حَنا لاکھانی کا کیرئیر ایسا ہے کہ وہ کسی بھی متوسط پاکستانی والدین کو اچھی خاصی پریشانی سے دوچار کردے، دوسال پہلے وہ انویسٹمنٹ بینک جے پی مورگن نیویارک میں آپریشنز اینالسٹ تھیں، اب کراچی کے علاقے بہادرآباد میں ایک چھوٹے سٹارٹ اَپ کی چیف مارکیٹنگ آفیسر ہیں۔
حَنا کے کیرئیر کے اتار چڑھائو کے پیچھے کچھ اور نہیں بلکہ ’’روشنی رائیڈز‘‘ کے نام کا ایک رائیڈ شئیرنگ سٹارٹ اَپ ہے جو 4 افراد حَنا لاکھانی، گِیا فاروق، حسن عثمانی اور منیب میاں کی ذہنی اختراع ہے۔
باقی تینوں کا پس منظر بھی حَنا جیسا ہے، یہ چاروں پاکستانی نژاد ہیں، امریکی ریاست نیوجرسی میں پلے بڑھے، Rutgers Business School میں تعلیم پائی اور پھر 2018 میں کراچی آ گئے اور کہیں سے انعام میں ملنے والی ایک ملین ڈالر کی رقم سے اپنی کمپنی کھول لی۔
کئی وجوہات کی بناء پر روشنی رائیڈز دیگر کمپنیوں سے الگ ہے، پہلی وجہ یہ کہ کمپنی عین وقت پر پاکستانی مارکیٹ میں آئی ہے جب اوبر اور کریم کی وجہ سے پاکستانی عوام اس قسم کی سروسز سے متعارف ہو چکے ہیں، ائیر لفٹ اور سیول جیسی کمپنیاں بھی رواں سال آئی ہیں جو بس اور شٹل سروس کامیابی کیساتھ فراہم کر رہی ہیں، دو سالوں میں روشنی رائیڈز نے بھی کچھ ترقی سمیٹی ہے اور خواتین کیلئے وین کے متبادل سروس فراہم کی ہے۔
لیکن یہ سب کچھ آپکو متوجہ کرنے کیلئے نہیں ہے اس کہانی میں جو چیز سب سے متاثر کن ہے وہ یہ کہ کیسے امریکی کالج میں پڑھے نوجوانوں کے اس گروپ نے کیسے فیصلہ کرلیا کہ وہ ایک ایسے ملک میں آ کر کام کریں گے جہاں وہ اس سے قبل کبھی نہیں آئے۔ یہ کہانی اس جذبے سے متعلق بھی ہے کہ پاکستان میں کیسے اپنی الگ مارکیٹ بنانی ہے، حال ہی میں منعقدہ 021Disrupt Conference میں ’’سرمایہ کار‘‘ کے بانی رابیل حسین نے ایسے لوگوں کیلئے ’’واپستانی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی اور روشنی رائیڈز اسکی بہترین مثال ہے۔
یہ کہانی شروع کہاں سے ہوئی؟
حَنا کی ملاقات اس کمپنی کے دوسرے شریک بانیوں سے رٹگرز بزنس سکول (Rutgers Business School) میں ہوئی جب چاروں سپلائی چین مینجمنٹ کی کلاسز لے رہے تھے، چاروں ایک ہی کلاس میں، پاکستانی امریکن اور مسلمان تھے۔ حَنا بتاتی ہیں کہ ’’امریکا کوئی دوسرا مسلمان یا پاکستانی دیکھ کر آپ خود بخود اسکی جانب کھنچے چلے جاتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جہاں وہ پلی بڑھی ہیں وہاں انکے زیادہ تر ہمسائے گورے لوگ ہی ہیں جن میں سے زیادہ تر یہودی اور عیسائی ہیں، رٹگرز میں اس لیے جانا چاہتی تھی کیونکہ یہی وہ جگہ ہے جہاں میں اپنے مسلمان دوست بنا سکتی تھی۔
رٹگرز کے ابتدائی سالوں میں دوستوں کے گروپ نے ایک کیس سٹڈی کے سلسلے میں ایک دوسرے سے مقابلے کی ٹھانی، بزنس سکول میں ایسا شاذونادر ہی ہوتا تھا، عام طور پر کمپنیاں وہاں اپنے مسائل لیکر آتیں اور طلباء کو انہیں حل کرنے کیلئے دے جاتیں، چاروں دوستوں کا پہلا مقابلہ امریکی ٹرانسپورٹ کمپنی سی ایچ روبنسن سے متعلق تھا، 15 دیگر گروپس میں سے انکا گروپ مقابلے میں اوّل آیا اور پچاس ڈالر انعام کا مستحق قرار پایا، ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے حَنا کہتی ہیں کہ ’’کالج کے وہ دن واقعی ہی بڑے دلچسپ تھے۔‘‘
