پاکستان انٹر نیشنل بلک ٹرمینل (پی آئی بی ٹی) دو سال بعد خسارے کو منافع میں بدلنے والی کامیاب کمپنی بن گئی ہے، حالیہ جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں 30 جون 2020ء کے اختتام تک مثبت مالی نتائج سامنے آئے ہیں، کمپنی کو مذکورہ مالی سال کے زیرِ جائزہ عرصے کے دوران فی شئیر 0.22 روپے آمدن ہوئی، گزشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے میں کمپنی کو 0.76 روپے فی شئیر خسارے کا سامنا کرنا پڑاتھا۔
اسی طرح کمپنی کو گزشتہ سال 338 ملین روپے کی نسبت رواں سال مجموعی طور پر 148 فیصد حقیقی منافع کی صورت میں 847 ملین روپے حاصل ہوئے ہیں، کمپنی کی رواں سال دوسری سہ ماہی کی فروخت 2.15 ارب روپے تک گئیں جو تجزیہ کاروں کی توقعات سے بھی زیادہ تھیں۔
انسائٹ سکیورٹیزکے ریسرچ اینالسٹ سید نعمان احمد نے 14 فروری کو کلائنٹس کو جاری کیے جانے والے بیان میں کہا کہ’’ٹرمینل کی آمدن میں اضافہ ہماری توقعات سے زیادہ ہے ، اضافے کی بنیادی وجہ ٹیرف کے کا بڑھنا ہے۔ ‘‘
انہوں نے کہا،’’ہم نے فی ٹن 6.5 ڈالر ٹیرف کا اندازہ رکھا تھا تاہم اب کہہ سکتے ہیں کہ کمپنی کا منافع ممکنہ ٹیرف کے زیادہ ہونے کی وجہ ہو ا ہے جس کے نتیجے میں مالی سال 2020ء کی پہلی سہ ماہی میں 29.1 فیصد کی مجموعی بچت سے بڑھ کر اسی سال کی دوسری سہ ماہی میں 33.3 فیصد ہو گئی جبکہ کوئلہ ذخیرہ کرنے کی مقدار 2.2 ملین ٹَن تک برقرار رہی۔‘‘
پی آئی بی ٹی ایک بڑا ٹرمینل ہے جہاں سے مخصوص مصنوعات (سیمنٹ ، کھاد ، کوئلہ وغیرہ)کو بغیر کھولے بڑی مقدار میں ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے، جو براہِ راست بحری جہازوں میں کنٹینر یا کسی قسم کی پیکنگ کے بغیر کارگو میں لادا جاتا ہے لیکن باقاعدہ کنٹینر ٹرمینلز کے مقابلے میں تھوک ٹرمینلز میں مال کو جہازوں سے اِدھر اُدھر کرنے کے لیے خاص طرح کی مشینری درکار ہوتی ہے۔
پی آئی بی ٹی کارگو سے ہی پیسہ کماتا ہے جو درآمد کنندگان اور برآمدکنندگان سے فی ٹن مال بحری جہازوں سے اتارنے اور لادنے کے عوض چارج کرتا ہے۔ پی آئی بی ٹی اس وقت کوئلہ اور کنکر کی نقل و حرکت کا بالترتیب فی ٹن 6.5 ڈالر اور 5.5 ڈالر معاوضہ لے رہی ہے۔
احمد کے مطابق تھوک کے مال کی نقل و حرکت کے یہ نرخ مزید کم کر کے 6 ڈالر اور مال ذخیرہ کرنے کےلیے 0.5 ڈالر تک کم کیا جا سکتا ہے، حال ہی میں ٹیرف کے زیادہ ہونے سے جنوری 2020ء میں ٹرک ڈرائیوروں نے ہڑتال کی جو ایک ہفتے تک جاری رہی تھی۔
کمپنی نے اس سال ہونے والے توقع سے زیادہ منافع کو ورکرز ویلفئیر فنڈ اور ورکرز کے پرافٹس پرافٹبیلیٹی فنڈ میں زیادہ رقم خرچ کی ہے۔احمد کے مطابق چونکہ کارکنوں کی فلاح و بہبود کے لیے یہ بہتر ہے لیکن اس سے دوسری سہ ماہی کے دوران فی شئیر آمدن میں اضافے کا مثبت اثر زائل ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔
پی آئی بی ٹی پاکستان کا پہلاٹرمینل (جو پاکستان کے کارگو کا 40 فیصد سے زیادہ کنٹرول کرتا ہے) جو پورٹ قاسم اتھارٹی پر کوئلے، کنکر اور سیمنٹ کے مال کی ٹرانسپورٹ کو کنٹرول کرتاہے، کمپنی نے نومبر 2010ء میں پورٹ قاسم اتھارٹی کے ساتھ کوئلے اور کنکر کو ہینڈل کرنے کےلیے ٹرمینل کی تعمیر و ترقی کے لیے آئندہ 30 سال کےلیے بِلڈ آپریٹ ٹرانسفر (Build Operate Transfer) کا معاہدہ کیا تھا۔
