لمز اور آئی بی اے کی ڈگریاں آپکو ملازمت کیوں نہیں دلوا سکتیں؟

کیسے کمپیوٹر کے دور کے بعد مصنوعی ذہانت کا دور بھی بے روزگاری کا ماحول پیدا کرے گا اور کیسے پاکستان میں رہتے اس دور کو اپنے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے

1414

اگر کوئی کمپنی سرچ انجن کے طور پر گوگل کی جگہ لینا چاہے تو اسے کیا کرنا پڑے گا؟ اکتوبر 2019ء تک گوگل کے پاس سرچ انجن کی عالمی مارکیٹ میں 88 فیصد حصص ہیں اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ کچھ بھی فانی نہیں ہے اسی طرح کوئی بھی ہمیشہ سرفہرست نہیں رہتا۔ ایک دن گوگل کے عروج کا دور بھی ماند پڑ جائے گا۔ پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایسا کیسے ہو گا؟ کیسے کوئی کمپنی گوگل سے اس کی اجارہ داری چھین سکتی ہے؟

ایسا کرنے کے کئی راستے ہیں جن میں سے ایک یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی کمپنی باقاعدہ طور پر سرچ کرنے کی نوعیت کو ہی بدل کر رکھ دے۔ انٹرنیٹ پر موجود کسی اور کی جانب سے انفارمیشن کو اپنے مقاصد کیلئے سرچ کرنا موجودہ دور میں روز مرہ کا معمول ہے۔ وہ سرچ انجن جو گوگل کا متبادل ثابت ہو سکتا ہے اسے ایک ایک قدم آگے رہنا ہوگا جو نہ صرف انٹرنیٹ پر موجود انفارمیشن کو استعمال کرے بلکہ خودساختہ طور پر نئی انفارمیشن تیار بھی کرے۔

یہ ’’محض مصنوعی ذہانت سے متعلق ایک اور مضمون‘‘ نہیں ہے۔ بلکہ یہ مصنوعی ذہانت اور اس کے استعمال سے متعلق ہے اور اس میں اس بات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ اس کے ہماری نوکریوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور ہم اس کیلئے کیا کر سکتے ہیں۔

آگے بڑھنے سے قبل ’’ڈیٹا‘‘، ’’انفارمیشن‘‘، اور ’’نالج‘‘ سے ہم آہنگی بہت ضروری ہے کیونکہ یہ بیان کردہ دلائل کیلئے انتہائی اہم ہے۔ ڈیٹا کسی بھی شے کے محض خام اعداد و شمار یا غیر عددی خاصیت ہے جسے ترتیب نہ دیا گیا ہو اور بعض اوقات اس میں سیاق و سباق بھی شامل نہیں ہوتے۔ جب اس ڈیٹا کو سوال کا جواب دینے کیلئے ترتیب دیا جاتا ہے تو ڈیٹا اکٹھا کرنے کا یہ عمل انفارمیشن بن جاتا ہے۔ اور انفارمیشن کو مرتب کرکے اس کا ایک معقول جواب نالج کہلاتا ہے۔

اگر آپ گوگل پر کچھ بھی سرچ کرتے ہیں تو یا تو وہ آپ کو ڈیٹا فراہم کرے گا (اگر آپ ’’پاکستان کا دارالحکومت‘‘ سرچ کریں گے تو گوگل کا جواب ہوگا ’’اسلام آباد‘‘) یا کسی اور تشکیل دی گئی انفارمیشن (اگر آپ ’’اسلام آباد کا بہترین ریستوران‘‘ سرچ کریں گے تو گوگل لوگوں کی ریٹنگ کے حساب سے اس کا جواب تیار کرے گا) لیکن یہ آپ کیلئے انفارمیشن خود سے تشکیل نہیں کرے گا۔

مثال کے طور پر آپ پاکستان میں فری لانسرز کیلئے ادائیگیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے فنانشل ٹیکنالوجی کے ایک سٹارٹ اپ کا آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ مارکیٹ کے حجم کے بارے میں جاننے کیلئے آپ کو یہ جاننا پڑے گا کہ پاکستان میں کتنے فری لانسرز موجود ہیں اور ان کے کام کا تناسب کیا ہے۔