اگلے سال انہوں نے امریکی چین سٹور ٹارگٹ کیلئے ایک ای کامرس سلیوشن پر کام کرتے ہوئے پورے کمپس میں ہونے والا مقابلہ جیت لیا، اس طرح انکی آپسی دوستی مزید مضبوط اور گہری ہو گئی۔
حَنا چونکہ دیگر دوستوں سے ایک سال آگے تھیں اس لیے گریجوایشن کے بعد وہ مالیاتی ادارے جے پی مورگن میں چلی گئیں اور بطور آپریشنز اینالسٹ کام کرنے لگیں، لیکن وہ کہتی ہیں کہ باوجودیکہ یہ ایک پرکشش نوکری تھی جو ہر طالبعلم حاصل کرنا چاہے گا لیکن انہیں یہ کچھ زیادہ نہیں بھائی۔
اسی دوران حَنا کو Hult Prize competition کا معلوم ہوا، یہ ایک سالانہ مقابلہ ہے جو ایسی نئی کمپنیوں کے مابین ہوتا ہے جو کسی قسم کا سماجی کام کرنا چاہتی ہیں، مقابلے میں اڑھائی لاکھ طلبہ نے مختلف طرح کے سوشل انٹرپرائزز پیش کیے، اچھی بات یہ ہوئی کہ مقابلے کی شرائط ایسی تھیں کہ ایک ٹیم میں ایسا ممبر بھی ہو سکتا تھا جو اس وقت ادارے کا طالبعلم نہ ہو۔ حَنا نے اسی سے فائدہ اٹھایا، انہوں نے Rutgers کے اپنے پرانے دوستوں کو فون کیا اور مقابلے میں اپلائی کرنے کا کہا، چاروں نے اکتوبر 2016 ورژن وَن میں اپنے کونسیپٹ پرکام کرنا شروع کردیا، چاروں نے سوڈان میں مہاجرین کیلئے ایک بائیسکل شئیرنگ پلیٹ فارم کا منصوبہ پیش کیا، یہ منصوبہ نیوریارک کی سٹی بائیکس کمپنی کی تقلید میں بنایا گیا تھا۔
دسمبر 2016ء میں انہوں نے کمپس رائونڈ جیت لیا لیکن اس کے بعد ایک جج نے یہ نکتہ اٹھا دیا کہ ’’آپ چاروں سوڈان میں مہاجرین کیلئے ایک بزنس مادل بنا رہے ہو لیکن آپ چاروں پاکستانی نژاد ہو اور کبھی بھی سوڈان نہیں گئے، یہاں تک کہ عربی بولنا بھی نہیں آتی، تو آپ اس بزنس ماڈل کو حقیقت کا روپ کیسے دو گے؟‘‘
اس کے بعد گروپ نے فیصلہ کیا کہ اس ملک میں کچھ کیا جائے جہاں سے ان کے والدین نے ہجرت کی تھی، یوں ورژن ٹو میں انہوں نے کراچی کے اورنگی ٹائون میں سولر سسٹم کی حامل رکشہ شٹل سروس متعارف کرائی، یوں وہ مارچ 2017 میں علاقائی سطح کا مقابلہ بھی جیت گئے۔ اسی سال مئی اور جون میں پائلٹ پروجیکٹ کرنے کیلئے گروپ نے اورنگی ٹائون سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے LaunchGood کے ذریعے مسلم کیمونٹی سے 30 ہزار ڈالر فنڈ جمع کیا، کرائے پرایک دفتر لیا اور تین سولر پاور رکشے خریدے اور انتظار شروع کردیا، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کورونگی میں کسی کو سولر پینلز سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، حَنا نے بتایا کہ صرف اس لیے کہ سولر رکشے ذرا پر کشش نظر آتے ہیں لوگ زیادہ رقم دینے کو تیار نہیں تھے، دوماہ کی اس سٹڈی میں ہم نے بہت کچھ سیکھا۔‘‘
