گیس سیس میں کمی، فرٹیلائزر کمپنیوں نے کھاد سستی کردی، لیکن کیا فوائد کسانوں تک پہنچ سکیں گے؟

1352

پاکستان میں کھاد تیار کرنے والی دو بڑی کمپنیوں فوجی فرٹیلائزرز اور اینگرو فرٹیلائزرز نے اپنے یوریا کھاد کی فی 50 کلو گرام بوری کی قیمتوں میں بالترتیب 300 روپے اور 160 روپے کمی کی ہے تاکہ آنے والے سال میں کھانے کی قیمتوں میں کمی واقع ہو سکے۔
قیمتوں میں کمی گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس (Gas Infrastructure Development Cess-GIDC) میں کمی کی وجہ کی گئی۔ حکومت کی جانب سے گزشتہ مہینوں کے دوران GIDC قوانین میں نئی ترامیم کے تحت کیمیائی کھاد اور فیول گیس کی قیمتوں میں 5 روپے فی بوری کمی کی گئی جبکہ اس سے پہلے ان کی قیمت 400 روپے فی بوری تھی۔
GIDC کے 2015ء کے قانون کے تحت حکومت نے 300 روپے فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (mmbtu) اور کھاد تیار کرنے والوں کی فیڈ اسٹاک اور فیول اسٹاک پر 150 روپے فی ملین برٹش تھرمل یونٹ GIDC کا اطلاق کیا ہے۔
سیکیورٹی بروکریج فرم فاؤنڈیشن سیکیورٹیز میں ریسرچ اینالسٹ محمد اشرف اور عثمان عارف نے 31 جنوری کو کلائنٹس کو جاری کئے گئے بیان میں تحریر کیا ’’ہمارا ماننا ہے کہ GIDC میں کمی کھاد تیار کرنے والوں کیلئے ایک بہترین موقع ہے جس سے قیمتوں میں کمی کا امکانات روشن ہیں۔‘‘
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس اقدام سے کھاد تیار کرنے والے شعبے کے منافع جات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اشرف اور عثمان کے مطابق ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ GIDC میں کمی کی شرح لاگت پر اٹھنے والی قیمت کی شرح سے زیادہ تھی۔‘‘
گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس 2011ء میں پاکستان پیپلز پارٹی حکومت نے صنعتی شعبے کے گیس صارفین پر بطور لیوی ٹیکس نافذ کیا تھا۔ اس سے جمع ہونے والی رقم کو ایران پاکستان گیس پائپ لائن جیسے انفراسٹرکچر منصوبوں کیلئے استعمال کیا جانا تھا۔ دسمبر 2013ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے GIDC کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا لیکن 2015ء میں ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں GIDC نافذ کر دیا گیا۔
GIDC نافذ کرنے کی بڑی وجہ بجلی کی طرح گیس کی بھی بڑے پیمانے پر چوری ہے۔ اگر کم سے کم اندازہ بھی لگایا جائے تو سوئی نادرن گیس پائپ لائن (SNGPL) اور سوئی سدرن گیس پائپ لائن (SSGCL) میں گیس چوری کی شرح بالترتیب 11 فیصد اور 13 فیصد ہے۔
2014ء تک پاکستان میں استعمال ہونے والی گیس زیادہ تر ریاستی ادارے اور گیس ڈھونڈنے والی کمپنیاں مقامی سطح پر ہی تیار کرتی تھیں جبکہ ریاستی گیس فراہم کرنے والے ادارے اسے فیکٹریوں، کمرشل مقامات اور گھروں تک پہنچاتی تھے اور نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت گیس چوری کو نظرانداز کرتی رہی۔
2015ء کے آغاز سے پاکستان میں قدرتی گیس کی فراہمی کیلئے قطر سے بڑی مقدار میں ایل این جی درآمد کی جاتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ گیس کی چوری کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب کھاتوں کا حساب رکھنا ہوگا کیونکہ اب اس کی ادائیگی نقد امریکی ڈالر میں کرنا ہو گی جس میں تو بالکل بھی تاخیر نہیں کی جا سکتی۔
