8 سال پہلے ایسا لگا جیسے سب ختم ہو گیا ہو۔
17 مارچ 2012ء پاکستان کے ایک انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون میں خبر شائع ہوئی جس کے مطابق سٹی بینک پاکستان اپنی تمام ریٹیل بینکنگ ڈویژن فروخت کر رہا ہے اور ملک میں اپنی مالیاتی شناخت مٹاتا جا رہا ہے۔ اور اگلے چند ماہ میں بالکل ایسا ہی ہوا۔ نومبر 2012ء میں سٹی بینک نے کریڈٹ کارڈز اور صارفین کو فراہم کئے گئے قرضہ جات کی تفصیلات حبیب بینک کو فروخت کرنے کا اعلان کیا۔
سٹی بینک اس سے پہلے ہی 2009ء میں گروی کیلئے فراہم کئے جانے والے قرضہ جات کی تفصیلات بینک اسلامی کو فروخت کر چکا تھا۔ مکمل طور پر اپنی ریٹیل بینکنگ کو بند کرنے کی خبر سے ایسا تاثر ملا جیسے یہ بینک پاکستان بھر میں اپنے آپریشنز بند کر رہا ہے۔ یہ سب امریکہ سے شروع ہونے والے عالمی مالیاتی بحران کے 4 سال سے بھی کم عرصہ میں ہوا جس نے دنیا کو ہلا دیا تھا۔
اُس وقت تمام بین الاقوامی بینک پاکستان میں اپنے آپریشنز منقطع کر رہے تھے۔ اے بی این آمرو بینک کے پاکستان میں اثاثے خریدنے والی آر بی ایس پاکستان نے جون 2010ء میں اپنے تمام آپریشنز فیصل بینک کو فروخت کر دیئے۔ 2012ء کے شروع میں ایچ ایس بی سی نے پاکستان میں اپنی تمام برانچیں فروخت کرنے کا عندیہ دیا۔ اور اُس وقت یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ بارکلے پاکستان میں اپنی بقاء مشکل سے قائم کئے ہوا تھا اور مارکیٹ سے نکلنا چاہتا تھا۔
سٹی بینک کا پاکستان سے اپنے آپریشنز ختم کرنے کا فیصلہ ایک دھچکا ضرور تھا لیکن ناقابل فہم نہیں تھا۔ گو کہ سٹی بینک کی انتظامیہ نے اُس وقت روایتی طور پر اس کی تردید کی تھی اور بیانات جاری کئے تھے کہ وہ پاکستانی مارکیٹ میں ہی رہیں گے۔ لیکن مارکیٹ کی صورتحال انتہائی غیر مستحکم تھی۔
اس بات کو 8 سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ان برسوں میں مارکیٹ کی پیشن گوئیاں غلط اور سٹی بینک کی انتظامیہ درست ثابت ہوئی۔ اس بینک کے پاکستان میں کارپوریٹ اور انویسٹمنٹ آپریشنز تاحال جاری ہیں اور 2019ء میں اس بینک نے ایک اور سنگ میل عبور کر لیا جب اس بینک نے پچھلی 2 دہائیوں اور شاید پاکستان میں ابھی تک کا سب سے زیادہ منافع حاصل کیا۔
عوام کیلئے دستیاب معلومات کے مطابق بینک کے منافع جات کی شرح پچھلی دو دہائیوں میں سب سے زیادہ رہی۔ حالیہ عوامی معلومات کے مطابق 30 ستمبر 2019ء تک بینکنگ انڈسٹری نے مجموعی طور پر 0.7 فیصد منافع حاصل کیا جبکہ سٹی بینک پاکستان کا منافع 2.5 فیصد رہا۔
اس بینک کی کارکردگی کی وجہ اس کا اپنی اساس کی جانب واپسی کا سفر ہے۔ یہ بینک ایک عالمی کارپوریٹ اور انویسٹمنٹ بینک ہے جو دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں موجود ہے اور ایک ایسا مالیاتی ادارہ جو عالمی مالیاتی نظام کی ریڑھ کی ہڈی مانا جاتا ہے۔
پاکستان میں سٹی بینک کا انوکھا مقام