یوں انہوں نے یہ آئیڈیا ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور ورژن تھری پر جانے کا سوچا، جو کہ ایک رکشہ پک اپ سروس سے متعلق تھا۔ ستمبر 2017ء میں انہوں نے اقوام متحدہ ہیڈکوارٹرز میں ہونے والے فائنل رائونڈ میں اپنا پلان پیش کیا اور ہلٹ پرائز جیت لیا جس پر انہیں ایک ملین ڈالر ملے۔ یادوں کو تازہ کرتے ہوئے حَنا نے کہا کہ ’’انعامی رقم جیتنے پر ملے جلے جذبات تھے، مجھے زندگی میں کبھی اتنے پیغامات نہیں آئےجتنے اس دن آئے، ہمارے علاقے میں بہت سے مسلمان رہتے ہیں جو ہمارے لیے کوشاں تھے، Rutgers کی مسلم کمیونٹی اور نیوجرسی کی مقامی مساجد نے ہماری کافی مدد کی۔‘‘
جنوری 2018ء میں چاروں پر مشتمل اس گروپ نے سامان سمیٹا اور ہمیشہ کیلئے کراچی آ گئے۔
روشنی رائیڈز آج کہاں پر ہے؟
بالآخر یہ ٹیم ورژن فور پر منتقل ہو گئی اور خواتین کیلئے پک اینڈ ڈراپ سروس شروع کردی، یہ بنیادی طور پر ایک بزنس ٹو بزنس سروس ہے جو بڑے اداروں اور کارپوریشنز میں کام کرنے والی خواتین سے رابطہ کرتی ہے کہ وہ روزانہ روشنی رائیڈز استعمال کریں، انہیں پہلا کلائینٹ 2018 میں ملا اب ان کے کلائنٹس میں دراز، حبیب بینک اور امن فائونڈیشن شامل ہیں۔
اسکے ساتھ ہی انہوں نےستمبر 2019 میں ورژن فائیو متعارف کرایا ہے، یہ اکیلی خواتین اور بچوں کیلئے ایک کارپول سروس ہے، حنا کے مطابق ان کا مقصد معاشرے میں ایسے لوگوں تک رسائی حاصل کرنا تھا جن کے پاس آمدورفت کے اچھے وسائل موجود نہیں۔
دوسال کے ان تغیرات کے باوجود حنا اسے ایک محور سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کیا کر رہے ہیں، لیکن ہم اس لفظ کی نئی تعریف کر رہے ہیں، ہم نے ہمیشہ چاہا ہے کہ ایک ایسی کمپنی بنیں جو لوگوں پر اپنا لائحہ عمل ٹھونسنے کی بجائے انکی بات سنے اور اسکے مطابق چلے۔
آج روشنی رائیڈز کا اپنا آفس ہے جہاں تیس ملازم ہیں، گیا فاروق چیف ایگزیکٹو آفیسر، حسن عثمانی چیف آپریشنز آفیسر، منیب میاں چیف فنانشل آفیسر جبکہ حنا لاکھانی چیف مارکیٹنگ مینجر ہیں۔
اسکے علاوہ انکے اس سٹارٹ اپ کیساتھ 160 ڈرائیورز جڑے ہیں جو ماہانہ تقریباََ 20 ہزار رائیڈز مکمل کرتے ہیں، زیادہ تر کاریں دو سے تین خواتین کو بیک وقت دو سے تین خواتین کو پک یا ڈراپ کرتی ہیں، زیادہ تر نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال، گلستان جوہر یعنی کہ شمالی کراچی سے تعلق رکھنے والی خواتین ان کی کسٹمرز ہیں جو کام کیلئے روزانہ کورنگی، کلفٹن، ڈیفنس یا شہر کے جنوبی حصے میں جاتی ہیں۔
اوبر اور کریم ایسے لوگوں کیلئے ہیں جو لگژری کار رائیڈ استعمال کرسکتے ہیں، ائیر لفٹ قدرے سستی ہے اور صرف حضرات کیلئے شٹل ماڈل پر چل رہی ہے، تاہم روشنی رائیڈز خواتین کو ان کے گھر کے دروازے سے پک کرتی اور وہیں ڈراپ کرتی ہے اس کیساتھ اسکی بڑی کاریں شٹل سروس کی نسبت زیادہ فائدہ مند ثابت ہو رہی ہیں، کیونکہ بنیادی مقابلہ تو ویگن والوں سے جس پر روزانہ خواتین سفر کرتی تھیں۔
