معاشی پالیسی پر حکومتی یوٹرن، پاکستان بزنس کونسل نے مسترد کر دیا

805

کراچی: پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) نے سخت الفاظ پر مشتمل ایک بیان جاری کیا ہے جس میں حکومت کے سرچارجز اور ٹیکسز کے حوالے سے موقف کو رَد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ بارہا یوٹرن لینے کے مترادف ہیں۔

پی بی سی نے جمعرات کو جاری کیے گئے بیان اور جمعہ کے روز اپنے ایک ٹویٹ میں کہا:اگر یہ فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا تو اس سے پاکستانی برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

پی بی سی 2005 میں قائم ہوئی، یہ ایک بزنس پالیسی ایڈووکیسی پلیٹ فارم ہے جس میں پاکستان کی 81 بڑی کمپنیاں اور کارپوریشنز شامل ہیں۔

قبل ازیں یکم جنوری 2019 میں حکومت نے پانچ ایکسپورٹس سیکٹرز کے لیے سات اعشاریہ پانچ سینٹ کے ٹیرف کا اعلان کیا تھا۔

پی بی سی کے مطابق، تاہم بہ مشکل ایک سال بعد ہی 13 جنوری 2020 کو وزارت توانائی نے پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو مزید سرچارجز وصول کرنے کی ہدایت جاری کی جن کا حجم 70 فی صد بنتا ہے، جس کے باعث کلو واٹ فی گھنٹہ کی مجموعی لاگت 13 سینٹ ہو گئی ہے۔ حالات اس وقت مزید خراب ہوئے جب یہ یکم جنوری 2019 سے لاگو کیے جائیں گے۔

کونسل کے مطابق، اگر اضافہ شدہ ٹیرف کا موازنہ انڈیا، بنگلہ دیش اور چین سے کیا جائے تو یہ بہت زیادہ ہیں کیوں کہ انڈیا اور بنگلہ دیش میں ٹیرف سات سے نو سینٹ اور چین میں سات اعشاریہ پانچ سے 10 سینٹ ہے۔

پی بی سی نے کہا: برآمدکنندگان کیوں کر بدترین طور پر منتظم کیے جا رہے توانائی کے نظام کی کم تر اہلیت کی قیمت کا بوجھ برداشت کریں؟ سات اعشاریہ پانچ سینٹ کلو واٹ فی گھنٹہ کی قیمت میں پہلے ہی ڈسٹری بیوشن اور فکسڈ کاسٹ کے لیے پانچ اعشاریہ 27 سینٹ کا فرق موجود ہے۔

ان ٹیکسوں کے علاوہ پی بی سی نے دیگر انحصاط پذیر حکومتی پالیسیوں پر بھی بات کی۔

اول، پی بی سی نے فنانس ایکٹ 2019 کی جانب اشارہ کیا جس کے تحت پلانٹس اور مشینری پر سرمایہ کاری پر ٹیکس کریڈٹ جون 2020 تک نصف کر دیا گیا اور جولائی 2020 اور جون 2021 کے دوران یہ کریڈٹ مکمل طور پر واپس لے لیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے:یہ صورت حال پریشان کن ہے کیوں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی سطح بنگلہ دیش اور انڈیا سے نصف ہے۔

دوسرا، گروپ نے موبائل فونز پر درآمدی ڈیوٹی پر کمی کی جانب اشارہ کیا۔ مقامی طور پر پروڈکشن بڑھانے کے لیے امپورٹ ڈیوٹی نہیں بڑھائی گئی جس سے بہت زیادہ سرمایہ کاری ہوتی، پی بی سی نے کہا ہے کہ حکومتی فزیبلٹی پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ پی بی سی کے مطابق:ان اقدامات سے درآمدات کو کم کرنے کی حوصلہ افزائی کس طرح ممکن ہو سکتی ہے؟

پی بی سی نے میک ان پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسی کے حوالے سے کمٹمنٹ کو دہرایا جس کا مقصد ویلیو ایڈڈ برآمدات، درآمدات میں کمی کی حوصلہ افزائی کرنا اور ملک میں نئی ملازمتیں پیدا کرنا ہے۔ کونسل نے استدلال پیش کیا، پالیسی کے حوالے سے یوٹرن بالخصوص جب اس کے منفی اثرات مرتب ہوں، وہ مقاصد کے حصول کے تناظر میں ضرر رساں ثابت ہوتے ہیں۔

اس کے بجائے پی بی سی نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ان تمام یوٹرنز کا جائزہ لے، پاکستانی صنعت کی اہلیت کو بحال کرے اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرے۔

پی بی سی نے ایک مکمل اور طویل المدتی پالیسی کی تشکیل پر بھی زور دیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے:وزارتوں کی جانب سے پالیسی میں تبدیلی بعض اوقات مشکلات کا باعث بنتی ہے۔ اس کی اہم ترین مثال تو وزارت کی جانب سے ریونیو حاصل کرنے کی جستجو ہے تاکہ وزارت کے قلیل المدتی اہداف پورے کیے جاسکیں، لیکن اس عمل کے باعث کاروبار اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونے کے علاوہ حکومتی اہداف متاثر ہوتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here