پاکستان میں شاید جو مقام سٹی بینک کو حاصل ہے وہ کسی اور غیر ملکی بینک کو حاصل نہیں۔ پاکستان میں اپنے حریف اسٹینڈرڈ چارٹرڈ اور دیگر بینکوں کی نسبت حجم میں چھوٹا ہونے کے باوجود سٹی بینک نے پاکستان میں بہت سارے فنانشل لیڈرز پیدا کئے ہیں۔ پاکستانی حکومت اور کارپوریٹ سطح پر کسی دوسرے مالیاتی ادارے کے مقابلے میں اپنے آپ کو سابق سٹی بینکر کہلانا زیادہ باعث فخر مانا جاتا ہے۔
پاکستان میں سابق سٹی بینکرز میں 2 سابق وفاقی وزراء خزانہ شوکت عزیز اور شوکت ترین شامل ہیں جبکہ شوکت عزیز پاکستان کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 2 صوبائی وزراء خزانہ بھی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں صوبہ سندھ کیلئے مراد علی شاہ اور پنجاب کیلئے ہاشم جواں بخت نے اپنی خدمات سرانجام دی ہیں جبکہ سید مراد علی شاہ ابھی بھی صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ ہیں۔ اگرچہ مراد علی شاہ اور ہاشم بخت کا تعلق بااثر سیاسی خاندانوں سے ہے شوکت عزیز اور شوکت ترین کو وفاقی حکومت میں ان کا منصب سٹی بینک میں ان کی اعلیٰ پیشہ وارانہ خدمات کے عوض دیا گیا۔
سٹی بینک ہی کیوں؟ بینک آف امریکہ، چیز مین ہیٹن (سابق جے پی مورگن چیز)، ایچ ایس بی سی اور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ سمیت دنیا کے بڑے مالیاتی اداروں میں سے کئی ادارے پاکستان میں بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ تو پھر سٹی بینک کو ہی ملک کے مالیاتی رہنما پیدا کرنے کا اعزاز کیونکر حاصل ہے؟
اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ سٹی ایک طویل عرصے سے پاکستان سے وابستہ ہے اور دوسری یہ کہ اس بینک کو عالمی سرمایہ کاری مارکیٹوں اور سرمایہ کاروں تک رسائی حاصل ہے۔
پاکستان میں سٹی بینک کی روش
پاکستان میں سٹی بینک کا وجود سب سے زیادہ پرانا نہیں ہے۔ یہ اعزاز اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کو حاصل ہے جس نے موجودہ پاکستان میں 1863ء میں اپنے آپریشنز کا آغاز کیا اور یہ اس بینک کی دنیا بھر میں چھٹی شاخ تھی (پہلی پانچ شاخیں کلکتہ، بمبئی، شنگھائی، ہانگ کانگ اور سنگاپور میں تھیں)۔
جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ سٹی ایک طویل عرصے سے پاکستان سے وابستہ ہے جس کی پہلی شاخ کراچی میں 1961ء میں قائم کی گئی اور یہ بینک اس وقت سے اب تک ملک میں اپنے آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایسا کسی اور مالیاتی ادارے کے متعلق نہیں کہا جاتا کیونکہ ان میں سے بیشتر پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔ چیز مین ہیٹن نے 80ء کی دہائی میں اور بینک آف امریکہ نے 90ء کی دہائی میں پاکستان کو خیرباد کہا جبکہ جے پی مورگن اور کریڈٹ سوئس نے 2000ء کے آغاز میں پاکستان میں اپنا نیٹ ورک قائم کرنے کی کوشش کی لیکن کچھ عرصے بعد یہ کوشش ترک کی اور ملک چھوڑ کر چلے گئے۔
