کیا قرضوں کی دلدل میں دھنسے چین ون اور چناب گروپ کی واپسی ممکن ہے؟

چناب گروپ کے قصے میں سبق یہ ہے کہ جب ایک نسبتا جدید اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی کمپنی بہت زیادہ قرض حاصل کر لیتی ہے تو اصل میں وہ اپنے دیوالیہ ہونے کی بنیاد ڈال رہی ہوتی ہے۔ اور یہ بھی سبق حاصل ہوتا ہے کہ جب بینک قرضوں کی فراہمی روک لیتے ہیں تو ایک مکمل طور پر فعال برآمداتی کاروبار نقصان کی جانب گامزن ہو جاتا ہے۔

2088

کپڑا اور اس کی مصنوعات تیار کرنے والی بڑی کمپنی اور پاکستان میں ریٹیل برانڈ چین ون (ChenOne) کی آبائی کمپنی چناب گروپ کی کہانی کچھ نئی نہیں ہے۔ پاکستان کی دیگر اپر مڈل مارکیٹ کی کمپنیوں کی طرح جن کا وسیع حجم ہی ان کے نقصان کا باعث بنا ہو چناب گروپ نے بھی تیزی سے ترقی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن مشرف دور میں قرضوں کی آسان اور وافر دستیابی کے باعث یہ گروپ قرضوں کی دلدل میں دھنس گیا جبکہ 2008ء کا مالیاتی بحران اس گروپ کیلئے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا جس کے اثرات سے چناب گروپ ابھی تک باہر نہیں نکل پایا۔

2008ء کے مالیاتی بحران سے متاثرہ دیگر کمپنیوں کی نسبت چناب لمیٹڈ کے مالکان اپنے کاروبار کی بقاء کیلئے مسلسل کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور گزشتہ ہفتوں میں لاہور ہائیکورٹ میں کمپنی کے لئے دیوالیہ پن پر جاری کاروائیوں میں ہونے والے کچھ مثبت فیصلے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ شاید یہ گروپ بحالی کی راہ پر گامزن ہے۔

ہمارا نیا فیچر: کیا قرضوں کی دلدل میں دھنسے چین ون اور چناب گروپ کی واپسی ممکن ہے؟ خصوصی ویڈیو

اس گروپ نے قرضہ فراہم کرنے والوں کو بحالی کا ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے اور حبیب بینک کی سربراہی میں کئی قرضہ فراہم کرنے والے ادارے نسبتا سازگار شرائط پر قرضوں کی تنظیم نو کے ساتھ اس گروپ کو اپنی قسمت آزمانے کا مزید ایک اور موقع دینے کیلئے تیار نظر آتے ہیں تاکہ یہ ادارہ مالیاتی بحران سے نکل سکے اور اپنے آپریشنز کا دائرہ کار وسیع کرنے کیلئے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔

یہ منصوبہ کارآمد ثابت ہوگا یا نہیں اس بارے میں کچھ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا تاہم یہ صرف اس امر پر منحصر نہیں کہ بینک اس کمپنی کو بیلنس شیٹ کی تنظیم نو کرنے پر آمادہ ہیں بلکہ یہ امر بھی کہ کیا میاں محمد لطیف اور ان کے خاندان نے اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق حاصل کیا ہے یا نہیں۔

چناب گروپ کے قصے میں سبق یہ ہے کہ جب ایک نسبتا جدید اور تیزی سے ترقی کرتی ہوئی کمپنی بہت زیادہ قرض حاصل کر لیتی ہے تو اصل میں وہ اپنے دیوالیہ ہونے کی بنیاد ڈال رہی ہوتی ہے۔ اور یہ بھی سبق حاصل ہوتا ہے کہ جب بینک قرضوں کی فراہمی روک لیتے ہیں تو ایک مکمل طور پر فعال برآمداتی کاروبار نقصان کی جانب گامزن ہو جاتا ہے۔

جدت اور ترقی سے بھرپور ابتدائی سال

موجودہ صورتحال سے اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن چناب گروپ ایک وقت میں پاکستان کی جدید ٹیکسٹائل کمپنیوں میں سے ایک تھا۔

1998ء میں جب انہوں نے لاہور میں اپنے فلیگ شپ اسٹور چین ون (ChenOne) کا آغاز کیا تو پہلی مرتبہ پاکستانی صارفین کو گھریلو استعمال کیلئے کپڑوں کی خریداری کا ایک اسٹور میسر ہوا جو ایک شاندار ویئر ہاؤس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ امریکہ کی بیڈ باتھ اینڈ بیونڈ (Bed Bath & Beyond) کی طرز پر بنے پاکستان کے پہلے ہوم برانڈ اسٹور میں کمپنی کی مصنوعات کو اصلی فرنیچر کے ساتھ اس طرح پیش کیا گیا تھا جس سے صارفین کو یہ اندازہ کرنے میں آسانی پیدا ہوئی کہ یہ مصنوعات ان کے اپنے گھروں میں کیسی لگیں گی۔