گوگل پر آپ ’’پاکستان میں فری لانسرز کی تعداد‘‘ سرچ کر سکتے ہیں یا ’’پاکستان میں لیبر فورس کا حجم‘‘ سرچ کر سکتے ہیں اور گوگل ورلڈ بینک اور پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے فراہم کردہ ڈیٹآ سمیت آپ کو فری لانسرز کی تعداد اور لیبر فورس کے حجم سے متعلق تفصیلات فراہم کرے گا۔

لیکن اگر آپ ’’پاکستان میں فری لانسرز لیبر فورس کا تناسب‘‘ سرچ کریں تو جب تک کہ کسی اور نہ یہ اعداد و شمار مرتب کرکے انٹرنیٹ پر اپ لوڈ نہیں کئے تب تک گوگل آپ کو مطلوبہ جواب فراہم نہیں کر سکتا یہ بس آپ کو پچھلی دو سرچ کو ملا کر سب سے بہتر نتائج فراہم کرے گا۔

اگر یہ موجودہ سال کیلئے بھی ایسا نہیں کر سکتا تو یہ ہمیں وقت کے ساتھ بدلتے تناسب سے متعلق بھی معلومات فراہم نہیں کر سکتا۔

لیکن کسی دن، کوئی نہ کوئی اس کوڈ کو توڑے گا اور ایک ایسا سرچ انجن تخلیق کرے گا جس میں خود سے ایلگورتھم پروسیس کرنے کی قابلیت ہوگی جو ہر طرح کی زبان میں کئے گئے ہر طرح کے سوالات کو سمجھ کر پلک جھپکتے میں اعداد و شمار مرتب کر کے آپ کو وہ نتائج فراہم کرے گا جو شاید گھنٹوں کے حساب کتاب سے جان چھڑوا دے گا۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو ہماری نوکریوں کا کیا ہوگا خاص طور پر سفید پوش نوکریوں کا؟

اگر سرچ انجن ایک قدم آگے ترقی کرتے ہیں اور ہمارے تمام عوامی (شاید کچھ نجی بھی) ڈیٹا کو مرتب کر کے مشکل سے مشکل سوالات کے بھی خود سے جواب اور نتائج نکالنے کی قابلیت رکھتا ہو تو کیا ہوگا؟

مثال کے طور پر ہم فرض کرتے ہیں کہ آپ فرائز لینڈ کیمپینا پاکستان (سابقہ اینگرو فوڈز) میں ایک کاروباری تجزیہ کار ہیں اور آپ کو کمپنی کیلئے اگلی پراڈکٹ کی نشاندہی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس تجزیہ کو پورا کرنے کیلئے لازمی طور بے شمار عناصر شامل ہوں گے لیکن شاید آپ اس کیلئے پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے مرتب کردہ گزشتہ کچھ سالوں کے ہاؤس ہولڈ انٹی گریٹڈ اکنامک سروے (ایچ آئی ای ایس) کا مطالعہ کریں گے۔

اس کو استعمال کرنے کیلئے آپ غالبا ہر سال کے ڈیٹا کو ایکسل فارمیٹ میں مرتب کریں گے اور اعداد و شمار کے حساب کتاب سے آپ جان سکیں گے کس شعبے نے تیزی سے اور کس شعبے نے سب سے زیادہ ترقی کی۔

لیکن کیا ہو اگر ایک سرچ انجن مکمل طور پر ہاؤس ہولڈ سروے کیلئے درکار تمام خصوصیات لئے آپ کے سوالات کے جامع اور مربوط جوابات دینے کی صلاحیت رکھتا ہو؟ تو پھر مخصوص ڈیٹا کی ترتیب کیلئے آپ پورا دن صرف کرنے کی بجائے آپ کو مختصر وقت میں وہ تمام جوابات اور نتائج مل جائیں گے جس سے آپ اپنے باس کو کچھ بھی نیا بتانے کیلئے ہر طرح سے تیار ہوں گے۔