سٹی بینک کو یہ اعزاز مارکیٹ میں طویل مدتی ہونے کی وجہ سے نہیں ملا۔ اگر ایسا ہوتا تو اسٹینڈرڈ چارٹرڈ پاکستان کا بہترین غیر ملکی بینک ہوتا۔ سٹی بینک کے انوکھا ہونے کی وجہ دنیا کی بڑی عالمی کیپیٹل مارکیٹوں کے کھلاڑیوں میں سے یہ واحد بینک ہے جو طویل عرصے سے پاکستان میں اپنے آپریشنز چلا رہا ہے اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس بینک نے پاکستان حکومت کو بانڈز کیلئے عالمی سرمایہ کاروں سے سرمایہ کے حصول میں مدد فراہم کی اور پاکستانی کمپنیوں کی عالمی سرمایہ کاروں تک رسائی کا ماحول پیدا کیا۔
مختصراََ یہ کہ ملک میں کام کرنے بڑے عالمی سرمایہ کاری بینکوں میں واحد بینک ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان میں حبیب بینک لمیٹڈ اور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ سٹی بینک کے حریف نہیں ہیں۔ ان کے حریف بینکوں میں جے پی مورگن اور گولڈز مین سیش کا شمار ہوتا ہے جن میں سے کسی بھی بینک کی پاکستان میں کوئی شاخ موجود نہیں ہے۔
اگرچہ لندن میں اپنا ہیڈ کوارٹر رکھنے والے بین الاقوامی بینک اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کی انویسٹمنٹ بینکنگ کے حوالے سے پاکستان میں زیادہ شناخت نہیں ہے۔ یہ ایک مستحکم کارپوریٹ اور کمرشل بینک تو ضرور ہے لیکن انویسٹمنٹ بینک نہیں۔ کیپیٹل مارکیٹوں اور انویسٹمنٹ بینکوں کی دنیا میں اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کی چھاپ انتہائی مختصر ہے۔
دوسری جانب رائٹرز کی مالیاتی معلومات فراہم کرنے والی کمپنی ری فینیٹو کے مطابق سٹی ابھی بھی ٹاپ 5 میں موجود ہے جس کی انویسٹمنٹ بینکنگ کے ذریعے آمدن 2019ء میں 4.3 ارب ڈالر رہی۔
اس سب کا مطلب کیا ہوا؟
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ حکومت پاکستان سے مقامی کرنسی یا بانڈز خریدنے کیلئے مقامی کرنسی کا ہی استعمال کرتا ہے اور اگر پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے ڈالر کی قیمت کے بانڈز جاری کرنا ہوں تو سٹی واحد بینک ہے جس سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ (اگرچہ ڈیوش بینک بھی عالمی سرمایہ کاری بینکنگ میں ایک بڑا نام ہے اور پاکستان میں اس کے آفس بھی واقع ہیں لیکن یہ بینک زیادہ تر اپنے مفاد کیلئے ہی کام کرتا ہے اس لئے اس بارے میں جتنا کم بات کی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔)
سٹی گروپ کی یہ خاصیت صرف کہنے کی حد تک ہی نہیں بلکہ یہ اس بینک کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ اس بینک نے پاکستان کیساتھ سرمایہ کاری بینکنگ کیلئے تقریباََ تمام عالمی بانڈز جاری کرنے اور متعدد نجکاری ٹرانزیکشن میں تعاون کیا ہے۔
