اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈیٹا انٹری کی سہولیات فراہم کرنے والی کمپنی سسٹمز لمیٹڈ (SYS) کو ون لوڈ (OneLoad) کے نام سے موبائل پیمنٹ ایپلی کیشن کی منظوری دے دی ہے۔
اس طرح سسٹم لمیٹڈ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے یکم اپریل 2019ء سے نافذ کردہ الیکٹرانک منی انسٹی ٹیوشن (Electronic Money Institution-EMI) ریگولیشن کے تحت باضابطہ منظوری حاصل کرنے والا تیسرا ادارہ بن گیا۔
اس کے علاوہ دیگر دو ادارے نیا پے (Nayapay) اور فنجا (Finja) ہیں۔ سسٹمز لمیٹڈ منظوری حاصل کرنے والی واحد پبلکلی لسٹڈ ٹیکنالوجی کمپنی ہے۔
ون لوڈ فی الوقت موبائل سے ادائیگی کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے صارفین نقد رقم جمع کروا سکتے ہیں لیکن اسے نکلوا نہیں سکتے۔ نقد رقم صرف موبائل میں بیلنس حاصل کرنے، یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی اور رقوم کی ترسیل کیلئے استعمال کی جا سکتی ہے۔ نئی منظوری کا مطلب یہ ہے کہ اب صارفین ملک بھر میں ریٹیلر حضرات اور ایجنٹس سے نقد رقم بھی نکلوا سکتے ہیں۔
مزید برآن ون لوڈ کے ملکیتی ادارہ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (International Finance Corporation-IFC) نے ای پراسیسنگ (E-Processing) میں تقریباََ 20 فیصد سرمایہ کاری کے معاہدہ پر بھی دستخط کئے ہیں۔ ای پراسیسنگ کا 59.13 فیصد سسٹم لمیٹڈ کے پاس ہے۔
سیکیورٹی بروکریج فرم ان سائٹ سیکیورٹیز میں ریسرچ اینالسٹ محمد احمد نے 3 فروری کو کلائنٹس کیلئے جاری کردہ نوٹ میں تحریر کیا ’’مذکورہ ترسیل کے مالیاتی اثرات سے متعلق صورتحال ابھی غیر واضح ہے، ہمارے نزدیک اس سے ون لوڈ کو صارفین کا اعتماد حاصل ہوگا۔ صارفین کی تعداد اور ترسیلات کے حجم میں گزشتہ 9 ماہ کے دوران بالترتیب 95 فیصد اور 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘‘
سسٹمز لمیٹڈ کا بنیادی کاروبار سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ، سافٹ ویئر کی خرید و فروخت اور کاروباری امور کی آؤٹ سورس سہولیات فراہم کرنا ہے۔ یہ گروپ سسٹم لمیٹڈ (ہولڈنگ کمپنی) اور اس کے ذیلی اداروں ٹیک وسٹا سسٹمز(TechVista Systems) اور ای پراسیسنگ سسٹم لمیٹڈ (E-Processing Systems Ltd) پر مشتمل ہے۔ اس کمپنی کی بنیادی آمدن مشرق وسطیٰ میں ٹیک وسٹا سسٹمز اور شمالی امریکہ میں کام کرنے والے معاون ادارے وژن نیٹ سسٹمز (Visionet Systems) کے ذریعے سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سہولیات فراہم کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔
دوسری فنانشل ٹیکنالوجی کمپنیوں کی طرح ون لوڈ نے بھی ادائیگیوں کے نظام کو ڈیجیٹائز کرنے اور لوگوں کی ای والٹ (e-wallet) کی سہولت فراہم کرنے سے کیا اور جلد ہی انہیں اندازہ ہوا کہ صارفین کو اس کی زیادہ ضرورت نہیں کیونکہ پہلے ہی ایزی پیسہ (Easy Paisa)، سم سم (SimSim)، جاز کیش (Jazz Cash) اور حتیٰ کہ کئی بینک بھی صارفین کو یہی سہولیات فراہم کر رہے تھے۔ صارفین کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مارکیٹ میں داخل ہونے کا مطلب کثیر سرمایہ کاری تھی کیونکہ حریف کمپنیاں اس نظام کیلئے کافی سرمایہ کاری کر رہے تھے اور ون لوڈ کے فنڈز کو ان سے زیادہ ہونا چاہیے تھا۔
اپنے حریفوں کے مقابلے میں اس میدان میں زیادہ سرمایہ کاری کے بغیر جگہ بنانے کیلئے ون لوڈ نے فیصلہ کیا کہ اسے اپنی توجہ ریٹیلرز/دکانداروں کی جانب مبذول کرنی چاہیئے اور اس کیلئے اس کمپنی نے ایک ضروری امر کی نشاندہی کی کہ سکریچ کارڈز رکھنا دکانداروں کیلئے ایک طرح کی مصیبت ہے۔ وہ بہت زیادہ تعداد میں سکریچ کارڈز نہیں رکھ سکتے کیونکہ کسی مخصوص ٹیلی کمیونیکشن کمپنی کے سکریچ کارڈز کا حساب رکھنا کافی مشکل تھا اور چوری کے خدشات بھی لاحق تھے۔ مزید برآں مختلف کمپنیوں سے موبائل ٹاپ اپ (top-up) مہنگا عمل تھا کیونکہ اس کے لئے متعدد سروس فراہم کرنے والوں کو ادائیگی کرنا پڑتی تھی اور ان کارڈز کی خرید کا مطلب اپنی رقم کو صرف مخصوص سہولیات کیلئے ہی مختص کرنا تھا۔ غیر استعمال شدہ کریڈٹ بھی ریٹیلرز کیلئے رقم گنوانے کے مترادف تھا۔