ٹرمینل نے جولائی 2017ء میں باقاعدہ طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا، جیسا کہ آج پی آئی بی ٹی سالانہ 12 ملین ٹن کوئلہ، 4 ملین ٹن سیمنٹ اور 4 ملین ٹن کنکر کو کنٹرول کرنے کی گنجائش رکھتی ہے۔
پی آئی بی ٹی کی یہ کامیابی توانائی اور سیمنٹ کے شعبے میں کوئلے کی طلب میں تیزی سے اضافے کی وجہ ہے، اس کے علاوہ روپے اور امریکی ڈالر کے ایکسچینج ریٹ کے درمیان استحکام کی شرح کا کم ہونا ہے۔ پی آئی بی ٹی پاکستان میں بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات ،درآمدی کوئلے پر انحصار کے ساتھ ساتھ سیمنٹ سیکٹر کی ضروریات پورا کرنےکی صلاحیت رکھتا ہے۔
مستقبل قریب میں پاکستان ریلوے کی جانب سے اپنا ٹریک پی آئی بی ٹی ٹرمینل کے ساتھ منسلک کیے جانے کا امکان ہےجو منصوبہ بندی کمیشن کی حتمی منظوری سے مشروط ہے۔ حتیٰ کہ ایک بار ریلوے لائن کے مکمل ہو جانے سے پورٹ ٹرمینل حالیہ کے مقابلے میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس سے بڑے پیمانے پر کام کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
تیل کے مقابلے میں کوئلہ سے توانائی کی پیداوار سستی پڑتی ہے، اس کا یہ مطلب ہوا کہ فی یونٹ حجم کوئلہ تیل کے مقابلے میں کم توانائی خارج کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر یہ توانائی کی لاگت کے تناظر میں کوئلے کی ٹرکوں پر زیادہ فاصلوں تک ترسیل مہنگی پڑ سکتی ہے جیسے کہ بندر گاہ سے بجلی گھروں اور پھر ملک کے شمالی علاقوں تک پہنچایا جانا ہے۔
کوئلے کی ترسیل کا آسان طریقہ سڑک کی بجائے ریلوے لائن کے ذریعے ہے۔ اسی وجہ سے مال ریلوے لائن سے ٹرمینل کی طرف لے جانے سے ملکی توانائی کی پیداوار کے انفراسٹرکچر میں بہتری ہو گی۔
تاہم ناقدین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کا اس وقت شروع کرنا جب پاکستان عالمی ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی زد میں آنا شروع ہو گیا ہے، حکومت نے صرف ملک کو ماحولیاتی تبدیلی کے پڑنے والے تباہ کن اثرات سے معاشی اور طبعی طور پر خراب کرنے میں اضافہ ہی کیا ہے، جس سے پاکستان کے دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ متاثر ہونے کا امکان ہے۔
کوئلے کی درآمدات کنٹرول کرنے کے علاوہ پی آئی بی ٹی بی سے سیمنٹ کی پورٹ قاسم، حب اور کراچی میں واقع پلانٹس کیلئے ترسیل ممکن ہوتی ہے۔ پاکستان سیمنٹ کی اضافی پیداوار کی گنجائش کے اعتبار سے اہم ہو چکا ہے اور گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ سیمنٹ کا مجموعی برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ تعمیراتی سرگرمیوں میں اضافے کے باعث مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ کو ان خطوں میں پاکستان سے سیمنٹ برآمد کرنے کے لیے تھوک ٹرمینل کے استعمال میں اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
حتیٰ کہ یہ ٹرمینل فعال ہونے سے پہلے عوامی طور پر درج ہونے والی کمپنی کا حصہ رہ چکی ہے اور ابتدا میں ٹرمینل کی تعمیر عوام کے تعاون سے کی جانے والی مالی معاونت سے ہوئی تھی۔