دسمبر 2019ء میں سٹی پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر نعیم لودھی نے کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا ’’ہم حکومت پاکستان کے قابل اعتماد اتحادی ہیں۔ 1996ء میں جاری کئے جانے پہلے سکوک بانڈز میں سٹی کا تعاون شامل تھا۔ ہم نے خودمختاری کیلئے ہر قسم کی ٹرانزیکشن سرانجام دی ہیں۔‘‘
جب کے الیکٹرک میں اپنی سرمایہ فروخت کرنے کا وقت آیا تو سٹی بینک یورپ اور ایشیا پیسیفک ریجن میں سرمایہ کاری کیلئے وسائل اور مشاورتی ٹیم کے ساتھ واحد ایسا ادارہ تھا جس پر ابراج کیپیٹل بھروسہ کر سکتا تھا۔ 2014ء میں سٹی کو ابراج گروپ کی جانب سے مشیر ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس نے آخر کار شنگھائی الیکٹرک کی شکل میں خریدار تلاش کیا تھا۔
پاکستانی مالیاتی مارکیٹ میں جدت
سٹی بینک کو پاکستان میں ایک بااثر ادارہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی وجہ صرف عالمی سرمایہ کاری بینکنگ کی سہولیات فراہم کرنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی بینکاری میں ہونے والی زیادہ تر جدت کا سہرا بھی سٹی بینک کو ہی جاتا ہے۔
90ء کی دہائی کے آغاز میں سٹی بینک کے اعلیٰ حکام پر مشتمل ایک ٹیم نے پاکستان میں صارفین کو مدنظر رکھتے ہوئے بینکنگ انڈسٹری میں نئی جدت کا فیصلہ کیا جس میں کریڈٹ کارڈز کا اجراء، گاڑیوں کیلئے قرضہ جات کی فراہمی اور ملک بھر میں گروی مارکیٹ میں توسیع جیسے اقدامات شامل ہیں۔
اس وقت شوکت ترین بینک کے سربراہ تھے۔ ان کی ٹیم کے ایک سابق رکن کا کہنا تھا ’’ہم نے خصوصی طور پر پاکستان میں کنزیومر بینکنگ متعارف کروائی۔ ہم سے پہلے کسی نے کبھی بھی کریڈٹ کارڈ کا نام نہیں سنا تھا اور یہاں گروی یا گاڑیوں کیلئے قرضہ جات کی فراہمی بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔‘‘
اس حکمت عملی کی وجہ سے بینک نے 90ء کی دہائی میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے سمیت ملک بھر میں اپنے نیٹ ورک کو وسیع کرنا شروع کر دیا اور اپنی برانچوں کی تعداد 18 تک لے گئے۔
3 بڑے میٹروپولیٹن شہروں کے علاوہ دیگر شہروں میں بینک کے پھیلاؤ سے غیر ارادی طور پر اپنی پیشکش میں اضافہ کیا اور انہیں مقامی سطح پر فروغ دینا شروع کر دیا۔ مثال کے طور پر سٹی بینک پاکستان کا پہلا بینک تھا جس نے اردو میں چیک بک کا اجراء کیا۔ اس نے پاکستان میں پہلی مرتبہ 24 گھنٹے صارفین کیلئے سروس سنٹر کا انعقاد کیا۔ اور بنیادی طور پر اس بینک نے پاکستان میں بڑے رقوم کی ترسیل کرنے والے کلائنٹس کیلئے ترجیحی بینکنگ (priority banking) متعارف کروائی۔
اس بینک کو جدید ہونے کی قابلیت اس کے ملازمین کی بینک سے وفاداری اور ان کی ادارے سے متعلق احساس ملکیت کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ بینک بذات خود سرمایہ کاری رحجانات کا گڑھ تھا۔
