یہ ان دنوں کی بات ہے جب ناوین قریشی نے ٹورنٹو سے نیویارک سٹی کے لیے رختِ سفر باندھا تاکہ بہترین ساکھ کے حامل کولمبیا بزنس سکول میں داخلہ حاصل کر سکے، وہ نیویارک میں تنہا تھی۔ کینیڈین کریڈٹ ہسٹری، بنک اکائونٹس اور اپنے نام پر اثاثے موجود ہونے کے باوجود امریکی معاشی نظام اس طرح سے پوشیدہ تھا کہ اس کی تمام عملیت پسندی بے وقعت ہو گئی تھی۔
ناوین کی کوئی کریڈٹ ہسٹری نہیں تھی اور وہ سکوائر ون پر کھڑی تھی۔ کولمبیا میں ہی اس کی ملاقات آندریج پائولے سے ہوئی جو ایک یورپین طالب علم تھا اور اس کا بھی امریکی بنکوں کے حوالے سے تجربہ ایسا ہی پریشان کن تھی اور وہ دونوں کریڈٹ کارڈ کے حصول کے لیے تگ و دو کر رہے تھے۔ دونوں میں دوستی ہو گئی، ان دونوں نے یہ ادراک کیا کہ وہ دونوں اب بھی پرانے کریڈٹ کارڈ استعمال کر رہے ہیں اور نئے کریڈٹ کارڈز کا حصول بہ ظاہر ناممکن ہے۔
یہ وہ مرحلہ تھا جب (سیبل) Sable تخلیق کرنے کے لیے پہلی بار سوچ بچار کیا گیا۔ ناوین اور آندریج دنیا میں بہترین تعلیم کے حصول کے لیے امریکا آئے تھے، ان دونوں کا خواب اپنی زندگیاں بہتر بنانا تھا۔ آپ جب کسی اجنبی ملک کا رُخ کرتے ہیں تو آپ کے اردگرد بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ نئے ملک سے خود کو ہم آہنگ کرنے کے لیے وقت، دولت، کوشش، کنفیوژن اور غالباً کچھ راتیں چاہئے ہوتی ہیں جن میں ایک فرد یہ سوچ سکے کہ یہ سب کرنے کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں۔
اور ان تمام مسائل کے ساتھ جوجھتے ہوئے آپ پر امریکی بنکنگ کی ایک رکاوٹ کے بعد ایک اور رکاوٹ کا ادراک ہوتا ہے۔ تنخواہ کس طرح وصول کی جائے؟ یہ آپ کے لیے بہتر ہے کہ آپ اکائونٹس ڈیپارٹمنٹ میں جا کر ان سے اپنی مشکل کے بارے میں بات کریں۔ اور بالاخر نیویارک سٹی میں رہائش کے لیے ایک بہتر اپارٹمنٹ کی تلاش کی جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ کی چوں کہ کوئی کریڈٹ ہسٹری نہیں ہے جس کے باعث آپ کو اب بہت زیادہ سکیورٹی ڈیپازٹ جمع کروانا ہے۔ آپ کی پوسٹ پیڈ سیل فونز کے پیکیجز تک کوئی رسائی نہیں ہوتی، آپ جب پہلی بار امریکا آتے ہیں تو آپ کے لیے نیٹ فلیکس کی فیس ادا کرنا تک مشکل ہوتا ہے۔
سیبل نے اپنی ویب سائٹ کے ابائوٹ اس (About Us) سیکشن میں لکھا ہے، بین الاقوامی شہری ہونے کے باعث ہمیں اپنے اکائونٹس کی مکمل خدمات کے حصول کے لیے اپنے مقامی بنکوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے جس کے بعد بے تحاشا دستاویزات دکھانی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد اپنے کارڈز کے پوسٹ ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یوں ہم اپنی کریڈٹ ہسٹری کا آغاز نئے سرے سے کرتے ہیں، 21 ویں صدی میں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
اور وہ کچھ اس طرح اپنی کمپنی کی وضاحت کرتے ہیں جو امریکا میں آباد غیر ملکیوں کو بلامعاوضہ بنک اکائونٹس اور کریڈٹ کارڈز فراہم کرتی ہے۔ بنکنگ ہماری روزمرہ کی زندگیوں کا ایک اہم جزو بن چکی ہے اور بہت سی تبدیلیاں آ رہی ہیں، ان حالات میں سیبل اپنے صارفین کے لیے بنکنگ کو آسان بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

پرافٹ نے ناوین سے رابطہ کیا تاکہ سیبل کے تخلیق پانے کے پس پردہ کہانی سنی جا سکے کہ یہ تصور کس طرح پیدا ہوا اور اس حیران کن سٹارٹ اَپ کا مستقبل کیسا ہونے جا رہا ہے؟
کمرہ جماعت سے آغاز
ناوین کولمبیا میں داخلہ لینے سے قبل کینیڈا کے بنکوں میں کام کر چکی ہے جہاں اس نے معاشی صنعت میں پبلک کلائوڈز کے استعمال کو متعارف کروایا۔ ناوین نے کینیڈا میں کیپیٹل ون کے آن لائن بنکنگ اور کریڈٹ کارڈ بزنس کے شعبہ میں کام کیا جب کہ آندریج مکنسی میں کام کر چکے ہیں جو یورپ بھر کے بنکوں کے لیے معاشی ٹیکنالوجی کی حامل مصنوعات بناتا ہے۔ ان کی اپنے تیسرے شراکت دار ٹاورز ولن سے کولمبیا میں ہی ملاقات ہوئی، وہ ٹیم میں شامل واحد امریکی ہیں جنہوں نے نیویارک سٹی میں کمپنی امریکن ایکسپریس میں ایک دہائی تک کام کیا ہے، وہ کریڈٹ کارڈز کے پراڈکٹ اور بزنس ڈویلپمنٹ کے شعبہ سے منسلک تھے۔