چناب گروپ کی ابتداء 1975ء میں ہوئی جب میاں محمد لطیف اور ان کے 3 چھوٹے بھائیوں نے 1950ء سے 1980ء کے دوران پنجاب کے بڑے جاگیردار گھرانوں کی طرح اپنے کاروبار کو بھی ایک نئی تبدیل شدہ سمت سے متعارف کروایا جنہوں نے اپنی آمدن کے سب سے بڑے ذرائع کو کپاس، گنا اور دیگر فصلوں کی کاشت کی بجائے مکمل تیار شدہ مصنوعات بنانے والے صنعتی یونٹس سے وابستہ کر لیا۔

میاں لطیف کا تعلق فیصل آباد اور ملتان کے تقریبا وسط میں واقع ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک زمیندار گھرانے سے ہے۔ 1975ء میں انہوں نے کپاس کی کاشت کے خاندانی کاروبار کو فروغ دیتے ہوئے چناب ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بنیاد رکھی جہاں دھاگہ اور کپڑے کی تیاری کی جاتی تھی۔ کچھ سالوں بعد 1985ء میں اس گروپ کو وسیع کیا گیا اور پہلا کارپوریٹ ادارہ ’چناب فیبرک اینڈ پروسیسنگ ملز لمیٹڈ‘ (Chenab Fabrics and Processing Mills Ltd) کا وجود عمل میں آیا۔ مارچ 1991ء میں اسے غیر مندرج (unlisted) پبلک لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس کے بعد 2000ء میں اس کمپنی کا نام تبدیل کر کے موجودہ نام ’چناب لمیٹڈ‘ رکھا گیا۔

ملک کی دوسری بڑی ٹیکسٹائل کمپنیوں کی طرح چناب کا ہیڈکوارٹر فیصل آباد کے علاقے نشاط آباد میں قائم کیا گیا۔ کپڑا اور ملبوسات تیار کرنے کے یونٹس نشاط آباد میں قائم ہیں اور کپڑا بنُنے کے یونٹس ضلع شیخوپورہ میں کھاریانوالہ اور ضلع ننکانہ صاحب میں شاہ کوٹ کے مقام پر موجود ہیں جبکہ سوت کاتنے کا یونٹ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں واقع ہے۔

اس خاندان کی اگلی نسل سے تعلق رکھنے والے چین ون کے چیف ایگزیکٹو آفیسر میاں کاشف اشفاق کا کہنا ہے ’’ہم نے (ابتداء میں) مقامی مارکیٹ کیلئے کپڑے کی مصنوعات تیار کیں۔ 1985ء میں ہم نے مشرق اقصیٰ میں اپنی مصنوعات کی برآمدات کا آغاز کیا اور اس کے بعد ہم نے اپنی برآمدات کو بڑھاتے ہوئے ہم یورپ اور امریکہ سمیت 42 ممالک تک رسائی حاصل کی۔‘‘

یہ اگلی نسل کے ہی اقدامات تھے جس نے اس کاروبار کو جدت بخشی۔ کاشف کا کہنا تھا ’’میں نے 1997ء میں اس ادارے میں بطور ڈائریکٹر شمولیت اختیار کی اور ہم نے چین ون کا پہلا اسٹور متعارف کروایا۔‘‘ اس ریٹیل چین کے زیر انتظام 48 اسٹورز ہیں جن میں سے کچھ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں واقع ہیں۔

اپنے مرکزی کاروبار کے ساتھ ساتھ اس گروپ کے زیر ملکیت کئی دیگر کاروبار بھی ہیں جن میں سی جی آئی لمیٹڈ متحدہ عرب امارات (including CGI Ltd UAE)، آسٹریلیا میں انٹرفیب (InterFab)، چناب فائبرز لمیٹڈ (Chenab Fibres Ltd)، چین سوفٹ (ChenSoft)، چناب یو ایس اے (Chenab USA)، چین ون ورلڈ وائیڈ (ChenOne Worldwide)، ہاؤس آف چناب (House of Chenab) اور چین ون فاؤنڈیشن (ChenOne Foundation) شامل ہیں۔

2017ء میں بینک دیوالیہ ہونے تک چناب لمیٹڈ کی 70 فیصد آمدن برآمدات اور مقامی چین ون اسٹورز جبکہ تقریبا 30 فیصد تیار ملبوسات کی مد میں ہوتی تھی۔

مشرف دور میں ہونے والی ترقی

1999ء میں جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھالا چناب گروپ اپنے حجم کے اعتبار سے مڈل مارکیٹ کاروبار تھا۔ اس وقت چین ون کے محض 3 اسٹورز تھے جبکہ اسی سال کراچی میں چین ون کا چوتھا اسٹور قائم کیا گیا۔

مشرف کے دور حکومت میں بینکوں کو نجی شعبے کے حوالے کر دیا گیا اور نجی شعبے کو خاص طور پر صنعتی ترقی کے منصوبوں کیلئے قرضوں کی فراہمی کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس دور میں چناب گروپ نے تیزی سے ترقی کا سفر طے کرنا شروع کر دیا۔

30 جون 2001ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں اس گروپ کی مرکزی پبلک لسٹڈ کمپنی چناب لمیٹڈ کی آمدن 3 ارب 40 کروڑ روپے سے زائد تھی۔ اگلے 6 سال میں اس کمپنی کی آمدن میں دوگنا سے زیادہ اضافہ ہوا اور سالانہ 15.7 فیصد کی شرح ترقی کے ساتھ ان کی آمدن مالی سال 2007ء کے اختتام پر 8 ارب 16 کروڑ روپے سے زائد رہی۔

