دالوں کے کاشت کاروں کو توانائی کی لاگت کم کرنے کے لیے سبسڈائزڈ سولر اریگیشن سسٹم فراہم کرنے کا فیصلہ

664

لاہور: پنجاب کا محکمہ زراعت تھل کے اضلاع سے تعلق رکھنے والے ان کاشت کاروں سے درخواستیں وصول کر رہا ہے جو دالیں اُگاتے ہیں تاکہ انہیں رعایتی نرخوں پر پورٹ ایبل اریگیشن سسٹم دیا جا سکے۔ ان اضلاع میں بھکر، میانوالی اور لیہ شامل ہیں۔

 محکمہ کے ایک افسر نے اس رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سکیم کا مقصد ملک میں دالوں کی پیداوار بڑھانے کے علاوہ فی ایکڑ زیادہ سے زیادہ فصل حاصل کرنا ہے۔

انہوں نے کہا، اس اقدام کے باعث ان تین اضلاع میں کاشت کاروں کے توانائی پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی آئے گی۔

انہوں نے مزید کہا، زمیندار، ٹھیکیدار اور کاشت کار جو پانچ سے 25 ایکڑ تک اراضی کے مالک ہیں اور 50 ہارس پاور کے ٹریکٹر کی ملکیت رکھتے ہیں، وہ اس سکیم کے تحت درخواست دینے کے اہل ہیں۔ اگر اراضی خاندان کی مشترکہ ملکیت ہے تو خاندان کا ایک ہی فرد درخواست دے سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے، لیہ، بھکر اور میانوالی کے کاشت کار اپنی درخواستیں کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کی نقول،  اراضی کی ملکیت کے تصدیق شدہ دستاویزی ثبوت اور 100 روپے مالیت کے حلف نامے کے ساتھ متعلقہ ضلع کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر زراعت (ایکسٹنشن) کے پاس جمع کروا سکتے ہیں۔

درخواستیں جمع کروانے کی آخری تاریخ 25  فروری ہے جس کے بعد 29 فروری تک دستاویزات کی سکروٹنی کا عمل جاری رہے گا۔ لکی ڈرا کی تاریخ پانچ مارچ ہو گی جب کہ کامیاب ہونے والے کاشت کار 20 مارچ تک اپنی مشینری کی بکنگ کروا سکیں گے۔

مزید پڑھیں: 19-2018  کیلئے 1 لاکھ کاشتکاروں کو بلاسود قرضہ فراہم کیا: محکمہ زراعت

منتخب کاشت کار پورٹ ایبل اریگیشن سسٹم اپنے علاقے کے دیگر کاشت کاروں کو تین برس کے لیے کرایے پر دینے کے پابند ہوں گے اور یہ صرف زرعی مقاصد کے لیے ہی استعمال ہو سکے گا۔

پرافٹ نے متعدد کسانوں سے بھی رابطہ قائم کیا تاکہ محکمہ زراعت کی سکیموں کے بارے میں ان سے ان کی رائے حاصل کی جا سکے۔ لیہ سے تعلق رکھنے والے دالوں کے کاشت کار شہزاد رضوی کہتے ہیں، توانائی کی لوڈشیڈنگ اور غیرمعمولی لاگت وہ دو بنیادی ایشوز ہیں جن کا وہ سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، میں اس سکیم کے لیے درخواست جمع کروا رہا ہوں کیوں کہ یوں مجھے اپنی توانائی کی لاگت بڑی حد تک کم کرنے میں مدد حاصل ہو گی۔

بھکر سے تعلق رکھنے والے دالوں کے کاشت کار غلام ربانی نے بھی شہزاد رضوی کی رائے سے اتفاق کیا اور کہا کہ کاشت کاروں کی اکثریت ایندھن اور بجلی کی بڑھتی ہوئی لاگت سے پریشان ہے۔ اس سکیم سے کسانوں کی ناصرف مالی مشکلات میں کمی آئے گی بلکہ دیگر کاشت کاروں کی بھی دالیں کاشت کرنے کے حوالے سے حوصلہ افزائی ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا، ان اقدامات کے باعث ملک میں دالوں کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔

مزید پڑھیں: دالوں کی درآمدات میں پانچ ماہ کے دوران 16فیصد اضافہ، شماریات بیورو

پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل سے منسلک ایک افسر نے کہا کہ پاکستان میں سالانہ تین اعشاریہ دو ملین ہیکٹر رقبے پر دالیں اگائی جا رہی ہیں اور ہر برس پاکستان ایک سو بلین روپے سے زیادہ کی دالیں درآمد کر رہا ہے۔

ارڈ زون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھکر کے ایک افسر نے کہا، اگر محکمہ زراعت ایسے اقدامات متعارف کرواتا رہتا ہے جن کا مقصد کسانوں کے لیے توانائی کی قیمت کم کرنا ہو تو پاکستان آسانی کے ساتھ دالوں کے حوالے سے اپنے درآمداتی بلوں میں کمی لا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، دالوں کے کاشت کاروں کو پورٹ ایپل سولر اریگیشن سسٹم کی فراہمی کے علاوہ محکمہ زراعت کو چاہئے کہ وہ دالوں کے کاشت کاروں کو اعلیٰ معیار کے بیجوں کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات کرے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہم اگر آسٹریلیا، کینیڈا، برازیل اور برما پر انحصار کم کرنا چاہتے ہیں جہاں سے ہم دالیں درآمد کرتے ہیں تو وفاقی و صوبائی حکومتیں زرعی تحقیقاتی اداروں کو فنڈز فراہم کریں تاکہ وہ دالوں پر تحقیق کرنے کے قابل ہو سکیں اور یوں ہم دالوں کی پیداوار کے تناظر میں خودکفیل ہو جائیں گے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here