خبیث عورت: میمز پر مبنی یہ فیس بک پیج ایک کاروبار کیسے بن گیا؟

2907

فیس بک پر یہ پیج بالکل غلطی سے بنا تھا لیکن 2016ء میں لبنیٰ اختر کو احساس ہوا کہ یہ پیج انکی ہیومن ریسورس والی نوکری سے زیادہ کما کر دے رہا ہے۔

ایک چھوٹے سے لطیفے سے شروع ہونے والا یہ پیج دیکھتے ہی دیکھتے منافع بخش بن گیا اور لبنٰی کو فیس بک کی جانب سے پہلا چیک 75 ہزار روپے کا موصول ہوا۔

ایک فیس بک پیج ہو سکتا ہے کوئی بڑا کاروبار نہ ہو، حتٰی کہ آئندہ کیلئے کوئی انٹرپرینیورل وینچر بھی نہ ہو لیکن اس سے اچھی خاصی آمدن ہو رہی تھی، اسے صرف ایک مشغلے کے طور پر چلا کر لبنٰی اپنی اس نوکری سے زیادہ کما رہی رھیں جس کیلئے وہ پورا مہینہ خون پسینہ ایک کرتی تھیں۔

یہ فیس بک پیج ’’خبیث عورت‘‘ کے نام سے چلایا جا رہا ہے، اس میں خواتین کی تصویروں پر مشتمل پرانے امریکی اشتہارات پر اردو زبان میں معاشرے، سیاست اور روزمرہ کی چھوٹی موٹی باتوں پر مزاحیہ تبصرے کیے جاتے ہیں۔

اس پیج کے 10 لاکھ سے زیادہ فولورزہیں، حال ہی میں لبنیٰ کی مصروفیات اور دیگر کاموں کی جانب توجہ ہونے سے پیج پر مناسب کام نہیں ہو سکا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ ایک فیس بک پیج چلانے کیلئے اپنی نوکری چھوڑ سکتے ہیں؟

لبنیٰ فیس بک سے کیسے کما رہی ہیں اور فیس بک پر کام کیسے کیا جاسکتا ہے، ان سب سوالوں کے جوابات جاننے کیلئے پرافٹ اردو نے لبنیٰ اختر سے بات کی۔

غیر ارداری طور پر آغاز:

نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوایجز (نمل) میں زیر تعلیم لبنیٰ اور انکی دوست مہوش کلاس میں مسخرے سمجھے جاتے تھے، بعدازاں ان کی حرکتوں کی وجہ سے دوستوں نے انہیں ’’خبیث‘‘ کا خطاب دے دیا۔ خبیث عورت سے پہلے ’’Bitchy Urdu Cards‘‘ کے نام سے ایک فیس بک پیج چل رہا تھا اس پر ایسا کچھ ہی شائع کیا جاتا تھا جو لبنیٰ اب اپنے پیج پر کرتی ہیں یعنی خواتین اور فیمیلز کی پرانی 1950 والی تصویروں پر مزاحیہ اردو جملے لکھ کر تبصرہ نگاری کی جاتی تھی۔

اس آئیڈیا کچھ ایسا تھا جو فوری ذہن میں بیٹھ گیا، ونٹیج اشتہارات دراصل پچاس اور ساٹھ کی دہائی سے تعلق رکھتے ہیں جب اشتہارای صنعت کا آغاز ہو رہا تھا، دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی میں معاشی خوشحالی آئی جس نے اعلیٰ سطح کی تخلیق اور حقیقی زندگی میں Don Drapers اور Mad Men کو جنم دیا جن کے نام پر نیویارک کا Madison Avenue بنا جہاں اس زمانے میں تمام بڑی اشتہاری کمپنیوں کے دفاتر موجود تھے۔

جنس پر مبنی اشتہارات کی Buzzfeed کی فہرست میں اس زمانے کے اشتہارات کو آج کم درجے پر رکھا جاتا ہے، انہی اشتہارات کو اردو ٹیکسٹ کیساتھ عورتوں سے جڑے سماجی مسائل کے حوالے سے میمز بنا کر پیش کرنا بالکل ایک سادہ سا کام لگتا ہے۔

