شیکسپیئر کا اپنے ایک ڈرامہ میں کہنا ہے
دیوانوے، مستانے اور شعراء اپنے تخیلات کی معراج پر ہوتے ہیں
The lunatic, the lover and the poet are of imagination all compact
اگر دیکھا جائے تو یہی مثال ہمارے ہاں اینکر حضرات، سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں پر بھی صادر آتی ہے۔ یہ بھی رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں اور حسب تمنا چاہیں تو کسی کا بت بنا دیں اور چاہیں تو اس بت کو پاش پاش کر دیں۔
ہمارے ہاں بھی غلطیوں سے بھرپور ایک کامیڈی ڈرامہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے مرکزی کرداروں میں خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی، جیو نیوز کے اینکر شاہ زیب خان زادہ اور واٹس ایپ و ٹوئٹر کے تجزیہ کاروں کی فوج شامل ہے۔ اس ڈرامہ میں بالکل مفت لیکن ان چاہی سطحی اخلاقیات کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ
اس سب کا آغاز پشاور کے بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے سے ہوا، اور اگر آغاز سے دیکھا جائے تو یہ ہمیشہ سے ہی پاکستان تحریک انصاف اور ان کے وفاداروں کیلئے درد سر رہا ہے۔ کئی سال پنجاب کے میٹرو بس جیسے پراجیکٹس کو جنگلہ بس کا حوالہ دے کر تنقید کا نشانہ بنانے کے بعد خیبر پختونخوا میں اپنے پچھلے دور حکومت میں تحریک انصاف نے بھی پشاور کو ایک شاندار اور چمچماتی بس سروس دینے کا فیصلہ کیا۔
55.8 ارب روپے کی لاگت کے ساتھ یہ بی آر ٹی پاکستان کا مہنگا ترین منصوبہ تھا اور اور اس کی 88 فیصد ادائیگی ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے کی جا رہی تھی۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے خیبر پختونخوا کی حکومت کو 20 سالہ طویل مدت پر 35 کروڑ ڈالر قرض دینے کا وعدہ کیا تھا جسے اگر روپوں میں تبدیل کیا جائے تو تقریبا 48.8 ارب روپے بنتے تھے۔
اس منصوبہ کا آغاز اکتوبر 2017ء میں کیا گیا اور ابھی تک اس کی تکمیل کیلئے کوئی حتمی تاریخ کہیں نظر نہیں آ رہی۔
اکتوبر 2017ء سے اب تک خیبر پختونخوا کی حکومت پر تقریبا 7 ارب روپے کی خرد برد کے بھی الزامات سامنے آئے ہیں اور موجودہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے بھی اس منصوبہ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ زیرو پلاننگ سے شروع ہوا۔ رواں سال ایشیائی ترقیاتی بینک نے صوبائی حکومت کو 30 تحفظات پر مبنی ایک لسٹ ارسال کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس منصوبے پر جس انداز میں کام کیا جا رہا ہے وہ ناقابل قبول ہے۔
اگر سب کچھ کو غلط کہا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ یہ منصوبہ صرف درد سر نہیں بلکہ اس کے اثرات بے ہنگم ٹریفک، کاروباری و جانی نقصان کی شکل میں پشاور کے رہائشی برداشت کر ہے ہیں۔ گو کہ یہ منصوبہ اب مکمل طور پر سیاسی نذر ہو گیا لیکن اب عام آدمی بھی یہی کہتا نظر آتا ہے کہ اب شاید وقت آگیا ہے کہ اس بے ڈھنگے پراجیکٹ کو ختم کرنا شروع دیا جائے۔
تو جب خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے اس منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے بڑھنے والے ہوشربا اخراجات کے حوالے سے سوالوں کا جواب دینے سے شاید بلی کے فلٹر والی فیس بک پریس کانفرنس کو زیادہ آسان جانا ہوگا۔ (اوہ، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ وہی شوکت یوسف زئی ہیں جن کی پریس کانفرنس دنیا بھر میں وائرل ہو گئی تھی؟ جی یہ وہی ہیں)
ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے جب یہ قرض دیا گیا تب ڈالر کی قیمت 104 روپے تھی اور اب ڈالر کی قیمت 155 روپے ہے۔ اگر دیکھا جائے تو خیبرپختونخوا حکومت کے پاس پچھلے سال کی نسبت خرچ کیلئے زیادہ روپے موجود ہیں۔
