بلیک بورڈ پر مائیکروسافٹ ورڈ سکھانے والے استاد کے سوشل میڈیا پر چرچے

رچرڈ کے طریقہ کار سے متاثر ہو کر مائیکروسافٹ اور ٹیکنالوجی کی دیگر کمپنیوں نے انکے سکول کیلئے تکنیکی اور مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے

645

گھانا: کمپیوٹر پر مائیکروسافٹ ورڈ تو آپ اکثر استعمال کرتے ہیں، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ بغیر کمپیوٹر کے مائیکروسافٹ ورڈ چل سکتا ہے؟

گھانا کے ایک استاد رچرڈ اپیاح اکوٹو(Richard Appiah Akoto) اپنے طالب علموں کو بغیر کمپیوٹر کے مائیکروسافٹ ورڈ پر کام کرنا سکھاتے ہیں جس پر انہیں دنیا بھر میں خوب پذیرائی مل رہی ہے اور انکی کہانی سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔

 بلیک بورڈ پر مائیکروسافٹ ورڈ سکھانا کتنا مشکل تھا اس کا اندازہ یقیناََ رچرڈ کو ہوگا لیکن ان کے اس طریقہ کار کی وجہ سے طلباء کو کمپیوٹر سیکھنے میں بہت مدد کی اور اب ان کی کہانی سے متاثر ہو کر مائیکروسافٹ اور ٹیکنالوجی کی دوسری کمپنیوں نے انکے سکول کیلئے تکنیکی اور مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

رچرڈ گزشتہ 8 سال سے گھانا کے چھوٹے سے قصبے سیکیڈومیز میں واقع بیٹانیز میونسپل اسمبلی جونئیر ہائی میں میں پڑھا رہے ہیں۔

رچرڈ نے فیس بک پر بلیک بورڈ پر بنائی جانے والی مائیکروسافٹ ورڈ ونڈو کی کچھ تصاویر پوسٹ کی تھیں۔

مائیکروسافٹ بلاگ کے مطابق کمپنی رچرڈ کے منفرد طریقہ کار کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے اور انہوں نے گھانا کے استاد کو سنگا پور میں منعقد ہونے والی مائیکروسافٹ ایجوکیٹر ایکسچینج کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی اور انکے اس مشن کیلئے مالی امداد بھی فراہم کی۔

رچرڈ کیلئے دنیا بھر کے ایجوکیشن لیڈرز سے ملنے اور اپنے ملک کے تعلیمی نظام میں مسائل پر گفتگو کرنے کیلئے گھانا سے باہر جانے کا یہ پہلا موقع تھا۔

رچرڈ نے کہا کہ وہ اپنے طلباء کو کسی بھی صورت مائیکروسافٹ ورڈ سکھانا چاہتے تھے تاہم انکے پاس کمپیوٹر نہیں تھا، اس لیے بلیک بورڈ پر چاک کی مدد سے مائیکروسافٹ ورڈ کی تصویریں بنا کر سکھایا۔

انہوں نے کہا کہ وہ طلباء کو سکھانے کیلئے مانیٹر، سسٹم یونٹ اور کی بورڈ کی تصاویر بھی بنا چکے ہیں۔

کانفرنس میں شرکت کے بعد رچرڈ اپنے سکول واپس پہنچے تو مائیکروسافٹ اور دیگر کمپنیوں کی جانب سے انکے سکول کے لیے فراہم کردہ لیپ ٹاپس، ٹیکسٹ بکس اورسافٹ وئیرز کا ڈھیر لگ چکا تھا۔

اس کے علاوہ سکول میں طالب علموں کے لیے آئی ٹی لیبز بھی بنائی گئی ہیں تاکہ وہ خود کمپیوٹرزچلا سکیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here