تاہم شرح ترقی کی یہ عمارت قرضوں کی بنیاد پر قائم ہوئی۔ 2001ء میں کمپنی کے ذمہ طویل مدت پر 70 کروڑ روپے کا قرض واجب الادا تھا۔ 2007ء میں قرضوں کا حجم تقریبا 5 گنا اضافے سے 3 ارب 32 کروڑ روپے سے زائد ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ نقد رقم کا بہاؤ بھی یکساں نہیں رہا۔ چناب لمیٹڈ کی 2007ء میں آمدن محض 7 کروڑ 50 لاکھ روپے تھی جو 2001ء کی آمدن سے 13 کروڑ روپے کم تھی۔

پھر بھی اس گروپ کا اور خاص طور پر ان کی ریٹیل چین وسیع ہونے کا سلسلہ نہیں رکا اور انہوں نے پاکستان کے تمام پوش علاقوں اور پنجاب کے چھوٹے میٹروپولیٹن شہروں میں مزید اسٹورز کا افتتاح کیا جہاں انہوں نے نا صرف اپنے اسٹورز قائم کئے بلکہ چین ون ٹاور کے نام سے بڑے شاپنگ مالز اور کمپلیکسز قائم کئے گئے۔ پہلا چین ون ٹاور 2005ء میں ملتان میں قائم کیا گیا جس کے بعد 2009ء میں سرگودھا میں ایک اور عمارت قائم کی گئی۔

قابل دلچسپ بات یہ ہے کہ چین ون نے گل احمد کے آئیڈیا برانڈ سے پہلے اپنی ریٹیل چین کا آغاز کیا۔ چین ون کا آغاز 1997ء میں کیا گیا جبکہ گل احمد نے آئیڈیاز کو 2003ء میں متعارف کروایا۔ گو کہ چناب لمیٹڈ اس وقت ترقی کی بلندیوں پر تھا مگر پھر بھی آمدن کے حوالے سے اس کا حجم گل احمد کے مقابلے میں ایک تہائی تھا اور اسی لئے پاکستان میں نقد رقم کی بنیاد پر ریٹیل چین متعارف کروانے کے منصوبے کیلئے ان کے پاس ذرائع کم تھے۔

سیاسی روابط

صنعتی شعبے میں قدم رکھنے والے دیگر دولتمند زمیندار گھرانوں کی طرح میاں لطیف خاندان کے بھی سیاست میں خاصے گہرے تعلقات ہیں۔ اس خاندان میں کئی ایسے افراد موجود ہیں جو سیاست سے وابستہ رہے یا ابھی بھی سیاسی جماعتوں کے رکن ہیں۔

میاں لطیف کے چھوٹے بھی چوہدری محمد اشفاق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدر ہیں۔ اشفاق اس سے قبل بھی قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں ان کی نمائندگی 1990ء سے ہے جب وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن تھے۔

چوہدری محمد اشفاق 2001ء میں اس وقت کی برسراقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کی جانب سے ضلعی ناظم بھی رہ چکے ہیں۔

انہیں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور وزیراعظم عمران خان کا قریبی رفیق مانا جاتا ہے۔ میاں محمد لطیف کے بیٹے میاں فرحان لطیف بھی پاکستان مسلم لیگ ق کی نمائندگی کرتے ہوئے 2002ء تا 2008ء ٹوبہ ٹیک سنگھ سے نامزد قومی اسمبلی کے رکن رہے۔

میاں لطیف کو 23 مارچ 2004ء کو اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے ان کی صنعتی میدان میں کارکردگی کی بناء پر تمغہ امتیاز سے نوازا۔ اس خاندان نے گجرات کے چوہدری برادران، سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر پرویز مشرف سے قریبی تعلقات استوار رکھے۔ چوہدری محمد اشفاق اور ان کے بیٹے میاں کاشف اشفاق کے وزیراعظم عمران خان سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔

 

حالات سے باخبر ذرائع کا ماننا ہے کہ میاں کاشف اشفاق کو فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اینڈ منیجمنٹ کمپنی (FIEDMC) کا چیف ایگزیکٹو آفیسر ان کے خاندان کے سیاسی روابط کی وجہ سے بنایا گیا۔

اس خاندان کے ان تمام سیاسی روابط سے کسی کو کیا لینا دینا؟ ان پر الزامات عائد کئے جاتے ہیں کہ اس خاندان نے اپنے سیاسی تعلقات استعمال کرتے ہوئے ریاستی بینکوں سے بڑے قرض حاصل کئے اور خود قرض لوٹانے سے جبکہ ریاستی بینک ان کے خلاف کاروائی کرنے سے قاصر رہے۔

مثال کے طور پر 2007ء میں وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کے دور میں میاں لطیف نے بینک آف پنجاب میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے۔ بینک آف پنجاب صوبائی حکومت کے زیرملکیت ہے اور صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ کے پاس اس کے بورڈ کو منتخب کرنے کا اختیار ہے۔

