اسلام آباد: آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے ایل پی جی فروخت کنندگان کو ہر ٹینکر کیلئے الگ الگ لائسنس حاصل کرنے کے حکم پر عمل نہ ہوسکا جس سے قومی خزانے کو 5 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔
اوگرا نے اس سلسلے میں یکم جنوری 2020 کو ایک خط لکھا گیا تھا جس میں ایل پی جی فروخت کنندگان، ٹرانسپورٹرزاور مارکیٹنگ کمپنیوں کو15 دن میں لائسنس حاصل کرنے کی ہدایت کی تھی۔
اس عمل سے تقریباََ 1500 لائسنس جاری کیے جانے تھے تاہم اوگرا کے ممبر گیس نے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایل پی جی عزیزاللہ خان کے احکامات کو مبینہ طور پر پس پشت ڈالتے ہوئے کمپنیوں کو مزید وقت دیدیا۔
یہ بھی پڑھیں: پٹرولیم مصنوعات کے بعد ایل پی جی اور ادویات کی قیمتوں میںبھی اضافہ
اوگرا آرڈی نینس 2002 اور ایل پی جی (پروڈکشن اینڈ ڈسٹری بیوشن) رولز 2001 کے تحت ملک میں ایل پی جی کی ترسیل کیلئے لائسنس حاصل کرنا ضروری ہے۔
تاہم اوگرا کے ممبر گیس نے مذکورہ احکامات پر تاخیری حربہ اپناتے ہوئے متعلقہ کمپنیوں سے صرف ترسیلی ٹینکرز کے فٹنس سرٹفکیٹ، روڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی سے متعلقہ کاغذات اور تھرڈ پارٹی انشورنس سے بارے پوچھنا ہی مناسب سمجھا۔
یہ بھی پڑھیں: اوگرا کا ٹیکس دہندگان کے پیسے سے ایل این جی سکینڈل میں مبینہ ملوث ملازمین کو قانونی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ
اس سے قبل 29 اکتوبر 2019 کو بھی ایسا ہی ایک لیٹر اوگرا کی جانب سے ایل پی جی مارکیٹنگ کمپنیوں، پروڈیوسرز، ٹرمینلز اور ائیر مکس پلانٹس کو لکھا گیا تھا کہ بغیر لائسنس ایل پی جی کی ترسیل ہر گز نہ کی جائے اور ٹینکرز کیلئے الگ الگ لائسنس حاصل کیے جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا ملک کے دور دراز اور پہاڑی علاقوں میں ایل پی جی ایئر مکس پلانٹس کی تنصیب پر غور
اوگرا کے ایک سابق افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ملک بھر میں 1500 ایل پی جی ٹرانسپورٹرز موجود ہیں، پروسیسنگ فیس کے علاوہ ہر ایک لائسنس 25 ہزار میں ملتا ہے، جبکہ ان تمام سے ایک کروڑ 15 لاکھ روپے پروسینگ فیس حاصل ہونا تھی جس کی عدم وصولی کی وجہ سے قومی خزانے کو 5 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
اوگرا کے ترجمان عمران غزنوی نے کہا کہ الگ الگ لائسنس جاری کرنے کا فیصلہ 2019 میں کیا گیا تھا تاہم ممبر گیس نے ایل پی جی کے بحران کی وجہ سے مزید وقت دیدیا۔ اب تک دو کمپنیوں کو 3لائسنس جاری کیے جاسکے ہیں جن سے 3 لاکھ روپے وصول کیے گئے ہیں۔