اس جگہ پر پاکستانی معیشت مسائل سے گھری ہوئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لمز اور آئی بی اے جیسے بڑے تعلیمی اداروں کے گریجوایٹس سمیت زیادہ تر پاکستانی ورک فورس کو یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ متعلقہ سوالات کون سے ہوتے ہیں۔ وہ بس ڈیٹا پراسیسنگ اور وہ فیصلہ سازی کیلئے ضروری اس ڈیٹا کو انفارمیشن میں ڈھالتے کی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں پاکستان میں اس وقت ہمیں لگتا ہے کہ جو لوگ بہتر جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہی سب سے بہتر اور ہونہار ہیں۔ لیکن ان باصلاحیت اور ہنرمند افراد میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جنہیں یہ علم ہے کہ پوچھنے کیلئے صحیح سوال کیا ہے۔ حتیٰ کہ موجودہ دور میں بھی جب پوری دنیا وقت بچانے کیلئے اس قسم کی سفید کالر ملازمتوں کو ہذف کرتی جا رہی ہے اس تعداد میں اضافہ کی رفتار انتہائی سست ہے۔

ہم اس نہج پر کیسے پہنچے؟ اس کا جواب سادہ ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں سقم موجود ہیں اور تکنیکی ترقی میں دنیا کے قدم سے قدم ملا کر نہیں چل پا رہے۔

تعلیمی مسئلہ

اس مضمون کی ہیڈلائن میں لمز اور آئی بی اے کا ذکر کیا گیا جو شاید ان اداروں کے ساتھ زیادتی ہو کیونکہ یہ دونوں ادارے پاکستانی طلبا میں تنقیدی سوچ کو نکھارنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہے ہیں اور طلباء میں محض کسی سوال کے درست جواب کے ساتھ ساتھ درست سوال کرنے کی صلاحیتیں بھی پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن اس مرحلے میں انہیں جن مسائل کا سامنا درپیش ہے ان میں سے ایک ہمارا سکول کا تعلیمی نظام ہے جہاں گزارے گئے 12 سال میں ان کی تربیت جس انداز میں ہوتی ہے یونیورسٹی میں 4 سالوں میں اس کے اثرات ختم کرنا تقریبا ناممکنات میں سے ایک ہے۔

یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ہمارے سکولوں کے نظام میں مسئلہ ہے جہاں دن رات پڑھائی اور رٹا سسٹم کے بعد امتحانات میں کامیابی ملتی ہے لیکن جن امور کا فقدان ہے اس کے بارے میں آگاہی کم ہے۔ ذیل میں کچھ مثالیں درج کی گئی ہیں۔

یہ اپریل 1996ء کی بات ہے جب میں چھٹی کلاس میں زیر تعلیم تھا ہمارے استاد نے ہمیں ’ایک مشہور سائنسدان سے متعلق معلومات‘ اکٹھی کرنے کیلئے کہا۔ مجھے لوئس پاسچر پر کام کرنا تھا۔ 1996ء میں 10 ہزار سے بھی کم پاکستانیوں کے پاس انٹرنیٹ تک رسائی تھی اور اس دور میں انٹرنیٹ بھی اتنا کارآمد نہیں تھا جتنا یہ آج کل ہے۔ تو اس لحاظ سے یہ اسائنمنٹ دینے کی منطق سمجھ میں آتی ہے۔

انٹرنیٹ سے پہلے کی دنیا میں اس کا مقصد یہ سکھانا تھا کہ کیسے ایک لائبریری میں مطلوبہ کتاب تلاش کی جائے جس میں وہ تمام مواد موجود ہو جس کی ایک طالبعلم کو تلاش ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں زیادہ تر سفید پوش ملازمتوں کا مقصد معلومات اکٹھی کرنا تھا یہ طالبعلموں کو سکھانے کیلئے ایک بہترین ہنر تھا۔

اساتذہ اور طالبعلموں کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ معلومات اکٹھی کرنے میں اتناے مصروف تھے کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہ ہوا کہ ان معلومات کو اکٹھا کرنے کا مقصد کیا ہو سکتا ہے یا یہ معلومات کس حد تک مفید یا ناقص ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ جس شخص کے بارے میں معلومات اکٹھی کر رہے ہیں اس کے سائنسی تجربات کی افادیت یا اس کے مرتب ہونے اثرات کو سمجھا جائے۔

