہ کم ہو سکتی ہے۔
رسد کے تناظر میں دیکھا جائے تو تیل کی قیمتوں کے حوالے سے مشکلات درپیش ہیں، جیسا کہ تیل کے نمایاں برآمدکنندگان نے تیل کی پیداوار بڑھا دی ہے اور قیمتوں میں کمی کی ہے تاکہ ایشیا اور یورپ میں فروخت میں اضافہ کیا جائے۔
رواں ماہ آرگنائزیشن آف پیٹرولیم کنٹریز اور روس پیداوار میں کمی لانے میں ناکام ہو گئے ہیں جس میں جنوری 2017 سے اضافہ ہونا شروع ہوا تاکہ تیل کی قیمتوں کو برقرار رکھنے کے علاوہ ذخائر میں کمی لائے جائے۔
سعودی آرامکو کے چیف ایگزیکٹو امین نصیر نے گزشتہ روز کہا ہے کہ سعودی آرامکو مئی کے لیے اپریل میں تیل کی زیادہ پیداوار ممکنہ طور پر برقرار رکھنا چاہتا ہے جس سے آئل پروڈیوس کرنے والی دنیا کی نمایاں ترین کمپنی کی جانب سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ تیل کی کم قیمتوں کے ساتھ بھی کچھ وقت گزار سکتی ہے۔