یکم مئی 2018 کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ٹیلی کام پالیسی 2015 کی ہدایات کے مطابق، ڈیوائس آئڈینٹیفیکیشن، رجسٹریشن و بلاکنگ سسٹم (ڈی آئی آر بی ایس) جاری کیا اور یہ سسٹم اگلے چند ماہ میں آپریشنل بھی ہو گیا۔

آپ کوغالباً وہ دن یاد ہوں گے جب آپ کو پی ٹی اے کی جانب سے 8484  سے ایک تسلسل کے ساتھ پیغام موصول ہوا کرتا تھا۔ ڈی آئی آر بی ایس کی اہمیت دوبارہ اس وقت عیاں ہوئی جب پی ٹی اے نے یہ اعلان کیا کہ 15 جنوری 2019 تک غیر مصدقہ سم کارڈ یا آئی ایم ای آئی نمبر کے حامل موبائل فون بند کر دیے جائیں گے چناں چہ ایسے فون ڈی آئی آر بی ایس کے تحت رجسٹر کروا لیے جائیں تاکہ بلاکنگ سے بچا جا سکے۔

مختلف رپورٹوں کے مطابق، پی ٹی اے نے غیر رجسٹرڈ موبائل فونوں کو بند کرنے کا سلسلہ 16 جنوری سے شروع کیا جس کے باعث ایک اور بحث شروع ہو گئی کہ آیا یہ فون بلیک مارکیٹ میں کھولے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ پرافٹ نے اس کہانی پر گہرائی میں جا کر کام کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی اے کے بلاکنگ کے نظام کو دھوکہ دینا ناصرف ممکن ہے بلکہ ایسے فونوں کو دوبارہ آپریشنل کرنا آسان ہے جو سم کارڈ اور آئی ایم ای آئی نمبر کے ساتھ موزوں نہیں تھے۔

مزید پڑھیں: ڈیوٹی فری موبائل فونز درآمد کرنے کے لیے بائیومیٹرک تصدیق لازمی ہو گی

اس کے بعد یہ آپشن دی گئی کہ ہر پاکستانی بیرون ملک سے اپنے ساتھ ایک امپورٹڈ فون لا سکتا ہے جس پر ڈی آئی آر بی ایس کے تحت کسٹمز ڈیوٹی عائد نہیں ہوگی، یہ نظام دوبارہ خبروں میں واپس آیا اور آخری بار پی ٹی اے نے یہ پیشکش واپس لے لی۔

ڈی آئی آر بی ایس ایک ایسا نظام ہے جو رجسٹریشن کے ذریعے ایک فون کو ہینڈسیٹ کی قیمت کے مطابق کسٹمز ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی ادائیگی کے بعد پی ٹی اے کے ریکارڈ پر لے آتا ہے۔ تاہم، اس کہانی میں اور بہت کچھ ہے اور یہ سب چٹ پٹا نہیں ہے۔

ڈی آئی آر بی ایس کا پس منظر

اس نظام کو متعارف کروائے جانے کا مقصد دراصل ان خطرات سے پیش آنا تھا جو ملک میں غیر قانونی موبائل فونز کے استعمال کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔ اس نظام کا مقصد غیر قانونی، غیرمصدقہ اور ٹیکسوں کی ادائیگی کے بغیر موبائل فونز اور آلات کی تصدیق کرنا، ان کا کھوج لگانا اور حوصلہ شکنی کرنا تھا۔ یہ کسی بھی سیلولر نیٹ ورک پر فعال ڈیوائسز کی توثیق کرتا ہے اور اگر کوئی نئی ڈیوائس ایکٹیویٹ کی جاتی ہے تو اس کی بھی نگرانی یقینی بنائی جاتی ہے۔

اس نوعیت کا دو جہتی تصدیقی عمل اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ موبائل فون  فروخت کے لیے پیش کیے جانے سے قبل درحقیقت پاکستان درآمد کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے باضابطہ ایک قانونی راستہ ہے اور ممکن ہے کہ آپ آسان طریقے سے کسی چھوٹی موٹی دکان سے اصل چارجر اور ڈبے کے بغیر نہایت مناسب قیمت میں فون خریدنے میں کامیاب ہو جائیں۔

ایک موبائل سیٹ جب قانونی طریقے سے درآمد کیا جاتا ہے تو اس کی درآمد پر  کسٹمز ڈیوٹی اور متعلقہ ٹیکس پہلے سے اداشدہ ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی انٹرنیشنل موبائل ایکوئپمنٹ آئیڈنٹٹی (آئی ایم ای آئی) نمبر بھی پی ٹی اے کے ساتھ رجسٹرڈ ہو جاتا ہے۔