حالات کے بگڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 2020ء میں بھی جب سب کے پاس سمارٹ فون ہیں جس میں وکی پیڈیا سے تمام معلومات دستیاب ہیں طلبا کو اسی طرح کی اسائنمنٹ ہی دی جاتی ہے۔

جب طلبا ہائی سکول میں داخل ہوتے ہیں یہ صورتحال مزید بگڑ جاتی ہے کیونکہ کئی قابل اساتذہ کو وہ ماحول ہی دستیاب نہیں ہوتا جس کے ذریعے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ پاکستان میں میٹرک/انٹرمیڈیٹ سے لے کر او/اے لیول تک طلبا کو پڑھنے کیلئے کم و بیش ایک ہی قسم مشکل نصاب اور دباؤ کا سامنا رہتا ہے جہاں اس بات سے قطع نظر کہ جو طلبا پڑھ رہے ہیں اس کو سمجھ بھی رہے ہیں قابلیت کا موازنہ امتحانات میں لئے گئے نمبروں سے کیا جاتا ہے۔

مختصر یہ کہ ہم نے ایک ایسا نظام تیار کیا ہوا ہے جہاں اچھا طالبعلم اور ذہین طالبعلم ہونا دو الگ الگ باتیں ہیں۔

مثال کے طور پر ہم سے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے جمع اور تفریق کی منطق کو سمجھتے ہوئے سکول میں کیلکولس کا مضمون پڑھا ہوگا؟ مجھے شک ہے کہ اکثریت نے یہ منطق بعد میں سیکھی ہوگی کیونکہ رٹا سسٹم کا یہ طریقہ کار نہ صرف آسان تھا بلکہ تیز بھی تھا اور امتحانات میں نمبر بھی اچھے آتے تھے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور اپنی طرف سے میں نے بھی پاکستان کے ایک بہترین سکول سے تعلیم حاصل کی۔

یہ بات کیوں معنی رکھتی ہے کہ میں نے کیسے یہ امور سکول میں سیکھے؟ کسی نے بھی اصل زندگی میں اس کے استعمال کی بات ہی نہیں کی۔

یہ نظریہ بالکل غلط ہے۔

جس طریقے سے ہم نے سیکھا یہ طریقہ سکول میں سکھایا جانے والا واحد اہم طریقہ ہے۔ صرف حقائق جاننا ضروری نہیں ہمیں یہ بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ساری زندگی کیسے سیکھتے ہوئے گزاری جا سکتی ہے۔ اور اگر ہم نے امتحان پاس کرنے کیلئے کسی شارٹ کٹ کا استعمال کیا ہے تو جب ہم کسی حکومت، کاروبار یا ملک کو اس انداز میں چلاتے ہیں تو اس میں اچنبھے والی بات کیا ہے؟

جب وزارت خزانہ ہر سہ ماہی میں پیش کی جانے والی جائزہ رپورٹ میں تسلی بخش اعداد و شمار پیش کرتی ہے جس کا پابند ہمیں عالمی مالیاتی فنڈ نے کیا ہے لیکن ہمارے پاس آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے کو یقینی بنانے کیلئے کوئی مناسب پلان بھی نہیں تو کیا تب بھی حیرانی ہوتی ہوگی؟

ہماری وزارت خزانہ کا عملہ پاکستانی سکول سسٹم کی بہترین مثال ہے جو امتحان لینے میں بہت سے بھی زیادہ اچھے ہیں۔ وہ اس امر کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر ان کو کیا سیکھنا چاہیئے۔

جو طلبہ امتحان پاس کرنے کیلئے کسی شارٹ کٹ کا استعمال کرتے ہیں ان میں سیکھنے کی قابلیت کا فقدان ہوتا ہے۔ مجھے آئی بی اے میں اپنے تعلیمی دور کے دوران 2011ء کے آخری سمسٹر میں اکاؤنٹنگ کی ایک کلاس یاد آ گئی جہاں ایک طالبعلم کی زیر قیادت طلبا کے ایک گروہ نے پروفیسر سے کلاس میں ان کے پڑھانے کی رفتار کو کم کرنے کی درخواست کی۔