یہ اس کمپنی کیلئے ایک موقع تھا۔ ون لوڈ نے تیزی اور کامیابی سے ریٹیلرز کو ڈیجیٹائز کیا تاکہ ان کیلئے صارفین کو سہولیات فراہم کرنا آسان ہو جائے کیونکہ ریٹیلرز کم سرمایہ کاری سے بھی کام کر سکتے تھے، انہیں مختلف سہولیات فراہم کرنے کیلئے اپنا سرمایہ مختص نہیں کرنا پڑا اور نہ ہی انہیں ان چاہے وینڈرز کو بھگتنا پڑا جو انہیں ان کی طلب سے زیادہ خریدنے کا مطالبہ کرتے تھے۔
ون لوڈ کا دعویٰ ہے کہ اس وقت 25 ہزار سے زیادہ ریٹیلرز ان کا پلیٹ فارم استعمال کر رہے ہیں اور ترسیل کے مطابق کمیشن بھی حاصل کر رہے ہیں۔ 2016ء میں جب سے ون لوڈ متعارف کروایا گیا ہے 2 کروڑ سے زائد ریٹیلرز حضرات کے ذریعے 10 کروڑ سے زائد صارفین اس ایپلی کیشن کو استعمال کر رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ 10 کروڑ افراد نے ون لوڈ سے ایئر ٹائم حاصل کیا ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ ترسیلات کے حوالے سے پاکستان کا سب سے بڑا فنانشل ٹیکنالوجی پلیٹ فارم ہے۔
اس کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کیلئے پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (P@SHA) نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو تجویز پیش کی کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت کو مراعات دی جائیں۔ یہ مراعات مالکان کی گروی زمین سے فنڈز اکٹھا کرنے کی اجازت، قانونی ذرائع سے برآمدات کی مد میں ترسیل زر پر 5 فیصد نقد مراعات اور بیرون ملک اکاؤنٹس میں بیرونی ترسیلات زر اور ان کے استعمال پر 35 فیصد کی مقرر شرح کی شکل میں ہو سکتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ’’یہ مراعات سسٹم لمیٹڈ کیلئے بہتر ثابت ہوں گی۔‘‘
28 جنوری کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایکسپورٹ ری فنانس اسکیم کیلئے 100 ارب روپے فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ سسٹم لمیٹڈ اس وقت اس سکیم سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔
ون لوڈ کو یہ منظوری اس وقت حاصل ہوئی ہے جب حکومت پاکستان آن لائن رقوم کی ترسیل میں اضافہ اور معیشت کو ڈیجیٹائز کرنے کیلئے پورے جوش سے کام کر رہی ہے۔ متعدد نئی کمپنیاں پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کیلئے ڈیفالٹ پیمنٹ پلیٹ فارم بننے کی جستجو میں ہیں لیکن ابھی تک یہ معرکہ سرانجام نہیں ہو سکا ہے۔
بہرحال اس صنعت نے کچھ مضبوط عالمی دلچسپی حاصل کر لی ہے۔ علی بابا کا فنانشل ٹیکنالوجی کا ذیلی ادارہ آنٹ فنانشل (Ant Financial) نے مارچ 2018ء میں 18 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے عوض ٹیلی نار مائیکرو فنانس بینک کے 45 فیصد حصص خرید لئے تھے۔
آنٹ فنانشل کی حکمت عملی ہے کہ چین میں علی پے (Alipay) اور ایزی پیسہ کے موبائل والٹ کو یکجا کر دیا جائے۔ جس کے نتیجے میں بینک اکاؤنٹس کو یکجا کرنے کیلئے باضابطہ مالیاتی اداروں میں پے ٹی ایم (Paytm) کی طرز پر ایزی پیسہ کا کیش وینڈرز ڈیپنڈنٹ موبائل والٹ ماڈل قائم ہو گا۔
سادا پے (SadaPay) کے نام سے ایک اور اسٹارٹ اپ اس میدان میں قدم رکھنے کیلئے تیار ہے جو ایک میامی میں مقیم ٹیکنالوجی انٹرپینور برینڈن ٹمنسکی (Brandon Timinsky) نے شروع کیا ہے۔ انہوں نے ہی امریکہ میں لاکھوں ڈالر کا گیس ڈیلیوری کا اسٹارٹ اپ گیس ننجا (GasNinjas) متعارف کروایا تھا۔ برینڈن کا ارادہ اب پاکستان میں نیو بینک کی حیثیت سے سادا پے متعارف کروانے کا ہے۔