تاہم، بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ فونز خریدے تو معمول کے ذرائع سے ہی جاتے ہیں لیکن ان کے آئی ایم ای آئی نمبرز رجسٹرڈ نہیں ہوتے کیوں کہ یہ فون انفرادی طور پر ملک میں لائے جاتے ہیں، مثال کے طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانی وطن واپس لوٹتے ہے اور وہ جب اپنے اہلخانہ سے ملاقات کرتے ہیں تو ان کے پاس ایسے موبائل فون ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد اگرچہ زیادہ نہیں ہے تاہم اس کے باوجود موبائل فونز کی ایک مناسب تعداد سمگل شدہ تو نہیں ہوتی لیکن وہ پی ٹی اے سے رجسٹر بھی نہیں ہوتی۔ تاہم، ایسا کوئی بھی فون پی ٹی اے کے ساتھ ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے اور اس کا آئی ایم ای آئی نمبر ٹیکسز ادا کر کے رجسٹر کروایا جا سکتا ہے اور ڈی آئی آر بی ایس پر معلومات اپ لوڈ کی جا سکتی ہیں۔

 مزید پڑھیں: 75 فیصد پاکستانی موبائل فون، 35 فیصد انٹرنیٹ، 17فیصد سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں: رپورٹ

دوسری جانب مشکوک ذرائع سے درآمد کیے جانے والے فون رجسٹرڈ نہیں ہوتے اور بالآخر یہ مارکیٹ میں ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی ادائیگی کے بغیر  فروخت کے لیے دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ ایسے کسی بھی فرد کے لیے نہایت کم قیمت ہوتے ہیں جو یہ جانتے بوجھتے ہوئے اسے خریدتا ہے کہ یہ سمگل شدہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پی ٹی اے کے پاس ان کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا اور اتھارٹی ان کے استعمال کے بارے میں معلوم نہیں کر سکتی، ان فونز کے مجرمانہ سرگرمیوں میں استعمال ہونے کا امکان غیرمعمولی طور پر زیادہ ہوتا ہے۔

ڈی آئی آر بی ایس سسٹم موخرالذکر نوعیت کے موبائل فونوں کے لیے نفاذ میں لایا گیا تاکہ ان کا ملک میں استعمال ناممکن ہو جائے۔ تاہم، اس سسٹم کے تحت کیے گئے اقدامات کا اثر یہ ہوا کہ وہ صارفین جن کے فون ان مسائل کا شکار نہیں تھے، ان کے فون بھی بلاک ہو گئے۔ قانون کے پابند شہریوں نے یہ سوچا کہ وہ ایسا فون خرید رہے ہیں جس کے قانونی تقاضے پورے کیے جا چکے ہیں لیکن ان پر بعدازاں فون بلاک ہونے پر یہ انکشاف ہوا کہ یہ سمگل شدہ تھا۔

چناں چہ نظری تناظر میں بات کی جائے تو دبئی میں مقیم آپ کا بھائی آپ کو ایک برانڈ نیو آئی فون تحفے میں دیتا ہے، اس میں سے اپنی یو اے ای کی سم نکالتا ہے اور آپ کی مقامی سم ڈال دیتا ہے اور موبائل شاندار طور پر کام کرنے لگتا ہے لیکن کچھ ہی عرصہ گزرتا ہے کہ یہ پی ٹی اے کی نظروں میں آجاتا ہے  اور آپ کا فون لغوی معنوں میں ایک فینسی، چمکدار اور نہایت مہنگی اینٹ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔

اگر ایسا ہو تو آپ کیا کریں گے؟ ظاہر ہے، آپ پی ٹی اے سے رابطہ قائم کریں گے جو آپ کو آگاہ کرے گا کہ فون کی رجسٹریشن فیس 15 ہزار روپے ہے۔ آپ اگر یہ رقم دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تو آپ مشکل میں پھنس چکے ہیں۔ کوئی بھی ایک بلاک ہو چکا فون نہیں خریدنے نہیں جا رہا اور آپ کی بہتری اسی میں ہے کہ آپ ایک چھوٹا، سستا فون خرید لیں تاکہ کال کرنے اور میسیج ارسال کرنے میں آسانی رہے  اور اسے ڈیٹا ہاٹ سپاٹ کے طور پر استعمال کریں تاکہ اپنے ان رجسٹرڈ فون پر واٹس ایپ اور دیگر فیچرز استعمال کر پائیں۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ درآمد شدہ فون پر ٹیکس کا اطلاق ان کی حقیقی فروخت کی قیمت پر کیا جاتا ہے اور پرانے موبائل کی قیمت پر نہیں۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سیکنڈ ہینڈ مارکیٹ سے کوئی فون خریدتا ہے یا اسے اس کا کوئی رشتہ دار یا دوست تحفہ میں موبائل دیتا ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ موبائل یا اس کا ماڈل کس قدر پرانا ہے کیوں کہ اس پر واجب الادا ٹیکس کا تعین اس کی اصل قیمت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔

موبائل فونز پر کسٹمز اور ٹیکس ڈیوٹیز گزشتہ ایک برس کے دوران تین بار تبدیلی کے عمل سے گزری ہیں، 12 مارچ، 10 جولائی اور 15 ستمبر کو ایک سال کے دوران تین پالیسیاں آئیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، ذیل میں دیے گئے جدول میں موبائل فونز پر عائد ٹیکسز اینڈ ڈیوٹیز کی شرح بیان کی گئی ہے:

قیمتوں میں اس اتار چڑھائو کے باوجود، ڈی آئی آر بی ایس کے دائرہ کار میں بہت سے شعبہ جات آتے ہیں۔ یہ بھی ایک بحث ہے کہ کیا ڈی آئی آر بی ایس حقیقت میں سمگلنگ یا موبائل فونز کی غلط طریقوں سے سمگلنگ روکنے میں موثر رہا ہے؟ اس بارے میں ہم اگلے باب میں بات کریں گے۔

ڈی آئی آر بی ایس اپنے متعین کردہ بیش تر اہداف حاصل کرنے میں ناکام کیوں رہا؟

ڈی آئی آر بی ایس کا ایک بنیادی مقصد موبائل فونز کی غیرقانونی تجارت کو  روکنا تھا جن میں ان کی غیرقانونی امپورٹ کے علاوہ چوری اور راہزنی سے ان کو سیکنڈ ہینڈ موبائل مارکیٹ تک پہنچنے سے روکنا مقصود تھا۔ ان دونوں محاذوں پر حقیقت میں معاملہ یہ ہے کہ ڈی آئی آر بی ایس ناکام رہا ہے۔

پرافٹ نے اس سے قبل بھی ایک تفصیلی فیچر کیا ہے کہ کس طرح پی ٹی اے کی جانب سے بلاک کیے گئے آئی ایم ای آئی نمبرز کو بلیک مارکیٹ میں ان بلاک کیا گیا۔ اب زیادہ شدید پابندیوں کے ساتھ قوانین کو بائی پاس کرنے کے طریقہ کار بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔

سمارٹ لنک ٹیکنالوجیز کے ڈائریکٹر محمد احمد بٹ نے پرافٹ سے بات کرتے ہوئے کہا، زیادہ مہنگے فونز میں ایک سے زیادہ سم سلاٹس ہوتی ہے اور حتیٰ کہ آئی فون میں ایک ای سم بھی ہوتی ہے۔ ہم مثال کے طور پر کہتے ہیں، ایک ڈیلر دو یا تین مختلف فونز سے آئی ایم ای آئی نمبر حاصل کرتا ہے، مثال کے طور پر ایک فون میں ایک سم اور اسے ایک فون کے طور پر رجسٹر کروا لیتا ہے۔ چناں چہ لوگوں کی اکثریت محض ایک سم ہی استعمال کرتی ہے یا ان کو ایک سم چالو کروانے کے لیے بہت زیادہ پیسے نہیں خرچنا پڑتے، چناں چہ یہ ان کا اولین انتخاب ٹھہرتا ہے۔

مزید پڑھیں: درآمد شدہ موبائل فونز پر ریگولیٹر ڈیوٹی میں 50 فیصد تک کمی کی تجویز

پی ٹی اے ان پیشرفتوں کے حوالے سے آگاہ رہتا ہے، تاہم، اس نے اب ان سرگرمیوں کے تدارک کے لیے یہ کیا ہے کہ مختلف آئی ایم ای آئی نمبر سے مختلف ماڈل کی رجسٹریشن کو غیرقانونی سرگرمی قرار دے دیا ہے۔ پی ٹی اے نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی اے فعال انداز سے آڈٹ کر رہا ہے اور ایسے تمام غیر مصدقہ آلات کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ ایسے معاملات قانونی کارروائی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کیے جا  رہے ہیں۔ پی ٹی اے پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ ایس ایم ایس کے ذریعے بھی تمام صارفین کو یہ یقین دہانی کرواتا رہا ہے کہ وہ خریداری کرتے وقت اپنے موبائل کا آئی ایم ای آئی نمبر دیکھ لیں اور 8484 پر ایس ایم ایس کر کے، پی ٹی اے کی ویب سائٹ یا اینڈرائیڈ ایپ کے ذریعے تصدیق بھی کر لیں۔

پی ٹی اے کے بیان میں مزید کہا گیا ہے، جب صارف اس طریقہ کار کے تحت آئی ایم ای آئی نمبر وصول کرتا ہے تو سسٹم آئی ایم ای آئی نمبر کے سٹیٹس کے ساتھ ہی اس موبائل کا ماڈل اور کمپنی کی تفصیلات فراہم کر دیتا ہے جس سے یہ آئی ایم ای آئی نمبر تعلق رکھتا ہے۔ ماڈل سے متعلق اضافی معلومات کے باعث استعمال کنندہ یہ تصدیق کرنے کے قابل ہو جاتا ہے کہ آیا موبائل جینوئن ہے یا اس کے ساتھ چھیڑخانی کی گئی ہے جیسا کہ مختلف ماڈل کا آئی ایم ای آئی اصل ڈیوائس پر کاپی ہوتا ہے۔