اسی عرصہ میں جب وہ بینک میں بطور ڈائریکٹر تعینات تھے چین ون اور چناب لمیٹڈ نے بینک آف پنجاب سے 60 کروڑ روپے کا قرض وصول کیا۔ جبکہ بینک آف پنجاب کے 1989ء کے قانون کی شق (4)19 کے تحت ڈائریکٹر کو بینک سے کسی قسم کا قرض حاصل کرنے کی ممانعت ہے۔

قانون کی خلاف ورزی اور طاقت کے بے دریغ استعمال پر عموماََ نیشنل اکاؤنٹ ایبلٹی بیورو (نیب) حرکت میں آ جاتا ہے جو حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے متعدد ممتاز سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ بہت سے تاجروں کے خلاف مقدمہ چلانے میں انتہائی متحرک رہا ہے۔ لیکن قانون کی اس خلاف ورزی پر نیب چپ سادھے ہوئے ہے۔

13 اپریل 2013ء کو دی نیوز نے خبر شائع کی کہ میاں محمد لطیف اور ان کی کمپنیاں قرض نا دہندگان ہیں۔ ’’2012ء میں نیب نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر اس معاملے پر کاروائی کا آغاز کیا جبکہ چیئرمین نیب نے اس حوالے سے حکم جاری کیا کہ اس خود ساختہ نادہندگی ہے۔‘‘

نشاط آباد فیصل آباد میں ان کے ایک حریف نے پرافٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’اس حقیقت کے باوجود وہ اپنے قرضوں کی تنظیم نو کیسے کر سکے جبکہ انہوں نے 2000ء سے اب تک بینکوں کو قرضوں کی ادائیگی نہیں کی ہے۔‘‘

چوہدری محمد اشفاق کے صاحبزادے اور چین ون کے سی ای او میاں کاشف اشفاق اپنے کاروبار پر سیاسی حریفوں کی جانب سے عائد الزامات کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے بینک اور چناب گروپ کو سب سے زیادہ قرض کی فراہمی کرنے والے حبیب بینک لمیٹڈ نے دیگر بینکوں کو ہمارے قرضوں کی از سر نو ادائیگی کے نظام پر آمادہ کر لیا ہے۔ میاں کاشف نے کہا ’’2000ء سے پہلے لئے جانے والے تمام قرضوں کی ادائیگی کی جا چکی ہے۔‘‘

کٹھن دور کا آغاز

عالمی مالیاتی بحران کے آغاز اور مشرف دور کے اختتام پر چناب لمیٹڈ اس امر سے لاعلم ہرگز نہیں تھی کہ انہیں قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات درپیش ہوں گی۔ 2009ء کمپنی کی بڑھتی ہوئی آمدن کیلئے سازگار ثابت نہیں ہوا۔ کمپنی کے عہدیداران پہلے سے ہی آنے والے خدشات کو بھانپ گئے اور کمپنی نے 2010ء کی سالانہ رپورٹ میں شیئر ہولڈرز کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان خدشات سے نپٹنے کیلئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

ان خدشات کو بیان کرتے ہوئے یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اگر آپ صرف ایک کیلئے بڑے زور و شور سے منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو آپ زیادہ دیر تک اسے برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔

آخر یہ سب کیسے ہوا؟ خامی کہاں موجود تھی؟ آئیے پہلے اس امر پر روشنی ڈالتے ہیں کہ آخر اس کمپنی پر قرضوں کا بھاری بوجھ کیسے پڑا۔

 

پرافٹ اردو کو دیئے گئے انٹرویو میں کاشف نے اس کمپنی کو درپیش موجودہ مالیاتی مسائل کا تذکرہ کیا۔ ’’ہم نے 2000ء سے 2008ء کے درمیان 8 سے 10 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی، چناب گروپ کو امریکہ میں بطور برانڈ متعارف کروایا اور ہم نے پروسیسنگ ملز کیلئے پاکستان میں اپنے کاروبار کو فروغ دیتے ہوئے سرمایہ کاری کی۔ اس کے علاوہ ہم نے پاور لوم اور سپننگ ملز کا آغاز کیا۔ ہمارا یہ سارا نظام ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا لیکن بڑی سرمایہ کاری ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی۔‘‘

اس کمپنی نے تیزی سے اپنے آپ کو وسیع کرنے کا فیصلہ کیونکر کیا؟ کاشف کا کہنا ہے کہ مشرف دور میں ٹیکسٹائل کا کاروبار منافع بخش تھا۔ ’’برآمداتی کاروبار اپنے عروج پر تھا اور حکومت صنعتوں کے قیام کیلئے نرم شرائط پر قرضے فراہم کر رہی تھی۔ (امریکہ اور یورپ میں) ہمارے ساتھ کام کرنے والے صارفین میں چین اسٹورز اور برانڈز شامل تھے۔ ان کی مطلوبہ ضروریات کافی مشکل تھیں مثال کے طور پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ اور ہمیں (ان مطلوبہ ضروریات کو پورا کرنے کیلئے) بھاری قرض اٹھانا پڑے۔‘‘

عالمی معیشت کی سست رفتاری کی وجہ سے قرضوں پر عائد متغیر شرح سود میں بھی اضافہ ہو گیا۔ میاں کاشف نے مزید کہا ’’ہم نے 7-6 فیصد شرح پر قرض حاصل کئے لیکن اس کے بعد یہ شرح بڑھ کر 14-12 فیصد ہو گئی جس کی وجہ سے بوجھ میں اضافہ ہوا ہم قرضوں کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔‘‘