لبنیٰ نے صرف شغل کے طور پر کچھ کونٹنٹ Bitchy Urdu cards نامی پیج کو بھیجنا شروع کردیا جو انہوں نے لبنیٰ کے کریڈٹ کے ساتھ شائع بھی کیا، بعدازاں شائد پیج کے اصل ایڈمن نے کام چھوڑدیا یا اسکی دلچسپی ختم ہو گئی انہوں نے باقاعدگی سے پوسٹنگ بند کردی، جس کے بعد لبنیٰ نے ’’خبیث عورت‘‘ کے نام سے پیج بنایا۔ ابتدائی دنوں میں یہ پیج بالکل ایک تخلیقی آئوٹ لیٹ تھا جو مشاہدات اور معاشرتی تنقید کیلئے ایک وینٹنگ بورڈ بن گیا۔ اسے بہتر بنانے کیلئے پہلے والے پیج کا تجربہ بھی کام آیا اور ’’آنٹی ایسڈ‘‘ جیسے دیگر فیس بک پیجز سے بھی استفادہ کیا گیا جن کی پوسٹس میں بے باکی زیادہ نظر آتی تھی۔

لبنیٰ کہتی ہیں کہ ’’جو کچھ ہمارے اردگرد ہو رہا ہے اس پر آنے والے غصے کے اظہار کیلئے میں نے یہ راستہ چنا، میں فطری طور پر بالکل خاموش شخصیت ہوں لہٰذا ایک کردار کے ذریعے اپنا غصہ باہر نکالنے پر اچھا لگا۔‘‘

’’خبیت عورت‘‘ پر غیرت کے نام پر قتل، بچوں کی پرورش، سیاسی تبصرے اور دیگر سماجی دقیانوسی تصورات پر کھل کر بات کی جاتی ہے جس کی وجہ سے لبنیٰ کو دھمکیاں بھی ملیں تاہم اس کے باوجود پیج پر بے باکی بڑھتی رہی اور اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

یہ سب شروع کیسے ہوا؟

لبنیٰ نے بتایا کہ ’’میرے اس پیج سے پہلے میں جس پیج کیلئے کونٹنٹ فراہم کرتی تھی وہا بھی ایسے ہی انگریزی کرداروں کی تصاویر اور اردو زبان ہی استعمال کی جاتی تھی، مجھے محسوس ہوا کہ پیجز کرداروں اور میمز میں کچھ تبدیلیاں کرتے ہیں لیکن میں نے بنیادی کردار (انگریزی خواتین کے اشتہارات) کو کئی وجوہات کی بناء پر ویسے کا ویسا رکھا۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ ایسی تصاویر آن لائن طور پر بآسانی دستیاب تھیں، دوسری یہ کہ مجھے فوٹوشاپ وغیرہ کا کچھ زیادہ علم نہیں، تیسری یہ کہ میں تصویر یا کردار کی بجائے اپنے اردو ٹیکسٹ پر زیادہ توجہ دے سکوں۔ مجھے جو بھی تصویریں چاہیے ہوں وہ آسانی سے مل جاتی ہیں، پھر یہ بھی تھا کہ پیج کو بنیادی طور پر توجہ صرف اسی کردار کی وجہ سے مل رہی تھی تو میں تبدیل کرنے کا رسک کیوں لیتی؟ اب تو مجھے بھی یہ تصویریں اچھی لگنے لگی ہیں تو اب انہیں تبدیل کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’میں جو تصاویر استعمال کرتی ہوں وہی بہت سے دیگر فیس بک پیجز بھی استعمال کرتے ہیں، بعض اوقات کچھ شائقین بھی مجھے تصاویر بھیج دیتے ہیں، اس لیے جو بنیادی کردار میں اپنے صفحے (خبیث عورت) پر شائع کررہی ہوں وہ کسی طرح بھی کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتا، نا ہی مجھے ایسی کوئی شکایت موصول ہوئی ہے۔ بعض اوقات مقامی طور پر مشہور شخصیات کی تصاویر بھی استعمال کی جاتی ہیں اور دو بار تو ایک فوٹوگرافر کی تصویریں بھی استعمال کرچکی ہوں۔ دونوں بار مجھے کال موصول ہوئی، ایک نے کہا کہ انہیں کریڈٹ دوں اور دوسری جانب سے کہا گیا کہ فوٹو ہٹا دوں، سو میں نے ایسا ہی کیا۔‘‘

جیسے جیسے پیج مشہور ہوا اس میں دلچسپی بھی بڑھتی گئی، یہی وہ وقت تھا جب ایک مشغلے سے شروع ہونے والا صفحہ ’’خبیث عورت‘‘ ایک چھوٹے درجے کا بزنس بن چکا تھا، یہ سب کچھ کاغذ (ایک اور فیس بک پیج جہاں کاغذ کی بنی چیزیں پیش کی جاتی ہیں) کیساتھ شروع ہوا تھا، یہاں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ لبنٰی کی شادی بعدازاں ’’کاغذ‘‘ کے ایڈمن عزیر سے ہوئی۔