سٹی بینک میں قومی بچت کے سابق ڈائریکٹر جنرل ظفر مسعود کا کہنا تھا ’’سٹی بینک میں ہو کوئی ایک ہی طرح سے سوچتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’اس ادارے میں کچھ ایسی بات، کچھ ایسی کشش ضرور ہے جس کا میں کبھی تعین نہیں کر سکا۔ ایک بات تو یقینی ہے کہ یہ بینک سب کو سرمایہ کار بنا دیتا ہے اور ہونا بھی یہی چاہیے۔ ہر کوئی پہلے دن سے پوری خود مختاری سے فیصلہ سازی میں شامل ہے اور احتساب تو لازمی امر ہے۔‘‘
90ء کی دہائی کے آغاز میں ہونے والی اس تمام پیش رفت کے ثمرات 2000ء کی دہائی کے آغاز میں موصول ہونا شروع ہو گئے۔ مختصراََ یہ سٹی بینک پاکستان کے ایام عروج تھے۔ 2002ء تک سٹی بینک کے ڈپوزٹس مجموعی بینکاری شعبے کا 2.7 فیصد تھے لیکن منافع کے لحاظ سے اس کی شرح اس شعبے کا 8 فیصد تھی۔ (اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ملک کے زیادہ تر بینک اس وقت بھی سرکاری ملکیت تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کی 1974ء میں نافذ کردہ تباہ کن نجکاری پالیسی کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔)
حجم کے لحاظ سے سٹی بینک کا عروج 2007ء میں دیکھنے کو آیا جب اس کے ڈپوزٹس بڑھ کر 1.1 ارب ڈالر اور اس کے مجموعی اثاثہ جات 1.5 ارب ڈالر تک چلے گئے۔ اگر منافع کے لحاظ سے دیکھا جائے تو 2004ء بہترین سال رہا جب اس بینک نے نیٹ آمدن کی مد میں 3.28 کروڑ ڈالر رہی۔ اس سال ریٹرن آن ایکوئٹی کی شرح 33.6 فیصد تک پہنچ گئی جو کہ بحران سے پہلے کے دور کے مشکل حالات میں ایک شاندار کامیابی تھی۔
(نوٹ برائے ریٹرن آن ایکوئٹی: پرافٹ اردو میں ہم ریٹرن آن ایکوئٹی کا حساب مخصوص مدت میں نیٹ آمدن کو آغاز مدت یا گزشتہ اختتام مدت سے شمار کی گئی مجموعی ایکوئٹی پر تقسیم کرتے ہیں۔)
اُس وقت بینک کی سربراہی کراچی گرامر اسکول اور لندن اسکول آف اکنامکس کے گریجوایٹ زبیر سومرو کر رہے تھے جنہوں نے 1971ء میں سٹی بینک کراچی سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور 1981ء میں ترقی پاتے ہوئے وہ کارپوریٹ بینکنگ کے پہلے مقامی سربراہ تعینات ہوئے۔ (اس سے قبل یہ عہدہ امریکیوں کے پاس رہتا تھا)
پاکستان، مشرق وسطیٰ اور یو کے میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے بعد 1997ء تا 2000ء زبیر سومرو 3 سال تک نجکاری کے اثرات سے باہر نکلتے ہوئے یونائیٹڈ بینک کے چیئرمین اور صدر تعینات رہے۔ فروری 2000ء میں وہ دوبارہ سٹی بینک سے منسلک ہو گئے جہاں وہ 8 سال کنٹری ہیڈ کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے۔
(زبیر سومرو کا تعلق سومرو خاندان سے ہے۔ ان کے والد الہٰی بخش سومرو قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اور ان کے رشتہ دار بھائی میاں محمد سومرو سینیٹ کے سابق چیئرمین رہ چکے ہیں)
عالمی مالیاتی بحران نے سٹی بینک کے دنیا بھر میں آپریشنز کو نقصان پہنچایا۔ خوش قسمتی سے اس سے کچھ ماہ قبل زبیر 60 برس کی عمر میں مارچ 2008ء میں ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر چکے تھے اور ان کے بعد آنے والے عارف عثمانی کو زوال کے اس دور کا سامنا کرنا پڑا۔