وہ حصہ جو سمجھ سے بالا ہے

مندرجہ بالا تمام امور و گفتگو کی سمجھ آتی ہے لیکن اس کے بعد جو کہا وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ کاشف کا کہنا تھا ’’بینظیر بھٹو کی وفات کے بعد ہمیں بھاری خسارہ کا سامنا تھا اور اس پر مزید یہ کہ گارنٹیاں اور وارنٹیاں بھی مسلط کر دی گئیں۔‘‘

اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ کمپنی کا یہ کہنے کا مطلب کیا تھا۔ چناب گروپ کے زیادہ تر مینوفیکچرنگ آپریشنز پنجاب میں ہیں اور 27 دسمبر 2007ء کو سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے زیادہ تر اثرات سندھ پر مرتب ہوئے۔ اس کمپنی نے اس کی فیکٹریوں اور گوداموں کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے سرمایہ کاروں کو آگاہ نہیں کیا۔

کراچی میں احتجاج کرنے والوں کے ہاتھ ان کے برآمداتی سامان کو جلائے جانے کی صورت میں ہی کمپنی کو کسی قسم کا نقصان پہنچ سکتا تھا لیکن اس کمپنی نے 2008ء کی مالیاتی رپورٹ میں اس قسم کے کسی واقعہ کا ذکر نہیں کیا۔

2014ء میں ایکسپریس ٹربیون کو دیئے گئے انٹرویو میں میاں لطیف نے کہا کہ کراچی میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں کمپنی ایک آرڈر معینہ مدت تک سپلائی کرنے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے کمپنی کو 5 لاکھ یوروز کا جرمانہ ادا کرنا پڑا۔ گو کہ چناب لمیٹڈ جتنے حجم کی کمپنی کیلئے یہ جرمانہ کافی زیادہ تھا لیکن یہ وجہ بھی کمپنی کے تباہ کن حالات کی ذمہ دار نہیں ہو سکتی۔

چناب لمیٹڈ 2009ء میں آمدن اپنے عروج پر تھی اور اگر روپے کے حساب سے دیکھا جائے تو یہ رقم 9 ارب 9 کروڑ روپے کے قریب بنتی تھی۔ 2010ء میں آمدن کی شرح 2.6 فیصد کم ہوئی جس کے بعد اس شرح میں 50.6 فیصد کمی واقع ہوئی اور 2011ء میں یہ آمدن 4 ارب 37 کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔ کٹھن دور ابھی بھی ختم نہیں ہوا۔ اس کمپنی کی آمدن 2012ء میں مزید 40.4 فیصد کمی کے ساتھ 2 ارب 60 کروڑ روپے تک پہنچ گئی اور 2013ء میں یہ آمدن ایک مرتبہ پھر 16.7 فیصد کمی کے ساتھ 2 ارب 17 کروڑ روپے رہ گئی۔

 

کمپنی کی آمدن میں اس اچانک کمی کی وجہ کیا تھی؟ پرافٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے میاں کاشف اشفاق اس سوال کا جواب براہ راست انداز میں دینے سے قاصر رہے۔

انہوں نے کہا ’’ہماری سیلز میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی، پھر ہمیں توانائی بحران کا سامنا تھا اور ہمارے پروسیسنگ یونٹس کیلئے گیس فراہمی تعطل کا شکار تھی۔ عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے چناب گروپ اپنے کاروبار میں استحکام نہیں لا سکا۔‘‘

یہ سوال ابھی بھی قابل جواب ہے کہ آخر چناب لمیٹڈ کی آمدن میں 2011ء کے بعد سے ہونے والی مسلسل کمی کیوں ہوئی؟ صرف بھاری قرضے ہی اس کی وجہ نہیں ہو سکتے۔ شرح سود میں اضافے سے منافع میں کمی ہوتی ہے لیکن اس کا اثر براہ راست آمدن پر نہیں پڑتا اور فوری انداز میں تو بالکل بھی نہیں۔

اور جہاں تک بات امن و امان کی صورتحال، بجلی اور دیگر مسائل کی ہے تو یہ تمام مسائل حقیقی ہیں جن سے نمٹنا آسان نہیں ہے لیکن چناب لمیٹڈ کیلئے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری کو کم و بیش اسی قسم کے حالات کا سامنا ہے۔ ان تمام مسائل کے باوجود یہ انڈسٹری مجموعی طور پر 2011 میں فائدے میں رہی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے تمام پبلک لسٹڈ ٹیکسٹائل کمپنیوں کے مرتب کردہ مالیاتی اعدادو شمار کے مطابق ان کی آمدن 40.8 فیصد اضافہ سے 713 ارب روپے رہی۔

 

تو چناب لمیٹڈ کی یہ وضاحت کافی نہیں ہے کیونکہ ان تمام مسائل کے باوجود باقی کمپنیوں کے حالات کم و بیش بہتر ہی ہیں۔

آخر پھر اس سب کی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے؟

ناجائز استعمال کے خدشات

اس صنعت سے وابستہ اور خاص طور پر چناب لمیٹڈ کے حریف یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ کمپنی مالی خرد برد میں ملوث ہے اور بیرون ملک اثاثوں کی خرید کیلئے اپنی رقم کو باہر منتقل کر رہے ہیں تاکہ قرض ادا کرنے سے بچ سکیں۔

