کاروں کی فروخت میں گزشتہ چند ماہ سے کمی کی وجہ سے پاکستان میں کارساز کمپنیوں نے پروڈکشن میں کمی کر رکھی ہے جس کا اثر ظاہر ہے انکی مالی حالت پر بھی پڑا ہے، پاکستان میں سیڈان اور کرولا گاڑیاں بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ٹیوٹا نے ایک نئی سیڈان گاڑی Yaris متعارف کرنے جا رہی ہے جو شائد کمپنی کی کم ہوتی سیلز کو بڑھانے اور مالی حالت بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکے۔
سیڈان کیٹیگری کی 1300 سی سی سے زیادہ صلاحیت کی حامل Yaris کے بارے میں توقع ہے کہ یہ رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی کے اختتام پر متعارف کرائی جائے گی اور اسکی قیمت 2.3 ملین روپے سے 2.9 ملین روپے کے درمیان رہنے کی توقع ہے جو کہ اسی کمپنی کی کرولا گاڑی سے قدرے کم قیمت ہے، کرولا کی حالیہ ریٹیل پرائس 2.5 ملین روپے سے 3.7 ملین روپے کے درمیان میں ہے۔
اے کے ڈی سکیورٹیز (AKD Securities) کی جانب سے اپنے کلائنٹس کو جاری کردہ نوٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ ایک سال کے اندر اگر Yaris گاڑی کے 30 ہزار سے 50 ہزار یونٹس فروخت ہوتے ہیں تو انڈس موٹرز کے سالانہ منافع میں 5 فیصد سے 31 فیصد تک اضافہ ہو گا۔
ابھی تک ٹیوٹا اپنے اہم ترین برانڈ کرولا پر انحصار کر رہی تھی جو پاکستان میں سیڈان کی جگہ لے چکی ہے، گزشتہ دس سال کے دوران 1300 سی سی والی کرولا کی اوسط پاکستان میں 61 فیصد رہی اور گزشتہ پانچ سالوں کے دوران اس گاڑی سے کمپنی کو اوسطاََ 75 فیصد منافع حاصل ہوا ہے۔
کرولا پر بہت زیادہ انحصار ٹیوٹا کیلئے نقصان دہ ثابت ہوا کیونکہ کوئی بھی ماڈل زیادہ سے زیادہ دو سال تک چل جاتا ہے، لیکن ٹیوٹا کی جانب سے لمبا وقفہ آیا اس دوران سیلز میں کمی آگئی، اب اس طویل التواء میں Yaris سیلز کو بحال کرنے میں شائد کارآمد ثابت ہو سکے۔
اے کے ڈی سکیورٹیز میں ریسرچ اینالسٹ علی اصغر پونوالا نے 19 دسمبر کو کلائنٹس کو جو نوٹ جاری کیا اس میں لکھا کہ ’’تینوں بڑی کمپنیوں نے گاڑیوں کی قیمتوں میں گزشتہ دو سالوں کے دوران اضافہ کیا ہےلیکن انڈس موٹرز سنے اپنی ٹویوٹا گاڑی کی قیمت میں سب سے زیادہ اضافہ کیا ہے اور یہ اضافہ بھی مختصر وقفوں کے بعد کیا گیا ہے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے انڈس موٹرز کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کا رجحان جاری رہے گا۔‘‘
نئی گاڑی Yaris کو متعارف کرانے کے لیے ٹیوٹا اچھی پوزیشن میں ہے، اے کے ڈی سکیورٹیز کے مطابق ٹیوٹا کی پروڈکشن کپیسٹی زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ مارکیٹ میں زیادہ طلب کو آسانی سے پورا کر سکتی ہے۔ نئے ماڈل کو کامیاب بنانے اور اسکے بل پر اپنی سیلز میں اضافہ کرنے کے حوالے سے ٹیوٹا کا ٹریک ریکارڈ بھی اچھا ہے۔
