اسٹیٹ بینک آف پاکستان لاگو کردہ ضوابط کے مطابق گزشتہ روز (31 دسمبر) مگنیٹک اسٹرپ والے کارڈ کو یورو پے ماسٹر کارڈ ویزہ (ای ایم وی) سے منسلک کارڈز کرنے کی معیاد ختم ہو چکی ہے۔ ان کارڈز کو اکثر بالترتیب پن کارڈ اور چپ کارڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
یعنی آج سنہ 2020ء شروع ہوتے ہی صرف وہی صارفین اے ٹی ایم، کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ استعمال کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنے پرانے پن والے کارڈ کو نئے چپ والے کارڈ سے تبدیل کر لیا ہے۔
تاہم ابھی کئی بینکوں میں متعدد کارڈز کا اندارج ہونا باقی ہے۔ اس صورتحال سے دوچار صارفین کو اپنا نیا ای ایم وی کارڈ ایکٹیویٹ کرنے کیلئے کسٹمر سروس کی مصروف ٹیلی فون لائنز کا سامنا ہے۔ بعض اوقات تو صارفین کو 20 منٹ تک کا انتظار بھی درپیش رہا ہے۔
بینک الفلاح کی ایک صارف سعدیہ بابر کو جب اپنے میگنیٹک اسٹرپ والے کارڈ کی معیاد ختم ہونے سے متعلق علم ہوا تو انہوں نے 2 مرتبہ اپنے نئے ای ایم وی کارڈ کو ایکٹیویٹ کرنے کی کوشش کی۔ جب ان کا رابطہ کسٹمر سروس سے ہوا تو انہوں نے آگاہ کیا کہ سعدیہ بابر سمیت دیگر کئی کارڈز کا تاحال اندراج نہیں ہو سکا ہے۔
بینکوں کی جانب سے پیشگی آگاہ کرنے کے باوجود بھی پچھلے کچھ ہفتوں سے کسٹمر سروس میں تاخیر اور ایک بڑی تعداد میں کارڈز کی ایکٹیویشن کیلئےدرپیش مسائل میں اضافہ ہو گیا ہے۔
بینکنگ انڈسٹری سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ تاخیر کی مدت کا تاحال تعین نہیں کیا جا سکتا اور مختلف بینکوں میں تاخیر کی مدت مختلف ہو گی۔
گمان کیا جا رہا ہے کہ میگنٹک اسٹرپ کارڈز کی معیاد ختم ہونے کے بعد نئے کارڈز کے اندراج میں درپیش مسائل صرف سال کے آغاز میں اپنے عروج پر پہنچیں گے۔ بینکوں کی شاخوں میں لوگوں کا زیادہ رش ہوگا کیونکہ زیادہ تر لوگ اپنے اکاؤنٹس سے پیسے نکلوانے کی کوشش کریں گے اور بینکوں کی ہیلپ لائن پر معمول سے زیادہ کالز موصول ہوں گی۔
اگر اسٹیٹ بینک مداخلت نہ کرے اور کارڈ تبدیلی کی معیاد میں اضافہ نہ کرے تو افراتفری کی یہ صورتحال سال بھر رہنے کی توقع ہے۔
ابھی تک اس امر کی منطق سمجھ میں نہ آ سکی ہے کہ بینکوں نے صارفین سے رابطہ بڑھانے کیلئے عارضی بنیادوں پر نئی بھرتیاں کیوں نہیں کیں۔ بینکنگ انڈسٹری کی کارڈز منتقلی کے عمل میں اہلیت یا کال سینٹرز میں بہتر کارکردگی کا فقدان سمجھ سے بالاتر ہے حالانکہ یہ انڈسٹری کم و بیش ایک سال سے زائد عرصے سے کارڈز منتقلی کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 28 نومبر 2018ء کو پیمنٹ سسٹم ڈیپارٹمنٹ (پی ایس ڈی) کا سرکلر نمبر 9 جاری کیا تھا جس میں تمام بینکوں کے صدور اور چیف ایگزیکٹو آفیسرز کو ڈیجیٹل ادائیگیوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے مخاطب کیا گیا تھا۔ اس سرکلر میں کارڈز کی منتقلی کے علاوہ متعدد سفارشات پر زیادہ زور دیا گیا تھا۔
اس سرکلر کے مطابق ’’کارڈز جاری کرنے والے تمام بینک اور مائیکروفنانس بینک 30 جون 2019ء تک (سوشل ٹراسفر کارڈز کے علاوہ) ادائیگیوں کے موجودہ تمام کارڈز کو ای ایم وی چپ اور پن کارڈ سے تبیل کریں گے۔‘‘