لبنیٰ نے اس حوالے سے بتایا کہ ’’کسی نے انہیں (کاغذ) آرڈر دیا تھا کہ میرے ڈیزائن استعمال کرتے ہوئے کچھ نوٹ بکس بنا کردیں جس کے بعد انہوں نے مجھ سے اجازت کیلئے رابطہ کیا، اسی طرح میں نے ایک دوسرے سٹارٹ اپ ’’نوٹ بک‘‘ کیستاھ کام کیا،’’Muggay‘‘ نے بھی میرے ڈیزائن استعمال کرنے کی اجازت مانگی اور اپنے ساتھ کام کرنے کو کہا، بہت سے دیگر پیجز نے بھی رابطہ کیا۔‘‘

تاہم دیگر فیس بک پیجز اور ڈیلرز ’’خبیث عورت‘‘ کی طرح نہیں تھے، لبنیٰ کیہتی ہیں کہ انہیں بہت سی باتوں کا ادراک مخلتف سٹارٹ اپس کیساتھ کام کرنے کے بعد ہوا، بہت سے پیجز تو میرے علم میں لائے بغیر میرا کام استعمال کررہے تھے۔ ابتداء میں انکی شکایت بھی کی۔

اس طرح کے چھوٹے درجے کے کاروبار کا بزنس ماڈل بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوتا، مالی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہاں صفر سرمایہ کاری ہے تاہم تھوڑا مالیاتی رسک موجود ہے لیکن منافع اچھا ہے۔

’’خبیث عورت‘‘ کے ڈیزائنز ان مخلتف کاروباروں کی جانب سے استعمال کیے گئے، بہت سے لوگ ان کے پاس بھی آئے اور ایک خاص قیمت کے عوض ڈیزائن حاصل کرنے کی بات کی، اب یہ لبنیٰ پر تھا کہ وہ کس حد تک اپنی پروڈکٹس کا مارجن رکھتی ہیں، تھوڑی بہت بحث کے بعد کسی بھی چیز کی قیمت طے کرنے کا اختیار انہیں مل بھی گیا۔

اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایسے کاروبار ایسی ہوڈیز یا مگ متعارف کروا دیتے ہیں جن پر عجیب و غریب ڈیزائن بنے ہوتے ہیں، جیسے کہ عورت مارچ کے نعرے۔ ایسے پیج کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ پروڈکشن، ایڈورٹائزمنٹ اور ڈلیوری تک سب کچھ مال تیار کرنے والوں کی ذمہ داری ہوتی ہے اور ڈیزائن کا مالک سیلز کے جھنجھنٹ میں پڑے بغیر صرف اپنا مارجن لیتا رہتا ہے۔

اس حوالے سے لبنیٰ اختر کا کہنا تھا کہ ’’چونکہ پروڈیوسرز کی سیلز پہلے ہی زیادہ ہوتی ہیں اور انکی مارکیٹ پہلے سے قائم شدہ ہوتی ہے، اس لیے وہ جو پرڈکٹ تیار کرتے ہیں اسکی قیمت اپنے مطابق ہے رکھتے ہیں‘‘، لیکن اگر پروڈکٹ سستی تیار ہوئی ہے تو اس میں بھی کافی زیادہ مارجن ہوتا ہے، ’خبیث عورت‘ کے کیس میں ایسا صرف کچن میں استعمال ہونے والی اشیاء (کپ وغیرہ) پر ہوتا ہے، اسکے علاوہ کافی ایسی چیزیں بھی رکھنا پڑتی ہیں جن کی فروخت بہت ہی کم ہوتی ہے، ’’میں تکیے رکھتی ہوں گوکہ ان کی فروخت کم اور منافع بے حد کم ہے لیکن پھر بھی یہ ہمارے ڈیزائن کے مطابق ہوتے ہیں۔‘‘

چونکہ مینوفیکچررز مارکیٹنگ اور آرڈر مینجمنٹ کے ذمہ دار ہیں لہذا وہ بھی ایسے افراد بن جاتے ہیں جو ایسی مصنوعات کیلئے ٹارگٹ مارکیٹ کا تعین کرتے ہیں ، تاہم ڈیزائنرز اور تخلیق کار اپنے مواد کو ایک خاص انداز میں رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