اسکے علاوہ مسابقتی دبائو کی بات کریں تو ہونڈا سٹی کا 2021ء تک اپ گریڈیشن کا کوئی ارادہ نہیں، کِیا موٹرز اور ہونڈائی نے بھی ابھی تک کسی نئے پروجیکٹ کا اعلان نہیں کیا۔
پاکستان میں کاروں کی فروخت کا زیادہ تر انحصار پرسنل ڈسپوزایبل انکم ہوتا ہے، ملک میں معاشی سست روی یا خستہ حالی کے باوجود اپر مڈل انکم گھرانوں کو فرق نہیں پڑتا اور وہ نئی گاڑی خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔
رواں سال معاشی سست روی میں ایک اور مسئلہ کی وجہ سے مزید شدت آگئی جب حکومت نے نئی گاڑی خریدنے والوں کیلئے ٹیکس ریٹرنز جمع کرانا لازمی قرار دے دیا۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگ ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کرتے کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر اثاثے ظاہر کیے تو ایف بی آر ہراساں کرے گا۔
آٹو فنانسنگ:
پاکستان میں کارسازی پر اثرانداز ہونے والا یہ دوسرا فیکٹر ہے کیونکہ کاریں خریدنے کیلئے اکثر بینک ہی صارف کے ایماء پر پیسہ ادا کرتے ہیں جو وہ بعدازاں قرضے کی صورت ادا کرتا ہے، یہ واضح نہیں کہ پاکستان میں کتنی گاڑیاں آٹو لیزنگ پر خریدی جاتی ہیں تاہم یہ واضح ہے کہ گاڑیوں کیلئے قرضوں کی شرح پاکستان میں بنائی جانیوالی اور فروخت کی جانے والی کاروں کی شرح کے براہ راست متناسب ہے۔
کاریں خریدنے کیلئے نئے قرضوں کی شرح گزشتہ چھ سالوں سے تیزی سے بڑی ہے اگرچہ گزشتہ 12 سے 15 ماہ کے دوران اس میں کسی قدر کمی ہوئی ہے، جون 2019ء میں واجب الادا قرضوں کے حجم میں کچھ کمی ہوئی ہے۔
سود کی تیزی سے بڑھتی شرح کی وجہ سے بینک نئے قرضے دینے سے کترانے لگے ہیں، سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کمرشل بینکوں کو قرض کیلئے بینچ مارک ڈسکائونٹ ریٹ تقریباََ دُگنا کیا ہے، جنوری 2018ء میں یہ ریٹ 6.0 فیصد تھا جو صرف 18 ماہ کے دوران 13.25 فیصد ہو چکا ہے۔
کمرشل بینک خاص طور پر 2008ء کو دہرانے سے خوفزدہ ہیں جب بینکوں نے پانچ سال تک قرضے دئیے اور بعد میں ایکدم شرح سود ایسی بڑھی کہ قرض دہندگان قرضے لوٹانے کے قابل ہی نہ رہے جس کی وجہ سے بینکوں کی بیلنس شیٹس متاثر ہوئیں۔
آٹو قرضے میں کمی کا امکان اس قدر تیز یا طویل نہیں ہوگا جتنا 2008ء کے مالی بحران کے بعد ہوا تھا۔ ایک چیز یہ بھی ہے کہ اگر شرح سود 20 فیصد تک پہنچ جائے تو کیا ہوگا؟ لیکن زیادہ تر معاشی تجزیہ کار کہتے ہیں سٹیٹ بینک شرح سود میں مزید اضافہ نہیں کریگا۔
دوسری بات، گزشتہ بحرانی دور کے مقابلے میں اب بینک قرضے دینے میں زیادہ محتاط ہو گئے ہیں، گزشتہ بحرانی کیفیت میں کم و بیش ایک چوتھائی سے زیادہ قرض دہندگان قرض لوٹانے کے قابل نہیں رہے تھے تاہم یہ تعداد اب خاصی کم رہنے کی توقع ہے جس کا مطلب ہے کہ بینک قرضے دینے سے بالکل انکار نہیں کرنے لگے جیسا کہ 2008ء کے بعد کیا تھا۔