روشنی رائیڈز کو دو باتوں کا فخر ہے، پہلی وجہ اسکے ڈرائیورز ہیں جن کے بارے میں حنا لاکھانی کہتی ہیں کہ وہ روشنی فیملی کا حصہ ہیں اور انکے بغیر ہم کچھ بھی نہیں۔
کمپنی ملازمین کو بھرتی کرتے ہوئے چار مراحل میں جانچ پڑتال کرتی ہے جس میں انٹریوز بھی شامل ہیں، ’’اگر آپ کا ڈرائیور خراب رویے کا مالک ہے تو خواتین کو اسکے ساتھ بھی ڈیل کرنا ہوتا ہے۔ ‘‘ تاہم کئیر فائونڈیشن کے اشتراک سے روشنی یہ سب بدلنے کیلئے کوشاں ہے، ڈرائیورز کی تربیت کی جا رہی ہے کہ کسٹمرز خاص طور پر خواتین کیساتھ کیسے بات چیت کرنی ہے۔
چیف آپریٹنگ آفیسر حسن عثمانی نے بتایا کہ دوسری بات جو روشنی کیلئے قابل فخر وہ فنانس سے متعلق ہے، انہوں نے کہا کہ ابھی تک روشنی 2017ء میں جیتے ہوئے ایک ملین ڈالر سے چل رہی ہے اور اس رقم میں سے بھی ابھی تک 75 فیصد خرچ ہو سکے ہیں، اسکے علاوہ روشنی مختلف برانڈز کے ساتھ، بشمول وہیکل ایڈورٹائزمنٹ، پارٹنرشپ میں بھی کام کر رہی ہے۔
حنا کہتی ہیں کہ انہوں نے روشنی کی کاروں میں ایک ’ایکسپرینس باسکٹ‘ متعارف کرائی ہے جس میں ضرورت کی کچھ چیزیں موجود ہوتی ہیں، کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسٹمر گھنٹہ سے ڈیڑھ گھنٹہ سفر کرتا ہے یا کہیں بے ہنگم ٹریفک میں پھنس جاتا ہے تو اس باسکٹ سے وہ ضرورت کی چیزیں لے کر استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے لیے روشنی نے یونی لیور کیساتھ شراکت داری کی ہے جن کی شیمپو ایکسپرینس باسکٹ میں موجود ہوتی ہے۔
مستقبل میں بغیر سرمایہ کاری روشنی کیسے ترقی کریگی؟ رواں سال اکتوبر میں ہی ائیرلفٹ نے 12 ملین ڈالر جبکہ سیول (Swvl) نے پاکستان میں 25 ملین ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔ روشنی کتنی سرمایہ کاری کریگی؟
تاہم حنا کہتی ہیں کہ ’’ہم جانتے ہیں سیول اور ائیرلفٹ خالی کاریں چلا کر رقم ضائع کر رہی ہیں، لیکن وہ صرف برانڈ کی موجودگی ثابت کرنے پر لگے ہیں۔‘‘ اسکی بجائے حنا روشنی سے متعلق بات کرتی ہیں تو کہتی کہ روشنی کے بانیان پر اسکی بھاری ذمہ داری ہے۔
ائیرلفٹ پر تنقید آسان ضرور ہے تاہم اسکی بسیں پورے کراچی میں نظر آتی ہیں جبکہ اس کے مقابل روشنی رائیڈز شاذ ہی نظر آتی ہیں۔ حنا کیمطابق روشنی سب سے پہلے اپنی پروڈکٹ اور ایپ کو بہتر کرنے پر توجہ دے رہی ہے کیونکہ ائیرلفٹ کی ٹیکنالوجی میں کافی نقائص ہیں اور انکی ٹریکنگ کی صلاحیت بھی ناکام ہے۔
حنا نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ اپنی مدمقابل کمپنیوں کیخلاف نہیں ہیں کیونکہ وہ اکیلے پورے کراچی کا مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔
امریکن ٹوسٹ:
روشنی کے دفتر میں سب نوجوان ہیں، حسن عثمانی کے مطابق اسکے اپنے فائدے اور نقصانات ہیں، ’’فائدے یہ ہیں کہ ہم میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ موجود ہے، کچھ کرنے کیلئے جس قسم کی کوشش اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہم کر پاتے ہیں، چاہے ہمارا تجربہ زیادہ نہیں ہے۔‘‘