میاں کاشف ان الزامات کی مکمل طور پر تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’’اگر ہم نے بیرون ملک سرمایہ کاری کرنا یا بیرون ملک رقم منتقل کرنا ہمارا مقصد ہوتا تو ہم ملک میں نہ ہوتے اور نہ ہی حکومت سے ہمارے قرضوں کے از سر نو نظام پر مذاکرات نہ کر رہے ہوتے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’جو لوگ بیرون ملک سرمایہ کاری میں ملوث ہیں وہ اپنی مشینری فروخت کر دیتے ہیں، بینکوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہم تصفیہ کیلئے کوششیں کر رہے ہیں کیونکہ ہم چناب گروپ کو چلانا چاہتے ہیں کیونکہ یہاں 14000 لوگ ملازمت کر رہے ہیں۔‘‘

بیرون ملک سرمایہ کاری کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کی مارکیٹ بہت وسیع ہے اور ان کے وہاں بہت سے کاروبار ہیں اسی وجہ سے انہوں نے وہاں ایک آفس قائم کیا ہوا ہے۔ ’’(امریکہ میں ہمارے صارفین کی جانب سے) ہم سے کہا گیا کہ اپنا ویئر ہاؤس اور ایک آفس امریکہ میں قائم کیا جائے تاکہ پیداواری لاگت میں کمی لائی جا سکے اور وہ اپنے حصے کا بوجھ وینڈرز پر ڈال دیتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا ’’انہوں نے ہم سے کہا کہ اپنی مصنوعات کو وہاں لائیں، اسے اپنے ویئر ہاؤس میں رکھیں اور مقامی سطح پر فروخت کریں۔‘‘

آرڈرز کا چھوٹ جانا اور بینکوں کا قرض دینے سے انکار

ایکسپریس ٹربیون کو انٹرویو دیتے ہوئے میاں لطیف کا کہنا تھا کہ ملک میں جاری بجلی بحران کی وجہ سے امریکی آرڈرز چھوٹ گئے جس کی وجہ سے ریاستی یوٹیلیٹی اداروں کا استحکام متاثر ہوا۔

اپنی دلائل میں کمپنی کی جانب سے ایک اور توجیح یہ پیش کی گئی کہ بینکوں نے انہیں قرض اور خاص طور پر ورکنگ کیپیٹل کی سہولیات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ گو کہ یہ دلیل حقائق پر مبنی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی بھی بینک قرض فراہم کرنے میں تبھی دلچسپی ظاہر کرے گا جب اسے یقین ہو کہ جس کمپنی کو وہ قرض فراہم کر رہا ہے وہ کمپنی اسے قرض واپس کرتی رہے گی اور اس کمپنی کو ایسی صورتحال سے بچانے کی کوشش بھی کرے گا جس سے قرض کی واپسی صرف کاروبار کے خاتمے سے ہی ممکن ہو سکے۔

جب انہیں کمپنی کی انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہوتا کہ آیا وہ قرض کی ادائیگی کے لئے اس فنانسنگ سے مطلوبہ آمدن حاصل نہیں کر سکیں گے یا وہ انتظامیہ پر قرض پر واپسی کرنے پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں چاہے وہ کافی کما لیں۔ ان میں سے کوئی بھی کمپنی کے انتظام پر اچھی طرح سے عکاسی نہیں کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ چناب لمیٹڈ کئی سالوں سے جدوجہد کر رہی ہے۔

درحقیقت معاملات کافی بگڑ چکے تھے۔ 2017ء سے کمپنی کو قرض فراہم کرنے والے ایک ادارے سعودی پاک انڈسٹریل اینڈ ایگریکلچر انویسٹمنٹ کمپنی نے چناب لمیٹڈ پر قرضوں کی واپسی کیلئے مقدمہ دائر کر دیا جس میں قرضوں کی واپسی کیلئے کمپنی کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اور 20 جون 2017ء کو لاہور ہائیکورٹ نے اس کمپنی کے تمام آپریشنز ختم کر دینے کا حکم جاری کیا۔ چناب لمیٹڈ کے ذمہ سعودی پاک کے قریبا 35 کروڑ 70 لاکھ روپے کے واجبات تھے۔

چناب نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جس نے 8 جنوری 2019ء کو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا۔

تاہم ایسا لگتا ہے کہ خاص طور پر اس وقت جب اس خاندان کی اگلی نسل اس کاروبار کا انتظام سنبھال رہی ہے حالات کا دھارا بھی تبدیل ہو رہا ہے۔

بحالی کا منصوبہ

28 ستمبر 2019ء کو میاں محمد لطیف نے اپنے کونسل ایڈووکیٹ سلمان بٹ کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ میں کمپنی کے منصوبہ بحالی کے ساتھ متفرق درخواست دیوانی دائر کی اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپریشنز کو جاری رکھنے کیلئے عبوری ریلیف کی فوری درخواست بھی دائر کی تاکہ اس معاملے پر کاروائی کے دوران کمپنی کو تحلیل ہونے سے روکا جا سکے اور چناب گروپ کی انتظامیہ سلائی، کتائی اور بُنائی کے یونٹس کی بحالی کیلئے اقدامات کر سکے۔