کچھ ماہ بعد 7 فروری 2019ء کو اسٹیٹ بینک نے پی ایس ڈی سرکلر نمبر 1 جاری کیا اور اس تاریخ میں 31 دسمبر 2019ء تک توسیع کر دی۔ اس ڈیڈ لائن میں توسیع کی وجہ متعدد بینکوں کی جانب سے پرانے کارڈز کی تبدیلی کے عمل میں سست روی تھی۔
ایسا ہرگز نہیں کہ مرکزی بینک نے پہلی مرتبہ ای ایم وی کارڈز کے حوالے سے سرکلر جاری کیا ہو۔ 2016ء میں اسٹیٹ بینک کی جانب سے ’ضوابط برائے پیمنٹ کارڈ سیکیورٹی‘ جاری کئے جس میں پہلی مرتبہ پاکستان کیلئے کارڈ سیکیورٹی کا فریم ورک پیش کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ’’الیکٹرانک بینکنگ سے مجموعی طور پر کارڈ سے ادائیگیوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ کارڈز سے ادائیگیوں کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ ساتھ اس سے منسلک خطرات اور دیگر عدم تحفظات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مرکزی بینک صارفین کے اعتماد کو برقرار رکھنے، موجودہ ادائیگیوں کے نظام کو بہتر اور محفوظ بنانے کیلئے کوشاں ہے۔‘‘
اس رپورٹ میں ہدایات جاری کی گئیں کہ 31 دسمبر 2017 تک تمام اے ٹی ایم اور پی او ایس کو یورو پے ماسٹر کارڈ ویزہ کی سہولت فراہم کی جائے، 30 جون 2018ء سے کارڈ جاری کرنے والے تمام ادارے ای ایم وی کارڈز کا اجراء کریں اور 31 دسمبر 2018ء تک چپ اور پن والے کارڈز کی تبدیلی کا عمل مکمل کر لیا جائے۔
تاہم ان تمام ہدایات پر عمل درآمد تاخیر کا شکار رہا۔
2017ء میں حبیب بینک لمیٹڈ (ایچ بی ایل) کے ڈیبٹ کارڈز کی ہیکنگ کے معاملے کے بعد اسٹیٹ بینک نے ایک مرتبہ پھر ای ایم وی کارڈز پر منتقلی کے حوالے سے ہدایات جاری کیں۔ ہیکنگ کے اس حملے سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ 1 کروڑ روپے سے زائد تھا۔
اس حملے کے فوری بعد مرکزی بینک کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا ’’اے ٹی ایم اسکیمنگ ایک غیر قانون عمل ہے جس کے ذریعے ڈیبٹ کارڈز کی پچھلی طرف موجود میگنٹک اسٹرپ سے صارفین کا خفیہ ڈیٹا چوری کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستان بھی اس سے متاثر ہوا ہے۔‘‘
’’یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ڈیبٹ کارڈز کی پشت پر میگنیٹک اسٹرپ میں صافین کا خفیہ ڈیٹا موجود ہوتا ہے جسے اسکیمنگ اور کارڈ کی نقل تیار کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ چپ اور 2 قسم کی تصدیق والے یوروپے ماسٹر کارڈ ویزہ سے مطابقت رکھنے والے کارڈز عالمی طور پر سکیمنگ اور نقل سے بچنے کیلئے محفوظ سمجھے جا رہے ہیں۔‘‘
ای ایم وی اب سمارٹ پیمنٹ کارڈ کیلئے عالمی معیار بن چکی ہے۔ صارفین کے اکاؤنٹ کی تفصیلات میگنیٹک اسٹرپ کے ساتھ ساتھ اِنٹی گریٹڈ سرکٹ چپ پر بھی محفوظ ہوتی رہتی ہیں۔
ای ایم وی کارڈز میں کارڈ ریڈر مشین میں ڈالنے والے اور کونٹیکٹ لیس دونوں طرح کے کارڈز شامل ہیں۔ یہ کارڈز زیادہ محفوظ تصور کئے جا رہے ہیں اور ان میں ہیکنگ کے حملوں اور دیگر قسم کے فراڈ کے امکان کافی حد تک کم ہیں۔
2019ء میں پاکستان میں مجموعی پیمنٹ کارڈ سے رقوم کی ترسیل میں ڈیبٹ کارڈز کا حصہ 96.3 فیصد رہا۔