مالیاتی بحران کے بعد کا سفر
سٹی بینک پر کم و بیش عالمی مالیاتی بحران کے اثرات باقی بینکنگ سیکٹر کی طرح ہی مرتب ہوئے۔ لیکن چونکہ سٹی بینک کا ہیڈ کوارٹر امریکہ میں واقع تھا اس لئے اسے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد اس بینک کو امریکی خزانے سے 45 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ حاصل کرنا پڑا۔
بیلنس شیٹ پر سٹی بینک پاکستان کے زوال کی کہانی کافی مایوس کن ہے۔ 2006ء میں بینک کے متاثر ہونے کی شرح (مجموعی قرضوں میں سے غیر وصول شدہ قرضے) 1.1 فیصد تھی جو اگلے سال بڑھ کر 2.1 فیصد ہو گئی۔ تاہم 2010ء تک یہ شرح 21 فیصد پر پہنچ گئی اور 2012ء میں یہ شرح 25.4 فیصد ہو گئی۔
ان اثرات کے بعد سٹی بینک کیلئے اپنے نظام میں تبدیلی کرنا ناگزیر ہو گیا۔ 2009ء میں بینک نے اپنا صارفین کو قرضہ جات کی فراہمی کا پورٹ فولیو بینک اسلامی کو فروخت کر دیا اور اس کے بعد 2012ء میں بینک کی ریٹیل برانچیں حبیب بینک کو فروخت کر دی گئیں۔
اُس وقت مارکیٹ کی زوال پذیر صورتحال کے پیش نظر ایسا گمان ہوتا تھا کہ شاید سٹی گروپ (جس کے عالمی منافع کی شرح پاکستان میں کبھی بھی 0.2 فیصد سے زیادہ نہیں رہیں) اپنی باقی شاخیں بھی فروخت کر کے ملک سے چلا جائے گا۔
لیکن بینک کی جانب سے ایسا اقدام نہیں کیا گیا۔ اس کی بجائے انہوں نے پاکستان میں کنزیومر بینکنگ میں انقلاب برپا کرنے کی خواہش کے ساتھ اپنے حجم میں کمی واقع کی اور اپنا کاروبار سمیٹ کر بینکنگ کے بنیادی اقدامات پر جیسا کہ بڑے عالمی کلائنٹس، بڑے مقامی مالیاتی اداروں، سرکار کی ملکیت ادارے اور حکومت کو کارپوریٹ اور انویسٹمنٹ بینکنگ کی سہولیات فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کر لی۔
پاکستان میں سٹی بینک کا بنیادی کاروبار بڑی کثیر الاقوامی (ملٹی نیشنل) کمپنیوں کے مقامی اداروں کے ساتھ تعلقات بحال رکھنا ہے۔ دسمبر 2019ء میں سٹی بینک پاکستان کے ملٹی نیشنل بزنس کے سربراہ عامر مسعود نے ایک پریس ایونٹ میں کہا ’’ہمیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دوڑ میں مارکیٹ لیڈر کی حیثیت حاصل ہے۔ (پاکستان میں کام کرنے والی) تقریباََ 70 سے 80 فیصد ملٹی نیشنل کمپنیاں ہمارے ساتھ بینکاری کرتی ہیں۔‘‘
یہ کاروبار اُن صارفین کو محض ڈپوزٹس اور قرضہ جات کی فراہمی پر مشتمل نہیں بلکہ یہ بینک بیرونی زرمبادلہ کی ترسیل بھی کرتا ہے جو کہ بینک کیلئے ایک پرکشش کاروبار ہے۔ 30 ستمبر 2019ء کو ختم ہونے والے 12 ماہ کے مطابق اس بینک نے بیرونی زرمبادلہ کی ترسیل کی مد میں 2.7 ارب روپے کمائے جو مجموعی بینکنگ سیکٹر کے بیرونی زرمبادلہ کے کاروبار کے 10 فیصد سے زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ انویسٹمنٹ بینکنگ کا کاروبار جس میں یہ بینک اپنے کلائنٹس کو گروی اور دیگر معاملات میں مشاورت فراہم کرتا ہے۔ ندیم لودھی کا کہنا تھا ’’سب سے پہلے ہم نے ٹیلی نار کو تعمیر بینک خریدنے میں معاونت فراہم کی اور اس کے بعد ہم نے آنٹ فنانشل کی ٹیلی نار مائیکرو فنانس بینک میں حصص کیلئے معاونت کی۔ اس کے علاوہ ہم نے شنگھائی الیکٹرک کو کے الیکٹرک کی خرید میں مدد فراہم کی۔‘‘