حقیقت میں معاملہ یہ ہے کہ کمرہ جماعت کے دوران ان کے ذہن میں پہلی بار نیا کارڈ شروع کرنے کا خیال آیا۔ ناوین اور آندریج سٹیون جی بلانک کی کلاس بعنوان Lean Launchpadلے رہے تھے، یہ ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ سٹیون جی بلانک آٹھ بار کاروبار شروع کر چکے تھے اور اب ریٹائر ہونے کے بعد تدریس و تالیف کے شعبہ سے منسلک ہو گئے تھے اور یہ ان کا ہی اعزاز ہے کہ انہوں نے اس تصور کو شہرت دی کہ دنیا بھر میں کس طرح سٹارٹ اَپ قائم کیے جائیں اور کس طرح انٹراپرینیورشپ کا موضوع پڑھایا جائے۔ یہ ایک مشکل نصاب تھا اور ایسا نصاب تھا جس سے سیبل کی ٹیم نے بہت کچھ سیکھا۔
نصاب میں یہ بھی شامل تھا کہ کس طرح نیا تصور پیش کرنا ہے اور فیلڈ ورک بھی اس کا حصہ تھا جس کے باعث وہ ایک ایئرپورٹ سے دوسرے ایئرپورٹ کا رخ کرتے اور سیاحوں کا انٹرویو کرتے، انہیں حاصل ہونے والی معلومات نے انہیں اس قدر اعتماد دیا اور ان کا یہ یقین پختہ ہوا کہ سیبل کی طرح کا سٹارٹ اَپ مارکیٹ کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔
ناوین نے ان دنوں کو یاد کیا جب وہ آندریج کے ساتھ کلاس لیا کرتی تھی اور وضاحت کی، ہم نے جے ایف کے ایئرپورٹ، لاگارڈیا اور نیویارک ایئرپورٹ پر سینکڑوں لوگوں سے انٹرویو کیے۔ اور ہم ان سے عالمی سفر کرتے ہوئے ان سے ان کی ضروریات کے بارے میں سوال کیا کرتے۔ یہ ہمارا ابتدائی تصور تھا لیکن جلد ہی ہم پر یہ ادراک ہوا کہ سفر کرنے والے غیر ملکی ناصرف اپنے ہی ملک کے کریڈٹ کارڈز استعمال کرتے ہیں لیکن وہ اس وقت بھی اپنے ہی ملک کے کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں جب وہ امریکا میں ہوتے ہیں۔
وہ دونوں ناوین اور آندریج غیر ملکی ہونے کے باعث مشترکہ طور پر مشکلات کا شکار ہوئے جیسا کہ ناوین امریکا میں گزرے اپنے ایک سال کے دوران اپنا کینیڈین کارڈ استعمال کرتی رہی اور آندریج کے پاس محض ایک سکیورڈ کارڈ تھا جس میں اس نے تین سو ڈالر رکھ چھوڑے تھے، یہ اس کی زندگی کا پرمسرت لمحہ تھا۔
ناوین کہتی ہے، تمام تر خواہشوں اور مقاصد کے تحت ہم نے اپنے آئیڈیا کے لیے ہوائی اڈوں پر دوبدو 300 لوگوں کے انٹرویو کیے تھے۔ لیکن اس کے بعد، ہم نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہم نے بزنس سکولز کا رُخ کرنا شروع کر دیا، صارفین کے مسائل کا جائزہ لینے لگے، ٹارگٹ مارکیٹ کے حجم کے بارے میں جانا اور یہ معلوم ہوا کہ امریکا میں ہر برس کریڈٹ کی سہولیات حاصل کرنے کے اہل غیر ملکیوں کی تعداد 15 لاکھ نئے صارفین پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور پھر ظاہر ہے، ہم نے ریونیو کے ذرائع اور قوانین کے بارے میں جاننے کی جانب توجہ دینا شروع کی اور بنکوں اور آلٹرنیٹ ڈیٹا سروس پرووائیڈرز کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا تاکہ ان کی مدد حاصل کر سکیں
کمرہ جماعت سے عملی دنیا میں
ایک بار جب ان کو یہ یقین دہانی ہو گئی کہ ان کے پاس ایک بہترین آئیڈیا ہے، اس کے باوجود تین رُکنی سیبل ٹیم نے سٹارٹ اَپ سکول وائی کومبی نیٹر (Y Combinator) میں اپلائی کیا جس کی داخلہ دینے کی شرح ایک اعشاریہ پانچ فی صد ہے اور وہ ان فنڈز میں سے کچھ کاٹ لیتے اور باقی اپنے اختراح ساز نئے تصورات کے لیے رکھ لیتے۔ ناوین، آندریج اور ٹاورز کی ملاقات یہیں پر جوزف فن لیسن سے ہوئی جو آندریج کا دوست ہے اور اس کا پورٹ فولیو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے دنیا کے چند بڑے بنکوں کے لیے ڈیجیٹل ٹیمز بنائی ہیں اور کتوں کی ٹریکنگ کے لیے فٹ بٹ ایپ تخلیق کی ہے۔