ایک ٹیلی کام آپریٹنگ کمپنی سے تعلق رکھنے والے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ وضاحت کی کہ مارکیٹ میں اب بھی موبائل فون چوری ہو رہے ہیں اور فروخت کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، واحد فرق یہ ہے کہ ان موبائلز کو مقامی مارکیٹ میں فروخت کرنے کی بجائے بیرون ملک سمگل کر دیا جاتا ہے۔ یہ چوری شدہ فون صرف پاکستان میں ہی کام نہیں کرتے۔ یہ دیگر تمام مقامات پر کام کرتا ہے۔

تاہم، اگر ٹیکس کے تناظر میں اس صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو پی ٹی اے کے مطابق، ڈی آئی آر بی ایس نے شاندار کردار ادا کیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، پی ٹی اے نے آن ریکارڈ یہ کہا ہے کہ مالی سال 19-2018 کے دوران ایک کروڑ سے زیادہ موبائل فونز درآمد کیے گئے اور ڈی آئی آر بی ایس کی وجہ سے 28.8 ارب روپے کا ٹیکس جمع ہوا۔ اسی طرح جنوری اور اپریل 2019 کے دوران قریباً 7.6 ملین فونز درآمد کیے گئے اور حکومت کو ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی مد میں 15.1 ارب روپے کی آمدن ہوئی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موبائل فونز کی قانونی درآمد میں اضافہ ہوا ہے۔

2019-20 کے مالی سال کے اعداد و شمار فی الحال دستیاب نہیں ہو سکے لیکن موبائل فون وینڈرز کے ساتھ ساتھ ریگولیٹری اتھارٹیز میں یہ اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ اس سسٹم کی باعث ٹیکس کی وصولی میں اضافہ ہوا ہے، چناں چہ یہ وہ واحد پہلو ہے جہاں ڈی آئی آر بی ایس حکومت کی جانب سے تعریف کا مستحق ہے۔ پرافٹ کو دیے گئے پی ٹی اے کے بیان کے مطابق، اس سسٹم کی لانچنگ کے بعد گزشتہ برسوں کی نسبت قانونی درآمد میں اضافہ ہوا ہے۔ 2019 میں مجموعی طور پر 28.02 ملین موبائل فونز (16.28 ملین مکمل یونٹ اور 11.74 ملین مقامی طور پر اسمبل کردہ) درآمد کیے گئے۔ جب کہ 2018 میں مجموعی طور پر 17.26 ملین موبائل فونز (12.06 مکمل یونٹ اور 5.2 مقامی طور پر اسمبل کردہ) درآمد کیے گئے۔

مزیدبرآں، فور جی موبائلز کا استعمال جنوری 2018 میں 16 فی صد تھا جو دسمبر 2019 میں بڑھ کر 31 فی صد ہو گیا۔ جب کہ جنوری 2018 میں 19 فی صد تھری جی موبائل فون استعمال ہو رہے تھے، یہ شرح دسمبر 2019 میں کم ہو کر 13 فی صد ہو گئی۔ اس رجحان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ استعمال کنندگان تھری جی موبائل فونز پر فور جی موبائل فونز کو ترجیح دے رہے ہیں۔

مسائل

ڈی آئی آر بی ایس جب لانچ کیا گیا تو پی ٹی اے نے ایک ایمنسٹی پالیسی لاگو کی کہ پاکستان میں 15 جنوری سے پہلے سے استعمال ہو رہے موبائل فون استعمال ہوتے رہیں گے لیکن وہ موبائل جو اب تک رجسٹرڈ نہیں ہوئے (یا جن کے آئی ایم ای آئی نمبر درست نہیں) ان میں سم کارڈ ڈالا جائے گا اور یوں یہ موبائل فون استعمال کرنے والے صارف کی تفصیل رجسٹر ہو جائے گا۔ اگرچہ  آئی ایم ای آئی نمبر کو پانچ مختلف سم کارڈز کے ساتھ رجسٹر کرنے کی اجازت دی گئی کیوں کہ اس وقت اس حوالے سے کوئی آگاہی مہم نہیں چلائی گئی تھی، صارفین کی اکثریت ایک سے زیادہ نمبرز پر اپنا فون رجسٹرڈ نہیں کروا سکتی تھی جو پہلے سے استعمال ہو رہے تھے۔

قصہ مختصر، جب یہ غیر قانونی آئی ایم ای آئی نمبر بلاک کیے گئے تو ایسے استعمال کنندگان جن کے موبائل فونز کو ان کے سم کارڈ کے ساتھ ہم آہنگ کیا گیا تھا، اب انہیں اپنا نمبر تبدیل کرنا تھا یا سیکنڈ ہینڈ مارکیٹ میں سمارٹ فون فروخت کرنا تھا تو اب یہ فون کام نہیں کرے گا۔ ایسے آئی ایم ای آئی محض ایک سم کارڈ کے ساتھ ہی کام کریں گے جو ڈی آئی آر بی ایس کے عملدرآمد کے وقت آپریشنل تھی۔