وزیر صاحب کے اعداد و شمار کے حوالے سے مبہم اندازے کے مطابق تاخیر سے لاگت میں ہونے والا اضافہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ابھی بھی کم ہے۔ اور یہیں سے ہماری کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔
الجھی گتھی سلجھانا
اگر دیکھا جائے تو بات کچھ حد تک صحیح بھی ہے جس پر غور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بلی کے کانوں والا وقوعہ یوسفزئی کیلئے جگ ہنسائی کا باعث بن گیا۔
اگر کچھ حد تک درست اس امر پر غور کیا جائے تو یہ کہا گیا گیا تھا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے طویل مدتی معاہدوں کی بنیاد پر خیبر پختونخوا کی حکومت کو قرضہ دیا تھا جس کی ادائیگی 20 سالی میں کی جانی ہے اور اس قرضہ کی واپسی کی پہلی قسط وصولی کی پہلی قسط کے 5 سے 6 سال بعد ادا کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی نہ کسی طرح ڈالر کی بڑھتی قیمت صوبائی حکومت کیلئے سودمند ثابت ہوئی ہے۔
یہ دلیل خیبر پختونخوا کی حکومتی ٹیم میں سے ہی کسی نے (اپنی طرف سے) شاطر چال چلتے ہوئے دی ہو گی۔ یا تو یہ مایوسی کی معراج تھی یا افہام و تفہیم کا زوال اور پھر بھی شوکت یوسف زئی نے یہ دہرانے کا فیصلہ کر لیا۔
روپے کی قدر میں گراوٹ کا پشاور بی آر ٹی سے کچھ لینا دینا نہیں اور نہ اس کا مقصد اس انداز میں کمائی کا ذریعہ بننا تھا۔ روپے کی قدر میں کمی ہونا بھی اس تاخیر کا جواز نہیں ہے لیکن حادثاتی طور پر وزیر اطلاعات پریس کانفرنس میں یہ جواز پیش کرتے ہوئے انتہائی مسرور نظر آ رہے تھے۔
سوشل میڈیا صارفین پہلے ہی کسی نئے کلپ کی تلاش میں رہتے ہیں اور شوکت یوسف زئی کی (بلی کے کان والی) ویڈیو ابھی تک سوشل میڈیا پر گردش کرتی نظر آ رہی ہے۔ دور کہیں ایک ٹی وی اسٹوڈیو میں شاہزیب خانزادہ کو کہیں کسی خطرے کی بو آ رہی تھی۔ پاکستان میں میڈیا اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں بہت کچھ اچھا برا کہا جاتا ہے۔ اور ان کے بیانیے ان کی خواہشات سے منسلک ہیں، زیادہ تر اینکر حضرات یا تو چیختے چلاتے یا پھر بغاوت کے داعی نظر آتے ہیں۔
شاہزیب خانزادہ کا انداز کچھ مختلف ہے۔ نیوز اینکرز کے شعبے میں انہوں نے بتدریج اپنا ایک معیار قائم کیا ہے۔ ایک بہترین ریسرچ ٹیم کے بل بوتے پر وہ اپنے مہمان سے مشکل سوالات پوچھتے ہیں، ہلکی مسکراہٹ ضرور دیتے ہیں لیکن اپنے سوال پر قائم رہتے ہیں۔ اور جب شوکت یوسفزئی اس شو میں تشریف لائے تو یہ ان کیلئے کسی محاذ سے کم ہرگز نہ تھا۔

ان سے مناسب سوالات پوچھے گئے۔ اگر اس صورتحال کا اندازہ پہلے سے تھا تو حکومت یہ قرضہ واپس کیسے کرے گی جو ایشیائی ترقیاتی بینک کو ڈالر کی صورت میں واپس چاہیئے؟ اس مناسب سوال کا مناسب جواب دیا جا سکتا تھا لیکن شوکت یوسف زئی بھڑک اٹھے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ کہ اپنی غلطی تسلیم کریں لیکن انہوں یہ اس جانب سوچا ہی نہیں تھا کہ جب یہ قرضہ چکایا جائے گا تو شاید ڈالر کی قیمت میں 75 روپے کا مزید اضافہ ہو سکے۔ اور یہاں ڈرامے کا اختتام ہو جاتا ہے۔
پیچیدگیاں
پروگرام کی اس ویڈیو کو وائرل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ لیکن جہاں شاہزیب خانزادہ کے مداحوں نے تو اس پر دل کھول کر اپنے تبصرے کا اظہار رہا وہاں تحریک انصاف کے کیمپوں پر خاموشی چھائی رہی اور بات یہیں بس نہیں ہوئی کچھ ہی دیر میں یہ ویڈیو بھی واٹس ایپ گروپوں میں نمائش کرتی رہی۔