سٹی بینک کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ (تقریباََ 62.5 فیصد) پرانی طرز کے ڈپوزٹس اور قرضہ جات کی فراہمی ہے۔ جبکہ سٹی بینک کے قرضہ جات کا پورٹ فولیو حکومتی بانڈز پر مشتمل ہے جس میں یہ بینک سرگرم مارکیٹ میکر ہے۔ اس بیک کے کارپوریٹ قرضہ جات کی فراہمی کا پورٹ فولیو گزشتہ 2 سال میں دوگنا ہو گیا ہے اور 30 ستمبر 2019ء تک اس کا حجم 54.3 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
متاثر کن امر اس کے منافع کے دو اعداد و شمار ہیں۔ 30 ستمبر 2019ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں نیٹ آمدن نے 3.28 کروڑ ڈالر کا سابقہ ریکارڈ توڑ دیا اور امید ہے کہ 2019ء کے مکمل مالیاتی اعداد و شمار کے بعد یہ 2004ء کا ریکارڈ بھی توڑ دے گی۔ زیادہ متاثر کن امر ریٹرن آن ایکوئٹی ہے جو اسی مدت میں 44.6 فیصد تک جا پہنچی۔ دستیاب معلومات کے مطابق دو عشروں میں یہ بینک کی سب سے بلند شرح ہے۔
اس بینک نے جیسے جیسے اپنی بیلنس شیٹ کو درست کرنا شروع کیا یہ تمام پیش رفت بھی ہوتی رہیں۔ غیر وصول شدہ قرضوں کا حجم بھی کم ہو کر 4.7 فیصد رہ گیا جس کی وجہ قرضہ جات کی فراہمی میں اضافہ اور غیر وصول شدہ قرضہ جات میں کمی ہے۔
نئی منزل؟
پاکستان میں سٹی بینک کے تجربات سے سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ اپنے مرکزی کاروبار سے منسلک رہا جائے اور ایسے کاروبار سے دور رہا جائے جو دیکھنے میں تو پرکشش نظر آتے ہیں لیکن ان کا انتظام چلانا انتہائی مشکل ہو۔ گو کہ سٹی بینک پاکستان کی انتظامیہ آنے والے برسوں میں اپنی حکمت عملی میں کسی قسم کی ممکنہ تبدیلیوں کا تذکرہ نہیں کرتی لیکن اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتظامیہ اپنی حکمت عملی سے تاحال مطمئن ہے۔
جیسے جیسے حکومت زیادہ نجکاری ترسیلات پر توجہ دے رہی ہے غالب امکان ہے کہ یہ بینک ایک مرتبہ پھر حکومت پاکستان کیلئے انویسٹمنٹ بینکر کے طور پر معاونت کر سکتا ہے اور کئی بڑی ترسیلات کا سبب بن سکتا ہے۔ اور جیسے جیسے اس کے صارفین پاکستان میں اپنے کاروباروں کے حجم میں اضافہ کر رہے ہیں اس کے کارپوریٹ قرضہ جات کی فراہمی کا پورٹ فولیو حکومتی قرضہ جات کے ذریعے وسیع ہو سکتا ہے۔
ایک حقیقت جو تبدیل نہیں ہوئی وہ یہ ہے کہ جب تک اس بینک کا کوئی بڑا امریکی حریف (جے پی مورگن) پاکستان میں قدم رکھنے کا فیصلہ نہیں کر لیتا سٹی بینک کا پاکستانی مالیات نظام میں اثر برقرار رہے گا۔