اس سسٹم کا ایک اور اثر بھی ہوا جو موبائل فون کی قیمتوں سے متعلق تھا۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس پالیسی سے قبل موبائل فونز کے فروخت کنندگان یا درآمدکنندگان جو موبائل فونز غلط راستوں سے درآمد کرتے تھے، وہ ان فونز کی کم قیمت وصول کرتے تھے۔ تاہم، وہ موبائل فون ڈیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز جو اس دور میں بھی قانونی طور پر فون درآمد کرتے رہے، وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ حکومت کا یہ فیصلہ ان کے لیے رحمت ثابت ہوا ہے۔

 سمارٹ لنک ٹیکنالوجیز کے ڈائریکٹر محمد احمد بٹ، حفیظ سنٹر میں چین کی معروف موبائل فون کمپنی کے آفیشل ڈسٹری بیوٹر، ہول سیلر اور ریٹیلر ہیں، کہتے ہیں، چینی موبائل درآمد کرنے والے موبائل فون آپریٹرز کے لیے کورونا وائرس ایک سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں کمی ابتدائی طور پر ایک مثبت خبر تھی۔ حکومت نے جب ٹیکس کم کیے تو میں اپنی ابتدائی سرمایہ کاری میں مزید موبائل فونز خرید سکتا تھا کیوں کہ میری لاگت کم ہو گئی تھی۔ میں اسی طرح جب انہیں کم قیمت پر فروخت کرنے کی استطاعت رکھتا تھا تو جارحانہ انداز سے مارکیٹنگ بھی کر سکتا تھا جس سے کاروبار میں مدد حاصل ہوتی۔

مزید پڑھیں: وفاقی بجٹ میں موبائل فونز کی درآمد پر ویلیو ایڈیشن ٹیکس کے خاتمے کی تجویز

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں کام کر رہے ایک اور دکان دار کہتے ہیں کہ ان کے کاروبار میں درحقیقت بہتری آئی۔ کچھ صارفین درحقیقت وہ تھے جنہیں اپنے موبائل تبدیل کرنے تھے کیوں کہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ سسٹم کب لاگو ہوا یا وہ سادہ طور پر یہ سوچ رہے تھے کہ ٹیکس کی رقم اس قدر زیادہ ہے کہ نیا فون خریدنا ممکن ہی نہیں۔ انہوں نے محمد احمد بٹ کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا، ٹیکسوں میں کمی کے باعث ہمارے لیے تجارت کرنا آسان ہو گیا ہے اور صرف موبائل فونز پر ہی نہیں جن پر ٹیکس کم کیا گیا ہے۔ حقیقت میں یہ معاملہ یہ ہے کہ ہماری لاگت میں کمی آنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اب زیادہ مہنگے فون کم مارجن کے ساتھ فروخت کر سکتے ہیں اور اس کے باوجود منافع کما سکتے ہیں۔ چناں چہ مارکیٹ کے حالات کم از کم ہمارے لیے بہتر ہوئے ہیں۔

تاہم، صارفین نے اس ٹیکسیشن اور رجسٹریشن پالیسی پر یکساں نوعیت کی فکر کا اظہار بھی کیا اور وہ یہ ہے کہ ان پالیسیوں کی وجہ سے موبائل فون مزید مہنگے ہو گئے ہیں۔ پرافٹ نے دکانداروں، طالب علموں، رائیڈ ہیلنگ کیپٹنز، بزنس مینز اور مارکیٹنگ پروفیشنلز سے بات کی اور ان سب نے بہ ظاہر ڈی آئی آر بی ایس کے باعث لاگو کی جانے والی پالیسیوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا، تاہم کچھ کا کہنا تھا کہ یہ ملک کے بہتر مستقبل کے لیے ایک ناگزیر مشکل ہے۔

مول پاکستان سے منسلک ایک پراجیکٹ منیجر کہتے ہیں، میں ایک اپ ڈیٹڈ فون کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی میں اپنے فون کو اس قدر آسانی سے کھو سکتا ہوں چناں چہ مجھے قیمت سے قطع نظر ایک اچھا فون خریدنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اب ظاہر ہے کہ یہ مزید مہنگا ہو چکا ہے۔ تاہم، مجھے اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیوں کہ ملک میں ٹیکس ادا کرنے کی عادت ڈالنے کے لیے کچھ قوانین بھی لاگو ہونے چاہئیں۔