کمپنی کو تحلیل کرنے حکم کے خلاف میاں محمد لطیف کی درخواست کے ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے بینک اور چناب گروپ کو قرض فراہم کرنے والے سب سے بڑے ادارے حبیب بینک لمیٹڈ کا ایک خط بھی منسلک تھا جس میں یہ تصدیق کی گئی تھی کہ کمپنی کے قرض واپسی کے عمل کی از سر نو تشکیل کی جا رہی ہے اور اسے درج ذیل شرائط پر تقریبا مکمل بھی کر لیا گیا ہے۔

’’ہم حبیب بینک لمیٹڈ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہم چناب لمیٹڈ کے قرضوں کی ادائیگی کے از سر نو نظام کے معاملات کو مکمل کرنے کے قریب ہیں۔ ہم نے اس مقصد کے لئے قانونی اور مالی مشیروں کا بھی بندوبست کیا ہے۔ اب تک حبیب بینک لمیٹڈ، بینک آف پنجاب، حبیب میٹرو پولیٹن بینک اور بینک اسلامی نے ڈرافٹ ٹرم شیٹ کے لئے داخلی منظوری حاصل کرلی ہے۔‘‘

حبیب بینک لمیٹڈ کے خط میں مزید تحریر کیا گیا تھا کہ الائیڈ بینک لمیٹڈ نے بھی زبانی رضامندی ظاہر کردی ہے تاہم تحریری رضامندی کا عمل ابھی جاری ہے۔

خط میں تحریر کیا گیا ’’ہم ابھی تک بینکوں کی منظوری کے منتظر ہیں۔ اس کے بعد ہم اس ٹرم شیٹ پر عملدرآمد کریں گے اور اپنے وکیل کے مشورے کے مطابق انتظامات کی اسکیم کو حتمی شکل دینے کے لئے اقدامات کا آغاز کریں گے۔‘‘

چناب گروپ کے ذمہ واجب الادا مختلف بینکوں اور مالیاتی اداروں کے 4 ارب 34 کروڑ روپے سے زائد قلیل مدتی قرضے ہیں۔ اس گروپ کے ذمہ قریباََ حبیب بینک لمیٹڈ کے 1 ارب 74 کروڑ روپے، یونائیٹڈ بینک کے 1 ارب 36 کروڑ روپے، بینک آف پنجاب کے 1 ارب 22 کروڑ روپے، عسکری بینک کے 84 کروڑ روپے اور الائیڈ بینک کے 60 کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔

اس کے علاوہ اس گروپ نے دیگر 17 بینکوں اور مالیاتی اداروں سے بھی قلیل اور طویل مدتی قرضہ وصول کئے ہیں جن میں بینک اسلامی، نیشنل بینک آف پاکستان، البراکہ بینک، حبیب میٹرو پولیٹن بینک، سلک بینک، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک، مسلم کمرشل بینک، سٹی بینک، فیصل بینک، سعودی پاک انڈسٹریل اینڈ ایگریکلچر انویسٹمنٹ کمپنی، پاک اومان انویسٹمنٹ کمپنی، فرسٹ پنجاب مضاربہ، پاک لیبیا ہولڈنگ کمپنی، پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی، اوریکس لیزنگ اینڈ اوریکس انویسٹمنٹ بینک، فرسٹ کریڈٹ اینڈ انویسٹمنٹ بینک اور فرسٹ نیشنل بینک مضاربہ شامل ہیں۔

چناب گروپ کے قرضوں کی تشکیل نو کے منصوبہ کے مطابق چناب گروپ کی جانب سے مجموعی قرض کی ادائیگی کو 2 درجہ بندیوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور یہ دونوں قرائض 4.738 ارب روپے کے ہوں گے۔

پہلی درجہ بندی کے قرض کی ادائیگی معاہدے کی منظوری کے بعد 90 ماہ کی مدت میں 30 اقساط میں کرنا ہوں گی۔ دوسری درجہ بندی کے قرض کی ادائیگی پہلی ادائیگی کے 78 ماہ میں 26 اقساط میں کرنا ہوں گی۔

کاشف نے بتایا کہ ان کے خاندان کے پاس اس کمپنی کے 60.1 فیصد حصص ہیں۔ ’’ورکنگ کیپیٹل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے فنڈز اکٹھے کرنے کیلئے ہم نے اس کمپنی میں اپنے 15.20 روپے فی حصص کے حساب سے ایک تہائی یعنی 20 فیصد حصص ایک سرمایہ کار کو فروخت کئے جس سے 35 کروڑ روپے حاصل ہوں گے۔‘‘

میاں لطیف نے اپنے وکیل کے ذریعے کمپنی کے کچھ غیر بنیادی اثاثوں میں سے کچھ کو فروخت کرنے پر بھی اتفاق کیا جن میں کھریانوالہ فیصل آباد میں 42 ایکڑ پر مشتمل اراضی ، W بلاک مدینہ ٹاؤن فیصل آباد میں تین مکانات ، Y بلاک مدینہ ٹاؤن فیصل آباد میں ایک مکان، پارک ٹاور کلفٹن کراچی میں ایک دفتر ، کھاریاں والا شیخوپورہ میں بُنائی کا یونٹ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اسپننگ یونٹ شامل ہیں۔ اس سے تقریبا 1 ارب 35 کروڑ روپے حاصل ہوں گے۔