طلبا کا مؤقف تھا ’’سر، ہماری بیس (بنیاد) نہیں ہے اکاؤنٹنگ میں۔‘‘ اس کلاس کا نام تھا ’’اکاؤنٹنگ کا تعارف‘‘۔ اس کا نصاب انتہائی مہارت سے اس طرح ڈیزائن کیا گیا تھا کہ بزنس پروفیشنلز کیلئے اکاؤنٹنگ کی تعلیم کیلئے بنیاد فراہم کی جا سکے۔ پروفیسر صاحب ایک اچھے انسان تھے جنہوں نے بہت اچھی تعلیم دی۔ اس لئے ایسا نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ایک برا استاد ہی طلبا کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔

اس طالبعلم اور میری کلاس کے کئی اور طلباء کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ عشرت حسین کی کوشش تھی کہ آئی بی اے کے زیر اہتمام تمام ایم بی اے کے نصاب کو ہارورڈ بزنس اسکول کی طرز پر کیس سٹڈی طریقہ کار میں تبدیل کیا جائے جہاں پہلے پڑھائی اور بعد میں اس کے اطلاق کی بجائے طلبا کاروباری امور کو سیکھنے اور سمجھنے کیلئے براہ راست کسی کاروبار پر اس کا اطلاق کرتے ہیں۔

یہی وجہ تھی اکاؤنٹنگ کے اصولوں کو سمجھنے کیلئے اپنے دماغ کے استعمال کا یہ طریقہ کار میرے اس کلاس فیلو کیلئے بہت زیادہ مشکل تھا۔ اپنا ایم بی اے مکمل کرنے کے بعد اس نے او/اے لیول کے بچوں کو پڑھانے کیلئے سکول کے بعد ایک ٹیوشن سنٹر کھول لیا۔

اگر آپ کے بھی سیکھنے اور سمجھنے کے مسائل میرے اس کلاس فیلو کی طرح ہیں تو بری خبر یہ ہے کہ یہ اب مزید مشکل ہونے والا ہے۔

مصنوعی ذہانت کس طرح بیک وقت آپ کی زندگی کو آسان اور مشکل بنا سکتی ہے

یہ سمجھنے کیلئے کہ مصنوعی ذہانت کس طرح ہماری ملازمتوں پر اثر انداز ہوگی پہلے درج کی گئی مثال کو دہراتے ہیں کہ کس طرح فرائس لینڈ کیمپینا کا ایک کاروباری تجزیہ کار یہ طے کرے گا کہ کمپنی کو اگلی کون سی مصنوعات متعارف کروانی چاہیئں۔ اس طرح کی صورتحال میں کیا کرنا چاہیئے اس کی تفصیل درج زیل ہے۔

کمپنی کا چیف ایگزیکٹو آفیسر اور اس کی انتظامیہ اس کمپنی کی آمدن کی سست شرح کے حساب سے مالی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان کی حالیہ پراڈکٹ ان کے کاروبار کی مسلسل ترقی کیلئے ناکافی ہے۔ پھر وہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس پراڈکٹ کو کمپنی کے کاروبار میں شامل کیا جائے جو ان کے کاروبار کو ترقی دینے میں مدد فراہم کرے؟

اب اس سوال کا جواب دینے کیلئے مزید کئی سوالات درکار ہیں جیسا کہ پاکستان میں کھانے پینے کے تیزی سے ترقی کرتے ہوئے شعبہ جات کون سے ہیں؟ ان میں سے کون سے شعبہ جات ایسے ہیں جہاں ڈبہ بند کھانے کی اشیاء کم استعمال ہوتی ہیں؟ ان میں سے کون سے شعبہ جات میں پیداوار کیلئے ہمارے پاس صلاحیتیں موجود ہیں؟ اور کمپنی کیلئے سب سے زیادہ منافع کس شعبہ میں ہے؟