جی نائن اسلام آباد میں ایک تمباکو شاپ کے مالک نے پرافٹ سے بات کرتے ہوئے کہا، موبائل فونز اب ایک ضرورت بن چکے ہیں اور ان کا مقصد صرف کال کرنے تک محدود نہیں رہ گیا۔ ٹیکسوں کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال اور بالخصوص پی ٹی اے نے جب کسی بھی وجہ سے ہمارے فون بند کیے تو یہ محض دردِ سر تھا۔ ایک انسان موبائل فون پر ایک بڑی رقم خرچ کرتا ہے اور وہ ایک روز اس سے چھن جاتا ہے۔ پی ٹی اے محض یہ جانتا ہے کہ فونز کو کس طرح بلاک کیا جائے جیسا کہ جب کوئی دھرنا ہو یا مذہبی چھٹی ہو یا وہ جب یہ محسوس کریں کہ وہ ہم جیسے لوگوں سے مزید رقم نکلوا سکتے ہیں۔ وہ لوگوں کو اس بارے میں بتانے کی رحمت گوارہ ہی نہیں کرتے یا کوئی آگاہی مہم نہیں چلاتے تاکہ لوگوں کو کم از کم یہ تو معلوم ہو کہ وہ ہماری زندگیاں مزید مشکل بنانے کے لیے اب کیا منصوبہ لے کر آ رہے ہیں۔

عوامی رائے سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں، سمارٹ فونز کی قیمتوں میں اضافے کے محض یہ اثرات ہی مرتب نہیں ہوئے کہ لوگ نالاں ہیں بلکہ اس کے نہایت پریشان کن نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔ وزیراعظم کا ڈیجیٹل پاکستان کے حوالے سے تصور بھی خطرے کی زد پر ہے۔ سمارٹ فونز اور آئی او ٹی آلات اس حوالے سے ایک اہم کردار ادا کریں گے لیکن لوگ سمارٹ فون خریدنے کی استطاعت ہی نہیں رکھیں گے یا ان کو درست طور پر استعمال نہیں کر پائیں گے تو ان کے لیے ڈیجیٹل سروسز سے مستفید ہونا کس طرح ممکن ہو پائے گا؟

سمارٹ فونز کی بلاکنگ کے باعث صارفین کو ڈیٹا، انٹرنیٹ، ڈیجیٹل سروسز میں سست روی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ سمارٹ فونز کے دکان دار اپنے کاروبار میں کچھ بہتری دیکھتے ہیں تاہم اس کی رفتار اس قدر نہیں ہے جب پاکستان نے یہ ٹیکنالوجی اختیار کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔

مزید پڑھیں: رواں مالی سال کے 10 ماہ میں موبائل فونز کی درآمدات میں 6.86 فیصد کمی

آزاد ذرائع کے علاوہ پی ٹی اے کی ویب سائٹ سے حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں مارکیٹ اگرچہ اب بھی ترقی کر رہی ہے تاہم 2018 میں اس میں 0.8 فی صد کمی آئی اور 2019 میں اس میں چار اعشاریہ پانچ فی صد کمی آئی۔ موجودہ معاشی سست روی اور موبائل فونوں پر غیرمعمولی ٹیکسوں کے باعث یہ پیش بینی کرنا مشکل نہیں ہے کہ مستقبل میں ترقی کا یہ رُخ کس جانب ہو گا۔

کچھ اور اعداد و شمار ظاہر کیے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر 68 ملین موبائل فون بلیک لسٹ کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے 11.5 فی صد ہینڈسیٹ 15 جنوری 2019 کو بند کیے گئے۔ 16 جنوری 2020 سے اب تک مزید 56.3 ملین موبائل فون بلاک یا بلیک لسٹ کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے 20.5 ملین (36 فی صد) کا آئی ایم ای آئی نمبر غلط تھا جب کہ 34 ملین (60 فی صد) موبائل فون کے آئی ایم ای آئی نمبر تو درست تھے لیکن ان کا دو ماہ کی مقررہ مدت کے دوران ٹیکس ادا نہیں کیا گیا تھا اور 2.3 ملین (چار فی صد) موبائل فون چوری شدہ آئی ایم ای آئی نمبرز کے باعث بلاک کیے گئے۔

چناں چہ اب آگے بڑھنے کا راستہ کیا ہے؟

پرافٹ نے ٹیلی کام آپریٹرز، موبائل فون آپریٹرز اور ایک ماہر معاشیات سے بات کی جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ممکنہ حل بتائے جن سے اول تو ٹیکس آمدن پر فرق نہیں پڑے گا، ڈیٹا کی سکیورٹی میں اضافہ ہوگا اور پاکستانی عوام کے لیے رجسٹریشن اور ڈیجیٹائزیشن کا عمل آسان ہو گا۔ ذیل میں یہ تجاویز دی جا رہی ہیں:

پالیسی کو معطل کرنے کی بجائے پالیسی سے متعلق مسائل حل کیے جائیں

سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ  کسٹمز ڈیوٹی کے بغیر موبائل فون درآمد کرنے کی پالیسی کو منقطع ہی کیوں کیا جائے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے باعث نادرا اور ٹریول ایجنٹوں سے بڑے پیمانے پر ذاتی کوائف چوری ہوئے۔ اس کے بجائے قوانین کو مضبوط کیا جاتا اور ڈیٹا کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کیے جاتے، پی ٹی اے نے ایسا کرنے کی بجائے یہ آسان سمجھا کہ سرے سے پالیسی ہی ختم کر دی۔

