اسلام آباد: پاکستان اگلے چھ ماہ میں ایک تسلسل کے ساتھ کم از کم 12 قوانین میں ترامیم کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔
وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے قومی ایگزیکٹؤ کمیٹی (این ای سی) کے اجلاس کی صدارت کی جس نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
وزارتِ خزانہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان کے مطابق، این ای سی منی لانڈرنگ اور ایف اے ٹی ایف سے متعلقہ معاملات کے تناظر میں اہم ترین کمیٹی ہے جس میں وزیر معاشی امور حماد اظہر، جو قومی ایف اے ٹی ایف کی کوارڈینیشن کمیٹی آف سول اینڈ سکیورٹی انسٹی ٹیوشنز کی قیادت کر رہے ہیں، وزیر مواصلات مراد سعید سمیت متعلقہ وزارتوں اور قومی اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔
اجلاس میں اس اَمر پر اتفاق کیا گیا کہ کم از کم 12 اور غالباً کچھ زیادہ قوانین اور آرڈیننس کے ذیلی قوانین میں ترامیم کرنا ہوں گی تاکہ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے عائد کردہ شرائط پر پورا اترا جا سکے۔ ایف اے ٹی ایف کی شرائط سے ہم آہنگی کے لیے مزید قانون سازی اور مختلف ایجنسیوں اور اداروں کی جانب سے کام کرنے کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لیے مکمل قانونی فریم ورک پر کام کرنا ناگزیر ہے۔
میڈیا کے ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ مختلف قوانین میں ترامیم ہونے جا رہی ہیں جن میں انسدادِ دہشت گردی ایکٹ، میوچل لیگل اسسٹنس ایکٹ اور 1984 کا کمپنیز ایکٹ شامل ہے۔ حکومت اس اَمر پر بھی غور کر ہی ہے کہ یو این ایس سی پابندی کا شکار اداروں اور افراد کے لیے سزا بڑھانے پر بھی غور کر رہی ہے اور 200 ملین روپے اور 10 سال قید بامشقت کے علاوہ ایک ملین کا جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔
سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور دیگر وفاقی و صوبائی ادارے بھی ذیلی قانون سازی میں ترامیم کے باعث یہ یقینی بنانے کے لیے بااختیار ہوں گے کہ ان کے متعلقہ شعبہ میں کوئی مسائل درپیش نہیں ہیں۔
تجدید شدہ قانون سازی تنظیموں میں مختلف پروفیشنز پر نگرانی کا اختیار بھی فراہم کرے گی۔ اگرچہ، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو، ایس ای سی پی اور وزارتِ خزانہ چارٹرڈ اکائونٹنٹس اور متعلقہ پیشوں اور تنظیموں کی نگرانی کرے گی جیسا کہ وزارت قانون اور پاکستان بار کونسل قانونی طور پر بااختیار ہو گی کہ وہ وکلا، قانونی مشیران اور قانون فرموں کے حوالے سے ریگولیٹر کا کردار ادا کرسکیں۔
یہ یقینی بنایا جائے گا کہ وہ تمام شعبے جو فی الحال ریگولیٹ نہیں کیے جا رہے، ان کو ریگولیٹری فریم ورک کا حصہ بنایا جائے جو ایف اے ٹی ایف کی شرائط سے ہم آہنگ ہو۔