تاہم اس کے برعکس یہ سوال بھی کہ کون کتنا پروفیشنل ہے، یہ بے حد مخصوص، بے حد امریکن ٹائپ کی کارپوریٹ گفتگو ہے جس کے جوابات حنا نے نہایت ہی اعتماد کیستاھ دئیے ہیں۔ وہ بزنس سکول کے اپنے دنوں کو کریدتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہاں کلاسز کے دوران انہیں سب کچھ سکھایا گیا تھا کہ کسی کو ای میل کیسے لکھنی ہے، ڈریسنگ کیسی ہونی چاہیے، کسی سے ہاتھ کیسے ملانا ہے، پروفیشنل بننے کیلئے مزید کافی چیزیں سکھائی گئیں جیسا کہ آئی کنٹیکٹ، مسکراہٹ، باڈی لینگوئج وغیرہ۔ ’’کراچی میں آکر کچھ زیادہ جدوجہد کرنا پڑی کیونکہ یہ شہر کچھ زیادہ کھلا ڈھلا ہے، اور یہاں جو ایک کلچر بن ہوا ہے کہ کسی کو کوئی کام کہو تو کہے گا’انشاء اللہ ہو جائیگا، ہو جائیگا‘ لیکن اس کے باوجود کام ہو نہیں پاتا۔‘‘
اس کے علاوہ پاکستان میں آکر کاروبار کرنے میں ایک مسئلہ سرخ فیتے کا ہے، حسن عثمانی کہتے ہیں ’’کہ یہاں کوئی کام کرتے ہوئے ایسی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جن کے بارے میں آپ امریکا میں سوچ تک نہیں سکتے، مثال کے طور پر بینکنگ اور فنانس اندسٹری پاکستان میں ابھی بالکل پسماندہ ہے، ہر چیز کیلئے یہاں دستخط کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، یہاں تک کہ مجھے میرے بزنس اکائونٹ کیلئے آن لائن بینکنگ کی سہولت بھی میسر نہیں۔‘‘ حنا کے مطابق کراچی میں کاروبار شروع کرتے وقت ایک بینک اکائونٹ کھلوانے میں انہیں تین ماہ لگے حالانکہ نیو جرسی میں یہ کام ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ہو جاتا ہے۔
روشنی رائیڈرز کے بانیوں کو کبھی کسی مافیا کا سامنا نہیں پڑا لیکن کراچی کا تو یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے، اورنگی ٹائون میں اپنے پائلٹ پروجیکٹ کے دنوں میں ٹیم نے صوبائی حکومت سے پرمنٹس لینے کی کوشش کی کہ ان کے رکشے ٹرانسپورٹ یا واٹر مافیا کی جانب سے جلائے نہیں جائیں گے۔ حنا کہتی ہیں کہ ’’یہ ہمارے لیے بڑا سبق تھا، امریکا میں مافیا یا اس قسم کی کسی چیز کا تصور بھی نہیں۔‘‘ شائد یہ بات درست نہ ہو کہ امریکا میں مافیاز کا وجود نہیں۔
مستقبل کا سوال:
کمپنی آگے بڑھنا چاہتی ہے، حسن نے بتایا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ پک اینڈ ڈراپ یا کارپولنگ سروس روشنی کا ہم معنی ہو جائے۔ کسی خاتون کو پک اینڈ ڈراپ سروس چاہیے تو اس کے ذہن میں پہلا نام روشنی کا آنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ کمپنی اپنے مقاصد میں سے 20 فیصد حاصل کر چکی ہے۔
اپنے ماڈل اور ٹیکنالوجی میں مزید بہتر کے بعد ہو سکتا ہے روشنی بڑے پیمانے پر کام کرے، آئندہ اقدامات کیلئے انہیں سرمایہ کاروں کی بھی ضرورت ہے تاکہ ایک ملین ڈالر سے زائد رقم جمع ہو سکے۔ تاہم حنا کہتی ہیں کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔
رپورٹ: مریم علی