جیسا کہ کئی قارئین کے علم میں پہلے سے ہی یہ بات ہوگی اور جن کو نہیں پتا ان کیلئے بھی یہ ہوش ربا انکشاف ہے کہ سینکڑوں ہزاروں گروپس میں لاکھوں صارفین اپنے خیالات کا نہ صرف اظہار کرتے ہیں بلکہ اس پر بحث و مباحثہ بھی جاری رہتا ہے۔ ان گروپس کے زیادہ تر ممبرز آپس میں بہت کم ایک دوسرے کو جانتے ہوں گے۔
اس بحث و مباحثہ میں خوب غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اور جلد ہی واٹس ایپ کے تجزیہ کاروں نے کچھ قابل عمل نکات ڈھونڈ نکالے۔ شوکت یوسفزئی شاہزیب خانزادہ کے تند و تیز سوالات کا سامنا نہ کر سکے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ سوال واقعی اہمیت کا حامل ہے۔
کچھ بھی ہو حادثاتی طور پر ہی سہی لیکن ڈالر کی بڑھتی قیمت نے حکومت کی کچھ مدد تو کی ہے۔ شوکت یوسفزئی نے تو اپنے بہترین اقتصادی خیالات کا اظہار کر دیا لیکن بوجھ شاہزیب خانزادہ کے پلڑے میں ڈال دیا ہے جن کی ریسرچ میں کچھ کمی رہ گئی اور شاید انہیں وزیر صاحب پر ’ہتھ ہولا‘ رکھنا چاہیئے تھا۔
ان تجزیہ جات سے تحریک انصاف کے کھلاڑی ایک مرتبہ پھر پر جو ہو گئے اور پھر ایک بہترین تجزیہ تیار ہوا۔ واٹس اپ کے تجزیہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے کہ کیونکہ یہ قرضہ ڈالر کی صورت میں واپس کرنا ہے تو یہ وہ ڈالر ہوں گے جو تجارت اور دیگر آمدن سے آئیں گے تو ہمیں شرح تبادلہ کی فکر نہیں کرنی چاہیئے۔
یہ ہرگز کسی صورت بھی معاشیات کی اچھی مثال نہیں ہے۔ اصل کھیل روپے کا ہے جسے ہم استعمال کر رہے ہیں۔ تو اگر نشاط جیسی کمپنی ڈالرز کماتی ہے اور انہیں پاکستان لاتی ہے تو انہیں روپے میں تبدیل کیا جائے گا لیکن ڈالر کی قیمت اس وقت کے حساب سے ہو گی۔
اسی طرح دیگر آمدن ذرائع ہیں۔ تو ان تمام خیالات و خدشات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کمائے ہوئے ڈالرز کو مارکیٹ ریٹ پر لایا جاتا ہے جس کی قیمت روزانہ کی بنیادوں پر تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ایک مرتبہ پھر الزامات اور کوتاہیوں کا ملبہ تحریک انصاف کی حکومت پر آ رہا ہے۔
مصیبتوں کی آماجگاہ
اس پر مستزاد یہ کہ اس معاملے پر ابھی تک گوناگوں تاثرات سامنے آ رہے ہیں کوئی اسے صحیح کہہ رہا ہے اور کوئی غلط اور دونوں اپنی جگہ پر درست ہیں لیکن اس دوران جو مصیبت بی آر ٹی کی وجہ سے عوام اور حکمرانوں کو جھیلنی پڑ رہی ہے اس کا کوئی ازالہ نہیں۔
پشاور کی چیڑ پھاڑ کا عمل جاری ہے اور جیسے جیسے اس پراجیکٹ پر کوئی پیش رفت ہوتی ہے اس کے زخموں سے خوں رسنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس پر بس نہیں بدانتظامی اور نااہلی اپنی انتہاء پر ہے اور افسوس اس بات پر ہے کہ اس دیو ہیکل مسئلہ کو کبھی اہم مسئلے کے طور پر کسی پلیٹ فارم پر اٹھایا ہی نہیں گیا۔
اگر ہم خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات کے بیان کو اجزائے تفنن کے بغیر دیکھیں اور اسے صرف بھرم قائم رکھنے سے منسوب کریں تو پھر بھی یہ غیر سنجیدہ اقدام ہے۔ اگر حکومت اسے ایک خوشگوار حادثاتی اتفاق تسلیم کر لیتی ہے تو یہ بھی کافی ہے اور اگر بی آر ٹی منصوبہ میں تاخیر اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ سے کچھ فائدہ حاصل ہوا تو پھر بھی تاخیر ہمیشہ سے ہی نقصان کی پہلی سیڑھی رہی ہے۔
اگر اس سے بھی زیادہ کچھ اہم ہے تو کاروباروں کے نقصان اور وقت کی بربادی کا خیال کر لیا جائے جو اس پراجیکٹ کی وجہ سے وجود میں آنی والی بے ہنگم ٹریفک اور ٹریفک جام کی صورت میں جنم لے چکی ہے۔
نا اہلی اور بلاوجہ ضد بازی کی وجہ سے نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے جس کی وضاحت کرنے کیلئے خوشگوار الفاظ کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here