اس حقیقت سے قطع نظر کہ قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی و ٹیلی کام  کے علاوہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے بھی یہ پالیسی جاری رکھنے کی تجویز دی، تاہم، ریگولیٹری اتھارٹی نے فیصلہ کیا کہ اس پالیسی کے غلط استعمال کو روکنے کی نسبت اسے سرے سے ختم کر دینا ہی آسان ہے۔

پی ٹی اے کی عدم دلچسپی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اس بارے میں خبریں بھی آچکی ہے اور پی ٹی اے سے تصدیق بھی ہو چکی ہے کہ سم کارڈ وینڈرز کو دی گئی بائیومیٹرک مشینیں ڈیٹا کے لیکیج کا باعث بن رہی ہیں تاہم قریباً 174,000 مشینوں میں سے محض 36 ہزار مشینیں ہی واپس لی گئی ہیں۔

پی ٹی اے نے باقی مشینوں کے لیے ٹیلی کام سیکٹر کو ستمبر تک کا وقت دیا ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ستمبر 2020 تک سم کارڈ خریدنے والوں کا ڈیٹا لیک ہونے کے علاوہ غلط طور پر استعمال بھی ہو سکتا ہے اور اتھارٹی کوئی بھی فوری اور ناگزیر اقدام نہیں کر رہی۔

آگہی سیشن چلانا پی ٹی اے کی ذمہ داری ہے جسے مستقل بنیادوں پر چلایا جانا چاہئے

ٹیکسیشن  میں تبدیلی، سمارٹ فونز کی رجسٹریشن کے عمل میں تبدیلی، ٹیلی کام سیکٹر کو 180 دن سے بند سم دوبارہ جاری کرنے کے حوالے سے اجازت دینا، پی ٹی اے کا یہ ریکارڈ ہے کہ اس حوالے سے کوئی آگاہی مہم نہیں چلائی گئی، حتیٰ کہ ڈیجیٹل دنیا سے واقفیت رکھنے والے صارفین کے لیے بھی ایسی کوئی مہم نہیں چلائی گئی۔

اس بارے میں محض پرافٹ میں ہی نہیں دیگر اشاعتی اداروں میں بھی وقتاً فوقتاً خبریں شائع ہوتی رہی ہیں کہ موبائل فون اور ٹیلی کام کسٹمرز مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں جس کی وجہ ریگولیٹر کا عوام کے ساتھ ابلاغ نہ کرنا ہے۔

پی ٹی اے حکام نے پرافٹ کو ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے ایسے ہی تاثرات کا اظہار کیا، جیسا کہ انہوں نے کہا، پی ٹی اے محض تمام اہم ایشوز پر ہی آگہی مہم نہیں چلاتا بلکہ آپریٹرز کو بھی وقتاً فوقتاً ہدایت کرتا ہے کہ وہ ایسی کمپین چلائیں۔ ڈی آئی آر بی ایس کی لانچنگ کے بعد سے صارفین کو نئے سسٹم کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے متعدد آگاہی کمپینز چلائی گئی ہیں۔ پی ٹی اے موثر انداز سے سماجی میڈیا کے پلیٹ فارمز کو استعمال کر رہا ہے تاکہ صارفین کو ٹیلی کام سے متعلقہ ایشوز کے بارے میں آگاہ  کیا جا سکے۔

حقیقت میں ایسی کسی آگاہی مہم کے بارے میں کوئی شواہد نہیں ملے اور پرافٹ کی اپنی تحقیق میں بھی ایسی کسی آگاہی مہم کے کوئی ثبوت حاصل نہیں ہوئے، صرف اکا دکا ٹویٹس ہی مل پائے اور وہ ایس ایم ایس ہی ملے کہ آپ اپنے شناختی کارڈ پر حاصل گئی سم کارڈز کے بارے میں معلوم کر سکتے ہیں۔

ٹیکسیشن کی قدر کا تعین سمارٹ فون کی اس وقت کی قیمت کے مطابق کیا جانا چاہئے

موبائل فون انڈسٹری بہت زیادہ عدم استحکام کا شکار ہے اور سمارٹ فونز ان چند مصنوعات میں سے ایک ہیں جن کی قیمت میں اس وقت نمایاں فرق پڑ جاتا ہے جب وہ ایک بار ڈبے میں سے باہر نکل آتی ہیں۔ پاکستان میں سیکنڈ ہینڈ موبائلز کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے، یہ اس قدر بڑی ہے کہ حکومت کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ بہت سے غیر ملکی پاکستانی وطن میں مقیم اپنے عزیز و اقارب کے لیے نئے اور استعمال شدہ موبائل فون تحفتاً لے کر آتے ہیں۔

