اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کی درآمدات مخالف حکومت بہت سی درآمداتی مصنوعات پر ریگولیٹری ڈیوٹیز (آر ڈیز) اور ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹیز (اے سی ڈیز) میں کمی کے حوالے سے قریباً فیصلہ کر چکی ہے۔
حکومت درآمدات کے خلاف ابتدائی مخالفت کے بعد متوقع منی بجٹ میں پالیسی کے تناظر میں تبدیلیاں متعارف کروائے گی، جائزہ لینے کے بعد یہ کہنا بجا ہو گا کہ کسی بھی نوعیت کے ایڈیشنل ٹیکسز کے معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
دوسری جانب میڈیا نے ایف بی آر کے حوالے سے کہا ہے، مزید ایڈیشنل ٹیکسز کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اور یہ غالباً مفید سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوں گے۔ اگرچہ پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی کی شرح بڑھانے کی تجویز دی جا چکی ہے جس کے استعمال میں پہلے ہی قریباً 20 فی صد کم آ چکی ہے۔ تمباکو کے ریٹ میں اضافہ بھی غیر پیداواری ثابت ہو گا کیوں کہ رواں مالی سال کے دوران اس کی فروخت میں کمی آئی ہے۔
مختلف شرح کے تحت ہزاروں مصنوعات پر آر ڈیز اور اے سی ڈیز کے باعث درآمدات کا حجم قریباً 6-5 بلین ڈالر ہو جائے گا۔ ان نقصانات کے باعث ہی حکومت درآمدات کے لیے آسانی پیدا کرنے کی جانب متوجہ ہوئی ہے اور اس نے آر ڈیز اور اے سی ڈیز میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ امپورٹ ٹیرف کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔
ان حالات میں درآمدات کو برقرار رکھنے کے لیے دو ہی قابلِ عمل امکانات موجود ہیں، مثال کے طور پر درآمدات کے لیے منڈیوں کو کھول دیا جائے یا یہ قوانین کے موثر طور پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ دوسری جانب آج سے 50 ہزار سے زائد کی خریدار پر شناختی کارڈ کی شرط پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے۔ دورہ پر آ رہے آئی ایم ایف کے وفد کو اشیا کی فہرست فراہم کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ دونوں فریق مذاکرات کے دوران یہ فیصلہ کریں گے کہ کون سی اشیا پر آر ڈیز کم کی جائے جس کا جائزہ آنے والے بجٹ کے تناظر میں لیا جائے گا۔
آئی ایم ایف سوموار سے پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات میں یہ جائزہ لے گا۔ مشن چھ بلین ڈالر مالیت کی ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) کے تحت کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے 11 روز اسلام آباد میں مقیم رہے گا۔
ایف بی آر کے ایک حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ جنوری 2020 تک 320 ارب روپے جمع ہوئے ہیں جو گزشتہ برس کی نسبت 17 فی صد زیادہ ہیں۔