آخر ان سب کا کھاد تیار کرنے والوں سے کیا لینا دینا؟ کیونکہ کھاد تیار کرنے والے پاکستان کے 5 بڑے گیس صارفین میں سے ایک ہیں باقی 4 بڑے صارفین گھریلو استعمال کے صارفین، صنعتی یونٹس کیلئے بجلی گھر، بجلی تیار کرنے والے ادارے اور گاڑیوں کیلئے سی این جی اسٹیشنز ہیں۔
حکومت گیس چوری جیسے مسئلہ کو حل کرنے پر یقین نہیں رکھتی بلکہ ان کا تو شاید ماننا ہے کہ جو پہلے ہی اپنی ادائیگیاں بہتر انداز میں کر رہے ہیں ان سے باقی کا بھی وصول کر لیا جائے۔ اس طرح سے حکومت گیس چوروں کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی جن کی وجہ سے اتنا نقصان ہو رہا ہے بلکہ چوری کی گئی گیس کی قیمت وصول کرنے کیلئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جائے گا۔
اسی لئے GIDC کو متعارف کروایا گیا۔ GIDC کے نفاذ سے گیس چوری کی بھرپائی کھاد بنانے والے شعبے سے بطور ٹیکس وصول کی جا رہی ہے اور یہ ٹیکس پورے شعبے کو استعمال کی جانے والی گیس کے حجم کے لحاظ سے ادا کرنا پڑ رہا ہے۔
GIDC کی خامی یہ ہے کہ اس سے کھاد تیار کرنے والوں کی لاگت میں اضافہ ہوگا جس سے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں پر 2 طرح کے اثرات مرتب ہوں گے۔ پہلا اثر یہ کہ اس سے لاگت میں اضافہ جو مہنگائی کے اس دور میں قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گا۔ دوسرا یہ کہ قیمت بڑھنے کے نتیجے میں کسان کم کھاد خریدیں گے جو کم پیداوار کا باعث بنے گا اور خوراک کی کمی اور قیمتوں میں اضافے جیسے مسائل جنم لیں گے۔
لیکن اگر حکومت GIDC کا نفاذ نہیں کرتی تو انہیں اپنے گیس کے درآمدکنندگان کو ادائیگی میں مشکلات پیش آئیں گی جس کے نتیجے میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کا عمل شروع ہو جائے گا جیسا کہ سندھ کے کئی علاقوں میں پچھلے کئی ماہ سے جاری ہے۔
مختصر یہ کہ حکومت مجبور ہے کہ وہ اشیاء خوردنوش کی قیمتوں میں کمی کرے یا اس کو پکانے کیلئے گیس میں کمی کرے۔
جبکہ ابھی گیس چوروں کیخلاف کریک ڈاؤن کی آپشن موجود ہے۔ تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حکومت نسلوں سے چلے آ رہے گیس بحران کے اس مسئلہ کو فوری حل کر سکتی ہے۔ آخر میں کسی تو اس چوری کی گیس کی ادائیگی کرنی ہے اور یہ ادائیگی حکومت کر رہی ہے۔ اور اگر حکومت یہ ادائیگی کر رہی ہے تو اسے کہیں نہ کہیں سے تو یہ رقم اکٹھی کرنا پڑے گی۔ اور یہ رقم اکٹھی کرنے کیلئے GIDC کا انتخاب کیا گیا۔
اسی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ یہ مطالبہ نہیں کر رہے۔ آئی ایم ایف کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ چوری شدہ گیس کی ادائیگی کیلئے رقم خرچ نہ کی جائے اور اگر ایسا کرنا مطلوب ہے تو اسے بلوں کی شکل میں ریاستی اداروں کے ذریعے براہ راست ٹیکسوں کی مد میں وصول کر لیا جائے۔
2 ہفتے قبل وزیراعظم عمران خان کی زیر قیادت حکومت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ گیس سپلائی کی بحالی کو یقینی بنانے کی بجائے اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں کمی کرے گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here