موبائل فونز پر لاگو کی جانے والی کسٹمز ڈیوٹی ان کی حقیقی قیمت کے بجائے مارکیٹ ویلیو کے مطابق ہونی چاہئے۔ اس سرگرمی سے بچنے کے لیے کہ ہر کوئی اپنا موبائل فون رجسٹر کروائے جانے سے قبل اسے استعمال شدہ ظاہر کرنے کی کوشش کرسکتا ہے، چناں چہ ایسا ماڈل جس پر ٹیکس عائد کیا جا رہا ہو، وہ موبائل فون فروخت کی رسید پر دی گئی تاریخ کے بجائے اس کی ریلیز ڈیٹ سے اپ ڈیٹ کیا جائے۔

موبائل فون شاپس پر انوائسنگ سسٹم کی تنصیب

آئی ایم ای آئی نمبر کی نقل کی تخلیق یا مختلف موبائل فونز کے مختلف آئی ایم ای آئی نمبروں کے استعمال کی طرح کے مسائل موجود ہیں، یہ ایک خطرہ ہے اور کچھ ایسی شکایات بھی آئی ہیں جب ایک سے زیادہ صارفین کے موبائل کا ایک ہی آئی ایم ای آئی نمبر تھا یا اس کے موبائل کا ائی ایم ای آئی نمبر پہلے سے ہی کسی دوسرے موبائل پر رجسٹر تھا۔ رجسٹریشن کے مقاصد کے لیے یہ ثابت کرنا ازحد ضروری ہوتا ہے کہ ان صارفین میں سے کس نے دراصل درست آئی ایم ای آئی کے ساتھ فون خریدا اور کس کے فون کا آئی ایم ای آئی نمبر ڈبلیکیٹ یا چوری شدہ تھا۔ ایسے معاملے میں خریداری کی اصل رسید ہی واحد مصدقہ ثبوت رہ جاتی ہے جیسا کہ پاکستان میں رجحان ہے، لوگ رسید زیادہ عرصے تک محفوظ نہیں رکھتے۔

اس مسئلے کا ایک حل تو یہ ہے کہ موبائل فون سیلرز ڈیجیٹلی پرنٹڈ اور ریکارڈڈ رسیدیں جاری کریں۔ اس سے ہو گا یہ کہ پی ٹی اے اور حکومت کے لیے فروخت ہونے والے موبائل فونوں کی تعداد کا ریکارڈ رکھنا ممکن ہو جائے گا اور ان فونز پر ٹیکسز اور کسٹمز ڈیوٹی کا ریکارڈ رکھنا بھی کچھ مشکل نہیں رہے گا۔

پی ٹی اے سے جب اس بارے میں استفسار کیا گیا کہ اس حوالے سے پہلے سے ہی کوئی پالیسی موجود کیوں نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، انوائسنگ کا نظام متعارف کروانا پی ٹی اے کا کام نہیں، تاہم، خریداری اور فروخت کنندگان کی آسانی کے لیے پی ٹی اے نے تین میکانزم متعارف کروائے ہیں تاکہ موبائل ڈیزائسز رجسٹر کروائی جا سکیں جن میں شارٹ کوڈ *8888#، پی ٹی اے کی ویب سائٹ اور تمام موبائل آپریٹرز فرنچائزز، کسٹمر سروسز سنٹرز شامل ہیں۔

فیصلہ سازی کے عمل میں متعلقہ فریقوں کو شامل کیا جائے

پالیسی سازی کے عمل میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں ہونی چاہئے۔ صارفین، ٹیلی کام آپریٹرز، درآمدکنندگان اور موبائل فونز کے تاجر، ریگولیٹری اتھارٹیز اور وزارت ٹیلی کام کے علاوہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی وہ تمام اہم سٹیک ہولڈرز ہیں جو موبائل فون کے استعمال کے تناظر میں پالیسی سازی کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پی ٹی اے تمام فریقین کے نمائندے شامل کر کے ان مسائل سے جان چھڑا سکتی ہے جو اچانک پالیسی سازی کے باعث پیدا ہو جاتے ہیں اور تبدیلی کا عمل ناصرف حکومت کے لیے بلکہ عوام کے لیے بھی آسانی سے مکمل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ٹیلی کام آپریٹرز، موبائل فون وینڈرز اور عوام تمام ہی انکار کرتے ہیں کہ پی ٹی اے نے کبھی پالیسی سازی کے لیے کوئی کوشش کی ہو یا انہیں دعوت دی ہو، تاہم، اتھارٹی تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو مشاورتی عمل میں شامل کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔

پی ٹی اے نے ڈی آئی آر بی ایس پر عملدرآمد سے قبل تمام فریقوں کو مشاورتی عمل میں شامل کیا تھا جن میں موبائل آپریٹرز، حکومت پاکستان، مینوفیکچررز اور دیگر سٹیک ہولڈرز شامل ہیں۔ متعلقہ مشاورت کے بعد ہی تمام قوانین اور ضابطے تشکیل دیے گئے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here