ان میں سے ہر سوال کا جواب اعداد و شمار پر مبنی ہے۔ اس طرح کے ذیلی سوالات کسی کاروباری ادارے کا سربراہ تیار کرتا ہے جو ہر سوال کو اپنے ماتحت کو منتقل کر دیتا ہے اور وہ ماتحت اس سوال سے وابستہ ذیلی سوالات کے جواب کیلئے ایک لائحہ عمل طے کرتا ہے۔

سوالات کے انبار کا جواب دینے کیلئے اضافی سوالات درکار ہوتے ہیں اور اس طرح ہم اس کے بالکل ابتدائی مرحلے تک پہنچ جاتے ہیں جہاں ہمیں صرف اس خام ڈیٹا کو مفید معلومات میں تبدیل کرنا ہوتا ہے۔

تیار کی گئی اس معلومات کو دلائل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور طرح جو تصویر ابھرتی ہے اس سے ہمارے بنیادی سوال کا جواب ہمیں ملتا ہے۔

اگر آپ نے حال ہی میں ایک بیچلرز کی ڈگری حاصل کی ہے اور آپ ایک نوجوان کاروباری تجزیہ کار ہیں تو آپ کو اپنے تجزیے کیلئے سوالوں کے جواب کییلئے سوال کی تہہ تک پہنچنا پڑے گا۔ یہ ایک محنت طلب کام ہے اور کمپنی اس بات کا فائدہ اٹھاتی ہے کہ اسے کم معاوضہ پر کام کرنے والے تجزیہ کار دستیاب ہوتے ہیں اور وہ شاید زیادہ سمجھ بوجھ بھی نہیں رکھتے۔

لیکن کیا ہو اگر مصنوعی ذہانت سے آپ سے ایک درجہ اوپر کے افراد الگورتھم کے استعمال سے اپنا کام کرنے کی صلاحیت حاصل کر لیں۔ تو نتیجتا کمپنی صرف ان کاروباری تجزیہ کاروں کو بھرتی کرے گی جو بنیادی سطح سے ایک درجہ اوپر سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ جو صرف ایکسیل پر بہتر سپریڈ شیٹ تیار کرنے میں ماہر نہ ہوں بلکہ یہ بھی جانتے ہوں کہ اس کا استعمال کیسے کیا جا سکتا ہے اور کیسے ان کے مرتب کئے ہوئے اعداد و شمار بڑے معاملات میں فیصلہ سازی کا حصہ بن سکتے ہیں۔

اگر آپ کو بھی تیزی سے سمجھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں اور سمجھنے سے ہماری مراد یہ ہے کہ آپ ہر روز ایسا کچھ نیا سیکھیں جو نہ صرف آپ کیلئے بلکہ دوسروں کیلئے بھی آسانی کا باعث بنے تو آپ کو ملازمت ملنا مشکل ہوگا۔ اور جلد ہی اچھی ملازمتیں صرف تیزی سے سیکھنے والوں کیلئے ہی رہ جائیں گی جس کا مطلب یہ ہوا کہ ملازمت صرف انہیں ہی ملے گی جو صرف امتیازی نمبروں سے پاس ہونے کی بجائے کچھ نیا سیکھنا جانتے ہیں۔

لمز، آئی بی اے اور پاکستان کی درسری یونیورسٹیوں میں درپیش مسائل

پاکستان کی چھوٹی بڑی تمام یونیورسٹیوں کے مسائل کی جڑ ان کا کلچر ہے۔ ان میں وہ طلبا بھی شامل ہیں جو اصل میں اپنے خیالات کو وسعت دینے، نئے تصورات سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن ایسے طلبا کی تعداد ہمیشہ کی بہت کم رہی ہے۔

طلبا کی بڑی تعداد یونیورسٹیوں کو ایسا ادارہ سمجھتی ہے جہاں سے تعلیم حاصل کرکے انہیں ان کی منشاء کے مطابق روزگار، کیریئر اور رشتے مل سکتے ہیں۔

اور جب وہ داخلہ لیتے ہیں تو ان کا مقصد ان تمام چیزوں کو کم سے کم محنت کر کے حاصل کرنا ہوتا ہے۔ پلیجرازم (ادبی چوری) ہماری یونیورسٹیوں کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے اور ایک ادارے سے بہت زیادہ فارغ التحصیل گریجوایٹس میں بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو اپنے شوق یا اپنی دلچسپی کو حاصل کرتے ہیں۔