’’میرے پیج پر کم وبیش 70 فیصد خواتین آتی ہیں، ان میں سے بھی وہ جو 18 سال 28 سال کی ہیں، اس لیے مجھے معلوم ہے کہ یہی خواتین میری چیزوں کی خریدار بھی بن جائیں گی، لیکن بعض اوقات کچھ پروڈکٹس ایک خاص طبقے کیلئے ہوتی ہیں مثال کے طور پر کچن کی اشیاء صرف گھریلو خواتین ہی خریدتی ہیں۔‘‘

لبنیٰ کہتی ہیں کہ ’’جب میں نے 2016 میں Myggay  کیساتھ کام شروع کیا تو اس وقت میں ایک آئی ٹی کمپنی میں بطور ایچ آر پروفیشنل اچھا کما رہی تھی۔ لیکن خبیث عورت سے میری پہلی کمائی 75 ہزار روپے تھی جو کہ میری سیلری سے زیادہ تھی اور مجھے یہ دیکھ کر حیرت کا جھٹکا لگا، اس وقت مجھے اس کی قدر کا احساس ہوا، تاہم اس کے بعد کچھ مسائل کی بناء پر میں نے Muggay کیساتھ کرنا بند کردیا، ان کے ایک ملازم  نے مجھے بتایا کہ Muggay کو کم و بیش 70 فیصد آمدن میرے بنائے ڈیزائنز سے ہو رہی تھی۔ اس بات نے بھی حوصلہ بخشا اور میں نے اس مشغلے کو کاروبار میں تبدیل کرلیا۔‘‘

تاہم جب آپ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر فالورز کی ایک خاص تعداد حاصل ہو جاتی ہے تو رقم کمانے کے کئی دیگر دروازے بھی کھل جاتے ہیں، اپنے پیج پر کسی برانڈ کی پروموشن یا اسکی پروڈکٹس کی تشہیر کرنا بھی ایسا ہی ایک ذریعہ ہے۔ تاہم اس کے اپنے مسائل ہیں۔

لبنیٰ نے کہا کہ ’’میں پروموشن کرتی ہوں اور اس سے بھی اچھا کما لیتی ہوں، لیکن کبھی کبھار برانڈز اپنی پروڈکٹس کیساتھ اپنی پوسٹیں پروموٹ کرنے کا بھی کہتے ہیں جس کی وجہ سے میرے اپنے پیج کی آرگینک ٹریفک متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح جب صرف کمائی پر دھیان دوں تو تخلیق کاری متاثر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے پیج کی مجموعی کارکردگی اور کمائی پر اثر پڑتا ہے۔

اپنی پروڈکٹس یا فیس بک پر اب تک لبنیٰ نے جیپ سے ایک پائی خرچ نہیں کی، ’’در حقیقت یہ ایک بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے میں براہ راست پروموشن سے پیچھے ہٹ گئی کیونکہ جب آپ کو پوسٹوں پر پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے کیونکہ برانڈز آپ سے تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی پوسٹس کو زیادہ سے زیادہ بڑھائیں لیکن اسکی وجہ سے ہماری اپنی آرگینک ٹریفک اور فالونگ متاثر ہوتی ہے۔‘‘اس میدان میں مسابقت سے لبنیٰ پریشان نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کی تخلیق اتنی مختلف ہوتی ہے کہ انکے فالورز اور کسٹمرز کسی اور کی طرف جاتے ہی نہیں۔ حال ہی میں ’’خبیث عورت‘‘ میں کانٹنٹ وقفے سے شئیر ہو رہا ہے یا بالکل شئیر نہیں ہو رہا، جس کا مطلب ہے کہ کمائی بھی نہیں ہو رہی، اور اسکی واضح وجہ یہ ہے کہ لبنیٰ دیگر کاموں میں مصروف ہیں۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ ’’امید ہے میں کسی دن اپناسٹور کھولوں گی جس میں تمام پروڈکٹس خبیث عورت کے ڈیزائنز پر ہی مشتمل ہوں، تاہم اس میں وقت لگے گا۔‘‘

آن لائن کاروبار کی نوعیت اور فیس بک کی ہمیشہ پھیلتی ہوئی پراسرار دنیا میں شاید سب سے ستم ظریفی یہ ہے کہ شاید اس طرح کی کوئی دکان ڈوب جائے گی۔ تاہم فیس بک پر کاروبار ابھی تک تو مستحکم طور پر فروغ پا رہے ہیں۔

(سیدہ معصومہ)

جواب چھوڑیں

Please enter your comment!
Please enter your name here