میاں لطیف نے کہا کہ فروخت کا 75 فیصد عمل مکمل ہو چکا ہے جس حاصل ہونے والی رقم کم و بیش 1 ارب 1 کروڑ 60 لاکھ روپے ہے اور اس رقم کو قرضوں کی ادائیگی کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ جبکہ بقایا 25 فیصد کو جس کی مالیت تقریبا 34 کروڑ روپے بنتی ہے کمپنی کی کیپیٹل ضروریات کو پورا کرنے کیلئے استعمال کیا جائے گا۔

اس منصوبے کے مطابق 35 کروڑ روپے کا ابتدائی ورکنگ کیپیٹل نئے سرمایہ کاروں سے حاصل کیا جائے گا جبکہ بینکوں سے بھی برآمدات کیلئے 35 کروڑ روپے کا قرض وصول کرنے کی درخواست کی گئی ہے جس سے ورکنگ کیپیٹل ضروریات پوری کی جائیں گی۔

چناب لمیٹڈ کے امور 2017ء سے تعطل کا شکار ہیں۔ اس منصوبے کے مطابق موجودہ صورتحال سے بچنے کیلئے اور اس منصوبے کو معاشی اور مالی طور پر قابل عمل بنانے کے لئے طے شدہ قرض پر مارک اپ کی شرح کو سالانہ 5 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

میاں لطیف نے لاہور ہائیکورٹ میں اپنی پیشی کے دوران کہا ’’پہلی درجہ بندی کے قرض پر سالانہ مارک اپ منصوبے کی منظوری کی تاریخ سے شروع کیا جائے گا جبکہ ابتدائی 7.5 سالوں میں مستقبل میں پیش آنے والے حالات کے پیش نظر دوسری درجہ کے قرض کیلئے سالانہ 3 فیصد مارک اپ ادا کیا جائے گا اور پہلی درجہ بندی کے قرض کی ادائیگی کے بعد 5 فیصد مارک اپ ادا کیا جائے گا۔‘‘

میاں لطیف نے یہ بھی کہا کہ قرضوں کی ان دونوں درجہ بندیوں کا مارک اپ 5 فیصد سالانہ ہوگا اور اس کی ادائیگی اصل رقم کی مجموعی ادائیگی کے بعد 3 سال میں ہوگی۔ تاہم دوسری درجہ بندی کیلئے مارک اپ کی 3 فیصد شرح اور مجموعی طور پر بقایا مارک اپ نئے قرائض کی کامیاب ادائیگی کے بعد ختم کر دی جائے گی۔

اس کے تناظر میں لاہور ہائیکورٹ نے گزشتہ سال 5 دسمبر کو عبوری ریلیف کی درخواست منظور کر لی اور عارضی طور پر اس کمپنی کو مرکزی درخواست پر فیصلہ سنانے تک اپنے آپریشنز جاری رکھنے کی اجازت دے دی تاکہ کمپنی کے کمرشل آپریشنز اور پروڈکشن یونٹس اپنا کام ایک مرتبہ پھر اپنے کام جاری رکھ سکیں۔

جسٹس جواد حسن نے 5 دسمبر 2019 کو فیصلہ سنایا ’’یہ کمپنی اس عدالت کو ماہانہ بنیادوں پر اپنے آپریشنز پر ہونے والی پیش رفت اور قرضوں کی از سر نو تشکیل کے منصوبے سے متعلق آگاہ کرتی رہے گی‘‘

کیا یہ امور قابل عمل ہیں؟

یہ کمپنی واضح طور پر اپنے مرکزی کاروبار کو مکمل فعال بنانے کیلئے کوشاں ہے اور اس کی مثال کمپنی کی ملکیت اثاثہ جات کی فروخت کا عمل ہے۔ اپنے کاروبار کو بچانے کیلئے اس کمپنی کی مرکزی کاروبار کے علاوہ اثاثہ جات کی فروخت پر آمادہ ہے جس کی تصدیق حبیب بینک نے بھی کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چناب لمیٹڈ کی انتظامیہ اپنے کاروبار کی بحالی کیلئے سنجیدہ ہے۔

تاہم یہ مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے کہ اس گروپ کی توجہ دوسرے کاروباروں سے مبذول ہو گئی ہے۔ مثال کے طور کاشف نے ریستورانوں سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اور ان کے خاندان نے لاہور میں نئے قائم کردہ لبنانی ریستوران سلطان باشا میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے علاوہ لاہور میں اربن کیفے بھی ان کی ملکیت ہے۔

لیکن اس گروپ کا سب سے بڑا کاروبار ایلے گروپ آف کالجز ہو سکتا ہے جسے گزشتہ ہفتے متعارف کروایا گیا۔

 

کیا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ خاندان چناب لمیٹڈ کی بحالی کو مدنظر رکھے ہوئے ہے یا ریستوران اور تعلیمی کاروبار میں دلچسپی رکھتا ہے؟ اس کا جواب ان کے بحالی منصوبے کی کامیابی میں پوشیدہ ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here