اور جب ایسے افراد کسی یونیورسٹی میں اکثریت حاصل کر لیتے ہیں تو وہ بھی اسی کلچر کا حصہ بن جاتے ہیں جس کے تحت محنت کرنے والے افراد بھی اسی ڈگر پر چل پڑتے ہیں۔ زیادہ محنت کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے جب کم محنت سے بھی کام چل سکتا ہے؟ مجھے اپنی صلاحیتیں نکھارنے کی کیا ضرورت ہے جب میرے اردگرد نااہلوں کا ٹولہ جمع ہے اور میں جانتا ہوں کہ میں کم محنت کر کے بھی ان سے منفرد رہ سکتا ہوں؟

لمز کے گریجوایٹس میں اس طرح کے خیالات اسی کلچر کی عکاسی کرتے ہیں۔ اور جب ان کا سامنا کسی دوسرے ادارے سے ہوگا تو ایک منٹ سے کم عرصے میں مات کھا جائیں گے۔

لیکن مصنوعی ذہانت ان کے مقابل کھڑی ہوگی جہاں ان کا سامنا کسی دوسرے ادارے سے نہیں بلکہ الگورتھم سے ہوگا۔ اور بدقسمتی سے یہ ادارے باوجود کوشش بھی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی تربیت دینے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔

ابھی ان تعلیمی اداروں میں یہ خوف پیدا نہیں ہوا کہ مشینیں ان کی جگہ لے لیں گی جس کا مطلب یہ ہوا کہ مستقبل میں کام کرنے کیلئے ابھی ملازمین ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔

اس مسئلے سے کیسے نپٹا جائے

لیکن اب کیا کیا جائے؟ آپ جانتے ہیں کہ آپ کی تعلیمی قابلیت ناقص ہے۔ باہر کے ملک میں واقع کسی بھی یونیورسٹی کے گریجوایٹ کی ترقی سے فائدہ اٹھانے کی بجائے آپ کے دل میں اس سے متعلق نفرت مزید بڑھ جائے گی۔

لیکن ایک راستہ ہے جس سے آپ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ جو کام آپ کر رہے ہیں اس کا متبادل کوئی مشین نہیں اور اس کیلئے آپ کو اپنے ذہن میں سے سستی اور شارٹ کٹ جیسی خرافات کو نکالنا پڑے گا اور اپنے آپ کو عالمی معیار کے مطابق اہل بنانا پڑے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کیا کرتے ہیں دنیا بھر میں بے شمار فری لانس پلیٹ فارمز ایسے ہیں جہاں آپ کی صلاحیتوں کی قدر کی جاتی ہے۔ تو اگر آپ ایک باقاعدہ ملازمت کرتے ہیں پھر بھی آپ کو ان پلیٹ فارم پر رجسٹرڈ ہو کر دنیا بھر میں اپنی خدمات پیش کرنی چاہیئں۔

اس سوچ کے دو فوائد ہیں۔ پہلا یہ کہ اس طرح سے آپ زیادہ آمدنی کما سکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اس طرح آپ اپنے کام کے دائرہ کار کی زیادہ تر ممکنات حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کا مقابلہ دنیا میں سے سے بہتر کے ساتھ ہے تو آپ بہتر بننے کیلئے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور اس کے عوض آپ پاکستان میں بہتر پروفیشنل بن سکتے ہیں۔

تاریخ میں پہلی مرتبہ آپ کو عالمی معیار پر مقابلہ کرنے کیلئے کسی باہر کے ملک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ یہ کام گھر بیٹھ کر بھی کر سکتے ہیں۔ بس آپ کو ایک کمپیوٹر اور ایک انٹرنیٹ کنکشن کی ضرورت ہے۔

تیزی سے پھیلتی ہوئی مصنوعی ذہانت سب کیلئے باعث راحت نہیں ہوگی۔ لیکن اگر کوئی محنت کرے گا تو اس کیلئے مصنوعی ذہانت بے شمار فوائد کا باعث بنے گی۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here